چین اور تائیوان کے درمیان براہ راست رابطے بحال
15 دسمبر 2008دونوں ملکوں کے درمیان 1949 میں خانہ جنگی کے بعد ہر طرح کے رابطے منقطع ہو گئے تھے۔ تاہم چین پھر بھی تائیوان کو اپنا صوبہ قرار دیتا تھا اور اسے اپنے زیرانتظام لانے کے لئے کسی بھی حد تک جانے کو تیار دکھائی دیتا تھا۔ اس لئے گزشتہ چھ دہائیوں سے جاری مسلسل سرد جنگ کے بعد، دونوں ملکوں کے درمیان بحری، فضائی اور پوسٹل رابطوں کی باقاعدہ بحالی کو تاریخی پیش رفت قرار دیا جارہا ہے۔ فریقین کا خود بھی یہی کہنا ہے کہ براہ راست رابطوں سے باہمی تعلقات بہتر بنانے میں مدد ملے گی۔
تائیوان کے صدر Ma Ying-jeos نے Kaohsiung کی بندرگاہ پر چین کے لئے براہ راست شپنگ سروس کی افتتاحی تقریب سے خطاب میں کہا: "اب سے اختلافات نہیں مذاکرات ہوں گے۔ دونوں ممالک امن اور خوشحالی کے لئے مل کر کام کر سکتے ہیں۔"
چین نواز Ma Ying-jeos رواں برس مارچ میں تائیوان کے صدر بنے جس سے چین مخالف Chen Shui-bian کے آٹھ سالہ اقتدار کا خاتمہ ہو گیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی دونوں ممالک کے تعلقات میں گرمجوشی آنا شروع ہوگئی تھی۔
رواں برس جون میں تائیوان اور چین کے مابین بیجنگ میں مذاکرات ہوئے جو دس سال میں فریقین کے درمیان پہلا براہ راست اجلاس تھا۔ اس سے قبل دونوں ملکوں کے درمیان براہ راست ہفتہ وار پروازیں رواں سال جولائی میں شروع ہو گئی تھیں جبکہ 2006 میں سرکاری چھٹیوں کے موقع پر بھی فضائی رابطے بحال کئے گئے تھے۔
دوسری جانب چینی حکام نے بھی اس پیش رفت کو مثبت قرار دیا ہے۔ چین کے دفتر امور تائیوان کے ڈائریکٹر Wang Yi نے کہا: "آج دونوں ممالک کی تاریخ میں ایک اور اہم دن ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان خوشگوار تعلقات کے عمل کو روکا نہیں جا سکتا۔"
اس سے پہلے تائی پے اور بیجنگ کے درمیان براہ راست رابطے نہ ہونے کی وجہ سے کسی تیسرے ملک کے راستے سفر یا تجارت ہوتی تھی۔ یہ طریقہ مہنگا بھی تھا اور اس میں دیر بھی زیادہ لگتی تھی۔ حکام کا کہنا ہے کہ دونوں جانب سے کم از کم 12 فضائی کمپنیاں ہر ہفتے 12 شہروں کے لئے 100 پروازیں چلائیں گی۔ اُدھر دونوں جانب سے براہ راست بحری رابطے شروع ہونے سے مسافت میں تقریبا چار دن کی کمی ہوجائے گی جبکہ فضائی رابطوں سے ہوائی سفر کا دورانیہ بھی 80 منٹ تک کم ہو جائے گا۔
تائیوان کے حکام کے مطابق روزانہ پروازوں کے نتیجے میں مقامی فضائی کمپنیوں اور مسافروں کو سالانہ 90 ملین ڈالر کا فائدہ ہو گا جبکہ براہ راست بحری رابطوں کی بحالی سے جہاز راں اداروں کو ایک بلین ڈالر سے زائد کا فائدہ ہوگا۔