1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین بھارت کشیدگی: بھارت میں مقیم چینی کمیونٹی خوف زدہ

جاوید اختر، نئی دہلی
1 جولائی 2020

بھارت اور چین کے درمیان جاری عسکری تنازعے اورسرحدی کشیدگی سے بھارت میں رہنے والے چینی نژاد باشندے اپنے جان و مال کے حوالے سے تشویش میں مبتلا ہیں۔

Indien chinesische Gemeinschaft in Kalkutta
تصویر: DW/P. Samanta

یوں تو بھارت کے مختلف حصوں میں چینی نسل کے لوگ آباد ہیں لیکن ان کی سب سے بڑی آبادی کولکاتا کے چائنا ٹاون میں رہتی ہے جسے منی چین بھی کہا جاتا ہے۔ چائنا ٹاون میں رہنے والے لوگ پچھلے کئی مہینوں سے خوف زدہ ہیں۔ پہلے انہیں کورونا وائرس کی وجہ سے نشانہ بنایا گیا اور اب بھارت چین سرحدی تنازعہ کا شکار ہورہے ہیں۔

گزشتہ فروری میں جب کورونا نے اپنے پاو ں پھیلانے شروع کیے تو مقامی لوگوں نے ان چینی نژاد بھارتی شہریوں کو ہی کورونا وائرس کہنا شروع کردیا۔ چائنا ٹاون جو کہ لذیذ چینی کھانوں کے لیے مشہور ہے وہاں لوگوں نے جانا کم کردیا۔ پانچ ماہ گزرنے کے باوجود ان کا کاروبار بحال نہیں ہوسکا ہے اور علاقے میں ویرانی دیکھی جاسکتی ہے۔

لیکن جب سے بھارت اورچین کے درمیان عسکری تنازعہ شروع ہوا ہے۔ چائنا ٹاون کے رہنے والوں کی پریشانیاں بڑھ گئی ہیں۔ انہیں خوف ہے کہ اس مرتبہ بھی صورت حال کہیں 1962جیسی نہ ہوجائے، جب بھارت اور چین کے درمیان جنگ ہوئی تھی۔

ان لوگوں کو خوف ہے کہ اگر چین کے ساتھ جنگ شروع ہوجاتی ہے تو انہیں مقامی لوگوں کی ناراضگی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ چائنیز انڈین ایسوسی ایشن کے صدر بین چنگ لا کہتے ہیں ”ہم جنگ نہیں امن چاہتے ہیں۔ ہماری کمیونٹی کے بزرگوں کے ذہن میں 1962 کی لڑائی کی یادیں بالکل تازہ ہیں۔ ہم تو یہیں پیدا ہوئے اورپلے بڑھے ہیں۔ صرف نام اور شکل وصورت کی وجہ سے ہمارے ساتھ تفریق مناسب نہیں ہے۔"

کولکاتا میں چینی کمیونٹی کی جڑیں تقریباً ڈھائی سو برس پرانی ہیں۔ تصویر: DW/P. Samanta

چائنا ٹاون میں ایک ریستوراں چلانے والے جان لی کا کہنا تھا”1962 کی جنگ کے وقت میں نو برس کا تھا۔ اس وقت ہمارے گھرو ں پر پتھراو ہوا تھا اور لوگوں نے ہمیں بھارت چھوڑنے کی دھمکی دی تھی۔ میرے دادا، والد اور چچا کو جیل میں ڈال دیا گیا تھا۔ میری والدہ مجھے اور چھوٹے بھائی کو لے کر دارجیلنگ چلی گئی تھیں۔ ہم نہیں چاہتے کہ دوبارہ ایسا ہو۔ اب بھارت ہی ہمارا ملک ہے۔"

عشروں سے بھارت میں رہنے والے چینی کمیونٹی کا کہنا ہے کہ بھلے ہی ان کے آباو اجداد چین کے رہنے والے تھے لیکن اب بھارت ہی ان کا وطن ہے۔ چینی نژاد ہونے کی وجہ سے انہوں نے اپنے کلچر کو ضرور زندہ رکھا ہے لیکن ان میں سے بیشتر لوگوں نے تو کبھی چین دیکھا بھی نہیں ہے۔ 82 سالہ چانگ کہتے ہیں ”ہم دل سے بھارتی ہیں۔"

چائنا ٹاون میں کبھی ہمیشہ چہل پہل رہتی تھی لیکن اب یہا ں کی رونق پھیکی پڑگئی ہے۔تصویر: DW/S. Bandopadhyay

چائنا ٹاون کے رہنے والے مقامی کلچر میں گھل مل گئے ہیں۔ وہ درگا پوجا، دیوالی اور ہولی جیسے تہوار بھی دھوم دھام سے مناتے ہیں۔ علاقے میں ایک مندر بھی ہے جہاں پرساد کے طورپر چاومن چڑھایا جاتا ہے۔

انڈین چائنیز یوتھ ایسوسی ایشن کے ایک اہلکار کے پی چنگ کہتے ہیں ”1962 کی جنگ نے یہاں سب کچھ بدل دیا تھا۔ ہم نہیں چاہتے کہ ویسے حالات دوبارہ پیدا ہوں۔" حالانکہ 1962 کی بھارت چین جنگ کے دوران یہاں رہنے والے بیشتر چینیوں کو گرفتار تو نہیں کیا گیا لیکن انہیں مستقل طورپر مقامی تھانے میں حاضری دینی پڑتی تھی اور علاقے سے باہر جانے کی اجازت نہیں تھی۔ 1980 کی دہائی میں ان پابندیوں میں نرمی کی گئی اور دس سال بعد ان کو ختم کردیا گیا۔ چنگ بتاتے ہیں کہ اس لڑائی سے چینی کمیونٹی پر زبردست اثر پڑا تھا۔ انہیں ملازمتیں نہیں ملتی تھیں جس کی وجہ سے بڑے پیمانے پر لوگوں نے بیرونی ملکو ں کو ہجرت شروع کردی اور باقی لوگ ہوٹل کے کاروبار میں لگ گئے۔"

​​چائنا ٹاون علاقے میں ایک مندر بھی ہے جہاں پرساد کے طورپر چاومن چڑھایا جاتا ہے۔تصویر: DW/M. Krishnan

خیا ل رہے کہ کولکاتا میں چینی کمیونٹی کی جڑیں تقریباً ڈھائی سو برس پرانی ہیں۔ برٹش انڈیا کے پہلے گورنر جنرل وارین ہیسٹنگز کے دور میں 1778 میں چینیوں کا پہلا گروپ کولکاتا سے کوئی 65 کلومیٹر دو ر ڈائمنڈ ہاربر کے پاس اترا تھا۔ ان لوگوں نے کولکاتا بندرگاہ میں مزدور کے طورپر کام شروع کیا۔ اس کے بعد مزید لوگ روزگار کی تلاش میں کولکاتا آئے اور پھر یہیں کے ہوکر رہ گئے۔ ا ن میں سے کچھ لوگوں نے بعد میں دندان سازی، چمڑے اور ریشم کی تجارت شروع کردی۔ ایک وقت کولکاتا میں چینیوں کی تعداد بیس ہزار سے زیادہ تھی لیکن اب دو ہزار سے بھی کم رہ گئی ہے۔ 80 سال کے منگ کہتے ہیں ”منی چائنا کے نام سے مشہور یہ علاقہ مصائب کے دور سے گزر رہا ہے۔ کبھی یہاں ہمیشہ چہل پہل رہتی تھی لیکن اب یہا ں کی رونق پھیکی پڑگئی ہے۔"

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں