1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتایشیا

 جزائر سلیمان کے ساتھ چینی معاہدے سے امریکہ فکر مند

20 اپریل 2022

چین اور جزائر سلیمان کے مابین ہونے والے سکیورٹی معاہدے پر امریکہ، جاپان، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس سے آسٹریلیا کے پاس بحر الکاہل کے جزائر میں سے ایک پر چینی اثر و رسوخ  میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

 Manasseh Sogavare, Jeremiah Manele,  Li Keqiang und Wang Yi
تصویر: Thomas Peter/REUTERS

وائٹ ہاؤس نے کہا ہے کہ امریکہ، جاپان، نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا نے چین اور جزائر سلیمان کے درمیان ہونے والے نئے سیکورٹی معاہدے پر اپنی گہری تشویش ظاہر کی ہے۔

امریکی قومی سلامتی کونسل کی ترجمان ایڈرینی واٹسن نے کہا، ''چاروں ممالک کے حکام نے جزائر سلیمان اور عوامی جمہوریہ چین کے  درمیان مجوزہ سیکورٹی فریم ورک پر تشویش کا اظہار کیا، اس سے آزاد اور کھلے ہند- بحرالکاہل کے لیے سنگین خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔''

چین نے منگل کے روز اعلان کیا تھا کہ اس نے جزائر سلیمان کے ساتھ ایک معاہدے پر دستخط کیے ہیں، حالانکہ جنوبی بحرالکاہل کے جزائر کے حکام نے ابتدائی طور پر یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ ابھی دستخط ہونا باقی ہیں۔ پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئرمین ڈگلس ایٹے نے کہا تھا کہ چینی حکام تعاون کے معاہدوں پر دستخط کرنے کے لیے اگلے ماہ آئیں گے۔

 وزیر اعظم مناسی سوگاورے نے یہ بھی کہا تھا کہ چین کے ساتھ سیکورٹی معاہدے میں کوئی فوجی اڈہ شامل نہیں ہو گا اور یہ بھی کہا گیا کہ یہ معاہدے تجارت، تعلیم اور ماہی گیری جیسے امور کے لیے تعاون پر مرکوز ہوں گے۔

خطے میں بڑھتے چینی اثر و رسوخ پر تشویش میں اضافہ

تیزی سے بدلتی صورتحال کے تناظر میں، امریکہ نے جزائر سلیمان کے دارالحکومت ہونارا کے لیے اسی ہفتے ایک اعلیٰ سطحی وفد بھیجنے کا اعلان کیا ہے۔ اس وفد کی قیادت قومی سلامتی کونسل اور ہند-بحرالکاہل کے کوآرڈینیٹر کرٹ کیمبل اور مشرقی ایشیائی اور بحرالکاہل کے امور کے اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ ڈینیئل کرٹن برنک کر رہے ہیں۔

وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ اسے اس معاہدے میں ''شفافیت کی کمی اور اس کی غیر واضح نوعیت'' کے بارے میں فکر لاحق ہے۔

تصویر: Charley Piringi/AP/picture alliance

امریکی نیشنل سکیورٹی کونسل کے ایک ترجمان کا کہنا ہے کہ اس معاہدے میں بھی، ''اسی چینی طرز کی پیروی کی گئی ہے، جس میں ماہی گیری، وسائل کے انتظام، ترقیاتی امداد، اور اب سیکورٹی کے طریقہ کار میں بہت ہی قلیل علاقائی مشاورت کے ساتھ، مبہم ڈیل کی پیشکش کی گئی ہے۔''

ان کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ، ''سمندری سلامتی اور اقتصادی ترقی سے لے کر موسمیاتی بحران اور کووڈ 19 جیسے 21ویں صدی کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے خطے میں اپنی مصروفیت کو تیز تر کرے گا۔''

آسٹریلیا کی شدید مایوسی

آسٹریلوی حکام نے نئے سیکورٹی معاہدے کی روشنی میں آسٹریلیا کے ساحلوں سے 2,000 کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر چینی افواج کی ممکنہ موجودگی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ وزیر خارجہ ماریس پینے نے کہا کہ آسٹریلیا اس سے ''شدید طور پر مایوس'' ہے اور چین کی طرف سے دستخط کے اعلان کے بعد اب معاہدے کی شرائط کی تفصیلات جاننے کی کوشش کر رہا ہے۔

دریں اثنا، حزب اختلاف کی لیبر پارٹی نے اس اعلان کو گزشتہ تقریباً 80 برسوں کے دوران خطہ ''بحرالکاہل میں آسٹریلوی خارجہ پالیسی کی بدترین ناکامی'' قرار دیا، اور اس کا الزام وزیر اعظم اسکاٹ موریسن پر عائد کیا۔

آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ طویل عرصے سے بحرالکاہل کو اپنا پچھلا حصہ سمجھتے رہے ہیں اور اس حوالے سے کسی بھی سکیورٹی معاہدے کو خطے میں اپنے مفادات کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔

جزائر سلمیان کی انتظامیہ نے سن 2017 میں آسٹریلیا کے ساتھ بھی ایک حفاظتی انتظام پر دستخط کیے تھے اور دارالحکومت ہونارا کا کہنا ہے کہ بیجنگ کے ساتھ سکیورٹی معاہدے کا اس پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔

ص ز/ ج ا (روئٹرز، اے پی)

چین کے 70 برس پر ایک نظر

02:03

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں