1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین اپنے ہاں ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافہ کیوں چاہتا ہے؟

10 اگست 2024

معمر افراد کی بڑھتی ہوئی آبادی اور افرادی قوت میں کمی کے پیش نظر چینی حکومت نے ریٹائرمنٹ کی عمر میں بتدریج اضافے کا اعلان کر دیا۔ ریٹائرمنٹ اصلاحات کے تحت لوگوں کے پاس یہ اختیار موجود ہو گا کہ وہ کب ریٹائر ہوں گے۔

پنشن بجٹ میں خسارے اور شرح پیدائش میں مسلسل کمی کی باعث چین نے اپنے ہاں ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافے کا باضابطہ اعلان کر دیا ہے
پنشن بجٹ میں خسارے اور شرح پیدائش میں مسلسل کمی کی باعث چین نے اپنے ہاں ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافے کا باضابطہ اعلان کر دیا ہےتصویر: IMAGO/Blue Jean Images

چین میں ریٹائرمنٹ کی موجودہ عمر دیگر ممالک کی مقابلے میں نسبتاً کم ہے۔ مجموعی آبادی میں عمر رسیدہ افراد کی بڑھتی ہوئی شرح اور ریٹائرمنٹ کی عمر کم ہونے کے باعث چین کے بہت سے صوبے اپنے پنشن بجٹ میں پہلے ہی خسارے کا سامنا کر رہے ہیں۔

سماجی ماہرین کے مطابق یہ اصلاحات فوری طور پر ضروری ہیں کیونکہ چین میں متوقع عمر 1960 میں تقریباً 41 سال سے بڑھ کر سن 2021 میں امریکہ کو پیچھے چھوڑتے ہوئے 78 سال تک پہنچ چکی ہے۔ یہ سن 2050 تک 80 سال سے تجاوز کرنے کا امکان ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ چین میں سن 2023 میں بھی بچوں کی پیدائش کی شرح میں مسلسل دوسرے سال ریکارڈ کمی واقع ہوئی ہے۔

گزشتہ اتوار کے روز شائع کیے جانے والے اس اہم پالیسی دستاویز میں بڑھتی ہوئی عمر رسیدہ آبادی اور شرح پیدائش میں کمی کے مسائل سے نمٹنے کے منصوبے بھی شامل ہیں۔

چینی حکام نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ اِن اِصلاحات کا نفاذ محتاط اور مرحلہ وار طریقے سے سن  2029 تک مکمل کیا جائے گا۔

چین میں عام شہریوں کی متوقع اوسط عمر میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے جو 2050ء تک 80 سال سے تجاوز کر جانے کا امکان ہےتصویر: Rolex Dela Pena/dpa/picture alliance

ملک میں ریٹائرمنٹ کی موجودہ عمر مردوں کے لیے ساٹھ سال ہے، جو کہ زیادہ تر ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں پانچ سے چھ سال کم ہے۔ خواتین کے لیے دفتر کی ملازمتوں (وائٹ کالر جابز) میں ریٹائرمنٹ کی عمر 55 سال ہے، جبکہ فیکٹری میں کام کرنے والی خواتین کے لیے یہ عمر پچاس سال ہے۔

چینی آبادی میں شہریوں اور بوڑھوں کا تناسب بڑھتا ہوا

گزشتہ دو برسوں کے دوران بھی پالیسی سازوں نے کئی مرتبہ ریٹائرمنٹ کی عمر بڑھانے کا ارادہ ظاہر کیا ہے لیکن یہ تبدیلی پہلی بار ہو گی، جس کے تحت ملازمین خود یہ فیصلہ کر سکیں گے کہ وہ کب تک کام جاری رکھنا پسند کریں گے۔

چین میں محکمہ صحت کے حکام کے اندازے کے مطابق ملک میں 60 سال یا اس سے زائد عمر کے لوگوں کی تعداد 280 ملین سے بڑھ کر سال 2035 تک 400 ملین سے بھی تجاوز کر جائے گی۔ یہ تعداد برطانیہ اور امریکہ کی موجودہ مجموعی آبادی کے برابر ہو گی۔

83 سالہ یاو ہوئینن اور ان کی زوجہ کا تعلق مشرقی چین کے شہر روگاو سے ہے جو اپنے شہریوں کی عمر درازی کے لیے جانا جاتا ہےتصویر: Xu Hui/HPIC/dpa/picture alliance

بحران زدہ پنشن نظام

اقوام متحدہ کے ادارہ برائے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کے ایک سینئر مشیر مائیکل ہرمن کہتے ہیں کہ بیشتر ممالک نے عمر رسیدہ آبادی میں اضافے اور افرادی قوت میں کمی کے پیش نظر پنشن فنڈز کو بچانے کے لیے ریٹائرمنٹ کی عمر میں اضافہ کیا ہے۔

چین کی پالیسی پر ردعمل دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک مناسب پالیسی ہے اور اسے لچک دار انداز میں نافذ کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے وضاحت کی کہ ملازمین کو پارٹ ٹائم، گھر سے کام کرنے یا مخصوص منصوبوں پر کام کرنے کے مواقع ملنے چاہیئیں۔

فیملی کی طرف سے معمر افراد کے لیے مالی کفالت کے رجحان میں کمی

فی الوقت چین میں ہر ریٹائرڈ شخص کی پنشن کی ادائیگی پانچ ملازمین کی شراکت سے ہوتی ہے۔ یہ تناسب پچھلی دہائی کے مقابلے میں نصف رہ گیا ہے۔ موجودہ رجحان کے مطابق سن 2030 تک یہ تناسب 1:4 اور سن 2050 تک 1:2 رہ جائے گا۔

ماہرین اقتصادیات بھی موجودہ پنشن کے نظام کو غیر پائیدار قرار دیتے ہوئے اس میں اصلاحات کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ چین کے 31 صوبوں میں سے گیارہ کا پنشن بجٹ پہلے ہی خسارے کا شکار ہے۔ چینی اکیڈمی آف سائنسز نے پیش گوئی کی ہے کہ یہ نظام سن 2035 تک ادائیگیوں کے قابل نہیں رہے گا۔

ح ف / ا ا (روئٹرز)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں