1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین اور بھارت کی عسکری طاقت کا تقابل

شمشیر حیدر
5 ستمبر 2020

بھارت اور چین کے مابین گزشتہ مہینوں سے سرحدی کشیدگی میں شدت دیکھی جا رہی ہے۔ عسکری طاقت کے اعتبار سے دنوں ممالک کہاں کھڑے ہیں؟ ایک نظر دونوں ممالک کی صلاحیتوں پر۔

China Indien Grenzkonflikt
تصویر: picture-alliance/AP Photo/CCTV

گلوبل فائر پاور نے 138 ممالک کی فوجی افرادی قوت، بری، بحری اور فضائی قوت، دفاعی بجٹ سمیت سات پہلوؤں کا جائزہ کر ان کی درجہ بندی کی۔ اس مفصل درجہ بندی میں امریکا پہلے اور روس دوسرے نمبر پر ہے، جب کہ چین کو تیسرے اور بھارت چوتھے نمبر پر رکھا گیا ہے۔

چین اور بھارت کی افرادی قوت کا تقابل

چین ایک ارب 38 کروڑ نفوس کے ساتھ دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔ بھارت بھی چین سے کچھ ہی پیچھے ہے اور اس کی آبادی ایک ارب 30 کروڑ کے قریب ہے۔

گلوبل فائر پاور کے مطابق اس وقت چین کے فعال فوجیوں کی تعداد 22 لاکھ کے قریب ہے۔ اس کے مقابلے میں بھارتی فعال فورسز کی تعداد قریب ساڑھے چودہ لاکھ ہے۔

دوسری جانب ریزرو میں بھارت کے پاس 21 لاکھ اور چین کے پاس پانچ لاکھ سے کچھ زائد فوجی دستیاب ہیں۔

دفاعی بجٹ میں چین کی برتری

چین کا دفاعی بجٹ بھارت سے کئی گنا زیادہ ہے۔ چین کا بجٹ دو کھرب 37 ارب امریکی ڈالر ہے اور اس کے مقابلے میں بھارتی دفاعی بجٹ 61 ارب امریکی ڈالر ہے۔

عسکری طاقت کا جائزہ لیتے وقت ممالک کی معاشی صورت حال، قوت خرید، غیر ملکی ذخائر اور بیرونی قرضوں کا جائزہ لینا بھی اہم ہے۔ چین کو اس ضمن میں بھارت پر واضح برتری حاصل ہے۔

بھارت کے غیر ملکی ذخائر چار کھرب امریکی ڈالر سے زائد ہیں تو چینی فارن ریزرو 32 کھرب امریکی ڈالر سے زائد ہے۔

فضائی افواج کا تقابل

بھارتی فضائیہ کے پاس دستیاب مجموعی ایئر کرافٹس کی تعداد 2123 ہے، جب کہ چین کے مجموعی ایئر کرافٹس کی تعداد 3210 ہے۔

لڑاکا طیاروں کی بات کی جائے تو چین کو واضح برتری حاصل ہے، جس کے پاس 1232 جب کہ بھارت کے پاس 538 لڑاکا طیارے ہیں۔

لڑاکا ہیلی کاپٹرز کے حوالے سے بھی چین ایسے 281 ہیلی کاپٹرز کے ساتھ برتر پوزیشن پر ہے۔ بھارتی جنگی ہیلی کاپٹرز کی تعداد محض 23 ہے۔ تربیتی طیارے بھارت کے پاس چین کی نسبت کچھ زیادہ ہیں۔

مجموعی اعتبار سے چین کے پاس لڑاکا اور جنگی فضائی مشینوں کی تعداد 1500 کے قریب بنتی ہے جب کہ بھارت کے پاس یہ تعداد 600 سے کم ہے۔

زمینی فوجی طاقت

بری عسکری طاقت میں ٹینک، آرٹلری، آرمڈ گاڑیاں اور میزائل کلیدی اہمیت کے حامل سمجھے جاتے ہیں۔

بھارت کو کامبیٹ ٹینکوں کے حوالے سے برتری حاصل ہے۔ بھارت کے پاس ایسے 4292 ٹینک ہیں جب کہ چین کے پاس 3500 ٹینک ہیں۔

دوسری جانب خودکار آرٹلری کی بات کی جائے تو چین 3800 'سیلف پروپیلڈ آرٹلری‘ کے ساتھ بھارت پر برتری حاصل کیے ہوئے ہے۔ بھارت کے پاس ایسی محض 235 آرٹلری ہیں۔

فیلڈ آرٹلری کی بات کی جائے تو بھارت کے پاس 4060 اور چین کے پاس 3600 ہیں۔ راکٹ پروجیکٹرز بھارت کے پاس محض 266 ہیں اور چین کے پاس 2650 ہیں۔

بحری طاقت کا تقابل

بحری حوالوں سے بھی چین کی فوجی طاقت بھارت سے کم از کم دگنی ہے۔ بھارت کے مجموعی بحری فلیٹ 285 اور چین کی فلیٹ 777 ہیں۔

آبدوزیں بھی چین کے پاس 74 ہیں اور اس کے برعکس بھارتی بحریہ کے پاس 16 آبدوزیں ہیں۔ چینی ایئر کرافٹ کیریئرز دو ہیں اور بھارت کے پاس ایک ہے۔

مختلف نوعیت کے جنگی بحری جہازوں میں بھی چین کو سبقت حاصل ہے۔

نقل و حرکت کے فوجی ذرائع اور وسائل

دیگر پہلوؤں میں فوجی مقاصد کے لیے استعمال ہونے والے انفراسٹرکچر اور وسائل میں بھی چین کی صلاحیتیں بھارت سے کہیں بہتر ہیں۔

ہوائی اڈوں اور بندرگاہوں کی تعداد، سڑکوں اور ریلوے ٹریکس کی طوالت، ملک کے اندر دریاؤں اور نہروں کے ذریعے عسکری نقل و حرکت، ملک میں تیل کی پیدوار اور ریزرو جیسے معاملات، ان سب حوالوں سے چین کو برتری حاصل ہے۔

بھارت کی نسبت چین کی زمینی اور بحری ملکی سرحدوں کے دفاع کی یا ان کے ذریعے حملہ کرنے کی صلاحیت بھی بہتر ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں