چین اور روس اقوام متحدہ حقوق انسانی کونسل کے لیے منتخب
14 اکتوبر 2020
سعودی عرب اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کونسل کی رکنیت حاصل کرنے کی دوڑ میں ناکام ہو گیا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس پر انسانی حقوق کے علمبرداروں کو نشانہ بنانے کا الزام لگاتے ہوئے اس کی امیدواری کی مخالفت کی۔
اشتہار
اقوام متحدہ کے حقوق انسانی کونسل کی رکنیت کے لیے منگل کے روز ہونے والے انتخابات میں انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے مخالفت کے باوجود چین، روس اور کیوبا منتخب ہو گئے لیکن اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود سعودی عرب اس باوقار ادارے کی رکنیت حاصل کرنے کی دوڑ میں نا کام رہا۔
روس اور کیوبا اپنے گروپ میں بلا مقابلہ منتخب ہو گئے لیکن ایشیا بحرالکاہل گروپ کے چار نشستوں کے لیے ہونے والی ووٹنگ میں چین نے سعودی عرب کو مات دے دی۔
امیدواروں کا انتخاب خفیہ ووٹنگ کے ذریعہ جغرافیائی گروپوں کی بنیاد پر کیا گیا تاکہ تمام خطوں کی نمائندگی یقینی بنائی جا سکے۔ سعودی عرب ایشیا بحرالکاہل گروپ میں تھا، جس میں چار سیٹوں کے لیے اس کے ساتھ پانچ امیدوار میدان میں تھے۔ 193 رکنی ادارے کے انتخابی نتائج کے مطابق پاکستان کو 169ووٹ، ازبکستان کو 164ووٹ، نیپال کو 150ووٹ، چین کو 139ووٹ اور سعودی عرب کو صرف 90 ووٹ حاصل ہوئے۔
نئے اراکین کی مدت کار یکم جنوری سن2021 سے شروع ہو گی۔
سعودی عرب کی مخالفت
تنظیم ہیومن رائٹس واچ اورحقوق انسانی کی دیگربین الاقوامی تنظیموں نے سعودی عرب کی امیدواری کی شدید مخالفت کی۔ انہوں نے الزام لگایا کہ سعودی عرب حقوق انسانی کے علمبرداروں، حکومت کے ناقدین اور حقوق انسانی کے لیے سرگرم خواتین کو مسلسل نشانہ بنا رہا ہے اور اس نے صحافی اور سعودی ناقد جمال خاشقجی کے قتل سمیت ماضی میں حقوق انسانی کی اپنی خلاف ورزیوں کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ اقدام نہیں کیا ہے۔
جمال خاشقجی: پراسرار انداز میں گمشدگی اور ہلاکت
سعودی حکومت نے جمال خاشقجی کے قتل کے حوالے سے بیانات کئی مرتبہ تبدیل کیے۔ وہ دو اکتوبر کو استنبول میں واقع سعودی قونصل خانے میں گئے اور لاپتہ ہو گئے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Martin
کیا ہوا میں تحلیل ہو گئے؟
دو اکتوبر: سعودی عرب کے اہم صحافی جمال خاشقجی استنبول میں اپنے ملکی قونصل خانے گئے اور پھر واپس نہیں آئے۔ وہ اپنی شادی کے سلسلے میں چند ضروری کاغذات لینے قونصلیٹ گئے تھے۔ اُن کی ترک منگیتر خدیجہ چنگیز قونصل خانے کے باہر اُن کا انتظار کرتی رہیں اور وہ لوٹ کے نہیں آئے۔
تصویر: Reuters TV
قونصل خانے میں موجودگی کے بارے میں معلومات نہیں
تین اکتوبر: ترک اور سعودی حکام نے جمال خاشقجی کے حوالے سے متضاد بیانات دیے۔ سعودی دارالحکومت ریاض سے کہا گیا کہ صحافی خاشقجی اپنے کام کی تکمیل کے بعد قونصل خانے سے رخصت ہو گئے تھے۔ ترک صدر کے ترجمان نے اصرار کیا کہ وہ قونصل خانے کی عمارت کے اندر ہی موجود ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/V. Mayo
قتل کے دعوے
چھ اکتوبر: ترک حکام نے کہا کہ اس کا قوی امکان ہے کہ جمال خاشقجی کو قونصل خانے میں ہلاک کر دیا گیا۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے نامعلوم ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ ترک تفتیش کار ایک پندرہ رکنی سعودی ٹیم کی ترکی آمد کا کھوج لگانے میں مصروف ہے۔ یہی ٹیم قونصل خانے میں قتل کرنے کے لیے بھیجی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Jamali
ترک حکومت کو ثبوت درکار ہیں
آٹھ اکتوبر: ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے سعودی عرب سے مطالبہ کیا کہ وہ جمال خاشقجی کے قونصل خانے سے رخصت ہونے کے ثبوت مہیا کرے۔ اسی دوران ترکی نے سعودی قونصل خانے کی تلاشی لینے کا بھی ارادہ ظاہر کیا۔ امریکی صدر ٹرمپ نے بھی مقتول صحافی کی حمایت میں بیان دیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/T. Kovacs
’صحرا میں ڈاووس‘
بارہ اکتوبر: برطانیہ کے ارب پتی رچرڈ برینسن نے خاشقجی کی ہلاکت کے بعد اپنے ورجن گروپ کے خلائی مشن میں سعودی عرب کی ایک بلین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کو روک دیا۔ اسی طرح انہوں نے سعودی عرب میں سرمایہ کاری کانفرنس میں شریک ہونے سے بھی انکار کر دیا۔ سعودی عرب نے اس کانفرنس کو ’صحرا میں ڈاووس‘ کا نام دیا تھا۔ رچرڈ برینسن کے بعد کئی دوسرے سرمایہ کاروں نے بھی شرکت سے معذرت کر لی تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa
سرچ آپریشن
پندرہ اکتوبر: ترک تفتیش کاروں نے استنبول کے سعودی قونصل خانے میں خاشقجی کو تلاش کرنے کا ایک آپریشن بھی کیا۔ یہ تلاش آٹھ گھنٹے سے بھی زائد جاری رکھی گئی۔ عمارت میں سے فورینزک ماہرین نے مختلف نمونے جمع کیے۔ ان میں قونصل خانے کے باغ کی مٹی اور دھاتی دروازے کے اوپر سے اٹھائے گئے نشانات بھی شامل تھے۔
تصویر: Reuters/M. Sezer
دست بدست لڑائی کے بعد ہلاکت
انیس اکتوبر: انجام کار سعودی عرب نے تسلیم کر لیا کہ کہ قونصل خانے میں خاشقجی ہلاک ہو چکے ہیں۔ سعودی مستغیث اعلیٰ کے مطابق ابتدائی تفتیش سے معلوم ہوا کہ قونصل خانے میں دست بدست لڑائی کے دوران خاشقجی مارے گئے۔ اس تناظر میں سعودی عرب میں اٹھارہ افراد کو گرفتار کرنے کا بھی بتایا گیا۔ سعودی وزارت خارجہ نے اپنے بیان میں کہا کہ اس افسوس ناک اور دردناک واقعے کی تفتیش جاری ہے۔
تصویر: Getty Images/C. McGrath
’انتہائی سنگین غلطی‘
اکیس اکتوبر: جمال خاشقجی کی ہلاکت کے حوالے سے سعودی موقف میں ایک اور تبدیلی رونما ہوئی۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر نے قونصل خانے میں صحافی کی ہلاکت کو ’شیطانی آپریشن‘ کا شاخسانہ قرار دیا۔ انہوں نے اس سارے عمل کو ایک بڑی غلطی سے بھی تعبیر کیا۔ الجبیر نے مزید کہا کہ سعودی ولی عہد اس قتل سے پوری طرح بے خبر تھے۔ انہوں نے خاشقجی کی لاش کے حوالے سے بھی لاعلمی ظاہر کی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C. Owen
جرمنی نے ہتھیاروں کی فراہمی روک دی
اکیس اکتوبر: جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے جمال خاشقجی کی ہلاکت کے تناظر میں سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فراہمی معطل کر دی۔ سعودی عرب کو ہتھیار اور اسلحے کی فروخت میں جرمنی کو چوتھی پوزیشن حاصل ہے۔ بقیہ ممالک میں امریکا، برطانیہ اور فرانس ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Sauer
گلا گھونٹا گیا اور پھر تیزاب میں تحلیل کر دیا
اکتیس اکتوبر: ترک پراسیکیوٹر نے اپنی تفتیش مکمل کرنے کے بعد بتایا کہ سعودی قونصل خانے میں داخل ہونے کے کچھ ہی دیر بعد جمال خاشقجی کو پہلے گلا گھونٹ کر ہلاک کیا گیا اور پھر اُن کے جسم کو تیزاب میں تحلیل کر دیا گیا۔ ترک صدر نے اس حوالے سے یہ بھی کہا کہ خاشقجی کو ہلاک کرنے کا حکم سعودی حکومت کے انتہائی اعلیٰ حکام کی جانب سے جاری کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/AA/M. E. Yildirim
اقوام متحدہ میں سعودی عرب پر تنقید
اقوام متحدہ میں جمال خاشقجی کے قتل کی گونج سنی گئی اور کئی رکن ریاستوں نے تشویش کا اظہار کیا۔ عالمی ادارے کو سعودی حکومت نے بتایا کہ خاشقجی کے قتل کی تفتیش جاری ہے اور ملوث افراد کو سخت سزائیں دی جائیں گی۔ سعودی حکومت کا یہ موقف اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل میں امریکا سمیت کئی ممالک کی جانب سے شفاف تفتیش کے مطالبے کے بعد سامنے آیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Coffrini
Fiancee in mourning
خاشقجی کی منگیتر کا غم
آٹھ نومبر: مقتول صحافی جمال خاشقجی کی ترک منگیتر خدیجہ چنگیر نے ٹویٹ میں کہا کہ وہ اس غم کا اظہار کرنے سے قاصر ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ انتہائی افسوس ناک ہے کہ خاشقجی کی لاش کو تیزاب میں ڈال کر ختم کر دیا گیا۔ خدیجہ چنگیر نے یہ سوال بھی اٹھایا کہ قاتل اور اس قتل کے پس پردہ لوگ کیا واقعی انسان ہیں؟
تصویر: Reuters/Haberturk
12 تصاویر1 | 12
ہیومن رائٹس واچ کے اقوام متحدہ میں ڈائریکٹر لوئس شاہ بینو کا کہنا تھا،”انسانی حقوق کونسل کی رکنیت حاصل کرنے میں سعودی عرب کی ناکامی اس امر کی یاد دہانی ہے کہ اقوام متحدہ میں انتخابات کے لیے مزید مسابقت کی ضرورت ہے۔ اگر انتخاب کی دوڑ میں مزید امیدوار ہوتے تو چین، کیوبا اور روس کو شکست کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا تھا۔" انہوں نے مزید کہا، ”تاہم ان غیر مستحق ملکوں کی موجودگی کے باوجود کونسل حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں اور متاثرین کے حق میں آواز بلند کرتا رہے گا۔ بلکہ سچ بات تو یہ ہے کہ اب حقوق انسانی کی خلاف ورزی کرنے والے یہ ممالک براہ راست نشانے پر رہیں گے۔"
اشتہار
چین کی حمایت میں کمی
سعودی عرب سن 2016 میں جب 2017ء سے 2019ء تک کونسل کی رکنیت کے لیے آخری مرتبہ منتخب ہوا تھا تو اسے 152 ووٹ ملے تھے۔ چین 139ووٹوں کے ساتھ سعودی عرب کو پیچھے چھوڑ کر منتخب ہونے میں کامیاب رہا تاہم 2016 ء میں وہ جتنے ملکوں کی حمایت کے ساتھ کامیاب ہوا تھا اس میں اس مرتبہ 20 فیصد سے زیادہ کی کمی آئی ہے۔
چین کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں بشمول سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں کے ساتھ اس کے رویے اور ہانگ کانگ میں جمہوریت نواز مظاہرین کے ساتھ سلوک کرنے کی وجہ سے نکتہ چینی ہوتی رہی ہے۔
چین میں جبری گمشدگیاں
01:28
امریکا 2018ء میں یہ کہتے ہوئے انسانی حقوق کونسل سے الگ ہو گیا تھا کہ یہ ادارہ اسرائیل کے خلاف بدترین جانبداری برت رہا ہے اور اس میں اصلاح کی صلاحیت نہیں ہے۔
امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے منگل کے روز کہا، ''اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ایک بار پھر ان ملکوں کو منتخب کیا ہے جن کے انسانی حقوق کے ریکارڈ انتہائی بدترین ہیں۔" پومپیو کا مزید کہنا تھا کہ یہ انتخابات حقوق انسانی کونسل سے امریکا کے الگ ہونے کے فیصلے کی مزید تائید کرتے ہیں۔
'آتش زنی کرنے والوں کا گینگ‘
یورپ، امریکا اور کینیڈا پر مشتمل انسانی حقوق کے گروپوں کے ایک اتحاد یو این واچ نے گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کے رکن ممالک سے اپیل کی تھی کہ وہ چین، روس، سعودی عرب، کیوبا، پاکستان اور ازبکستان کی امیدواری کی مخالفت کریں کیوں کہ ان ملکوں کا انسانی حقوق کا ریکارڈ انہیں رکنیت کے لیے 'نااہل‘ بناتا ہے۔
اے انسان ! تیرے حقوق
بنیادی انسانی حقوق سے متعلق قوانین کا اطلاق اقوام متحدہ کے تمام رکن ملکوں پر ہوتا ہے لیکن ان پر مکمل طور پر عمل درآمد کے لیے ابھی طویل فاصلہ طے کرنا ہوگا۔
تصویر: MAK/Fotolia
سب کے لیے برابر حقوق
دس دسمبر 1948ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے پیرس میں انسانی حقوق سے متعلق اعلامیہ جاری کیا تھا۔ اس کے پہلے آرٹیکل کے مطابق تمام انسان آزاد اور حقوق و عزت کے اعتبار سے برابر پیدا ہوتے ہیں۔ تاہم اس پر عمل درآمد ابھی دور کی بات ہے۔
تصویر: Fotolia/deber73
زندگی اور آزادی کا حق
آزادی، زندگی اور سلامتی ہر ایک کا بنیادی حق ہے۔ کسی کو بھی غلام یا زندگی بھر قید نہیں رکھا جا سکتا۔ کسی کو بھی پر تشدد، ظالمانہ، غیر انسانی یا زلت آمیز سزا نہیں دی جا سکتی۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق گزشتہ پانچ برسوں کے دوران 141 ملکوں سے تشدد اور ناروا سلوک کی رپورٹیں موصول ہوئیں۔
تصویر: Leon Neal/AFP/Getty Images
قانون سب کے لیے برابر
ہر انسان مقدمے کی منصفانہ سماعت کا حق رکھتا ہے۔ وہ اس وقت تک بے قصور خیال کیا جائے گا، جب تک اس کا جرم ثابت نہیں ہو جاتا۔ قانون کے سامنے ہر کوئی برابر ہے اور کسی کو بھی صوابدیدی طور پر گرفتار، قید یا پھر ملک بدر نہیں کیا جا سکتا۔ اس وقت 80 ملکوں میں غیر منصفانہ مقدمے چلائے جاتے ہیں۔
تصویر: fotolia
کوئی انسان غیرقانونی نہیں
ہر انسان ایک ملک کے اندر آزادانہ نقل و حمل اور رہائش پذیر ہونے کا حق رکھتا ہے۔ ہر کوئی کسی بھی ملک کو چھوڑنے کا حق رکھتا ہے۔ ظلم و ستم کا شکار ہر انسان کسی دوسرے ملک میں پناہ لینے کا حق رکھتا ہے۔ ہر کوئی کسی ملک کی شہریت رکھنے کا حق رکھتا ہے۔ اس وقت کم از کم دس ملین افراد بے وطن ہیں، ان کے پاس کسی بھی ملک کی شہریت نہیں ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جبری شادیوں کے خلاف تحفظ
مرد وخواتین آزادانہ طریقے سے شادی کرنے کا حق رکھتے ہیں‘‘۔ شادی سے پہلے میاں بیوی کی رضا مندی ضروری ہے۔ مرضی سے شادی کرنے والا جوڑا معاشرے اور ریاست کی طرف سے تحفظ کا حقدار ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق دنیا میں 700 ملین خواتین جبری شادیوں کی زندگیاں بسر کر رہی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جائیداد کا حق
ہر انسان کو معاشرے میں ذاتی یا مشترکہ جائیداد رکھنے کا حق حاصل ہے۔ کسی کو بھی صوابدیدی طور پر اس جائیداد سے محروم کرنے کا حق نہیں ہے۔ اس کے برعکس دنیا کے متعدد ملکوں میں دوسروں کی جائیداد پر قبضہ کر لیا جاتا ہے۔
تصویر: AP
رائے کی آزادی
ہر کوئی فکر، ضمیر اور مذہب کی آزادی کا حق رکھتا ہے۔ ہر کوئی رائے کے اظہار کی آزادی کا حق رکھتا ہے۔ تمام انسان پر امن طریقے سے کسی جگہ جمع ہونے اور کسی تنظیم کا حصہ بننے کا حق رکھتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اقتدار میں شرکت کا حق
’’ہر کوئی براہ راست یا آزادانہ طور پر منتخب نمائندوں کے ذریعے ملکی حکومت میں حصہ لینے کا حق رکھتا ہے۔‘‘ ایک معاشرتی تحفظ کا حق ہے اور ہر کسی کو اپنے وقار کے لیے ناگزیر اقتصادی، سماجی اور ثقافتی حقوق حاصل ہیں۔ سعودی خواتین کو پہلی مرتبہ 2015ء میں مقامی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی اجازت ہو گی۔
تصویر: REUTERS/Saudi TV/Handout
کام کرنے کا حق
ہر کوئی کام کرنے کا حق رکھتا ہے۔ ’’ہر کوئی ایک ہی کام کے لیے مساوی تنخواہ کا حق رکھتا ہے۔‘‘ ہر کام کرنے والا مناسب معاوضے کا حق رکھتا ہے اور اسے کسی بھی مزدور یونین میں شرکت کی اجازت ہے۔ ہر کام کرنے والا فرصت کا حق رکھتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
تعلیم کا حق
تعلیم حاصل کرنا ہر انسان کا حق ہے۔ بنیادی تعلیم سب کے لیے لازمی اور آزاد ہونی چاہیے۔ تعلیم انسانی شخصیت کے مکمل نکھار اور انسانی حقوق کا احترام کرنے سے متعلق ہونی چاہیے۔ دنیا میں ابھی بھی تقریباﹰ 780 ملین افراد ناخواندہ ہیں۔
تصویر: DW/H. Hashemi
10 تصاویر1 | 10
یو این واچ کے ایگزیکیوٹیو ڈائریکٹرہلیل نویا کا کہنا تھا،’’ان آمریتوں کو انسانی حقوق کے حوالے سے اقوام متحدہ میں منتخب کرنا ایسا ہی ہے جیسا کہ آتش زنی کرنے والوں کے گینگ کو فائر بریگیڈ میں شامل کرنا۔"
اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کونسل انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر نگاہ رکھتا ہے اور اقوام متحدہ کے ہر رکن ملک میں انسانی حقوق کی صورت حال کا وقفے وقفے سے جائزہ بھی لیتا ہے۔ تاہم اس کی کارکردگی پر سوالات بھی اٹھائے جاتے رہے ہیں۔
ج ا/ ص ز (اے پی، روئٹرز)
کشمیر کے حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں، پرویز امروز