1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین بھارت کشیدگی: فائرنگ کا اعتراف مگر گولی کس نے چلائی؟

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو نیوز، نئی دہلی
8 ستمبر 2020

چین اور بھارت کے درمیان ایل اے سی پر شدید کشیدگی کے ماحول میں دونوں ملکوں نے پہلی بار سرحد پر فائرنگ کا اعتراف کیا ہے تاہم فریقین اس کا الزام ایک دوسرے پر عائد کر رہے ہیں۔

Indien I Militär in Kawoosa
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/M. Mattoo

بھارتی فوج نے چین کے ان الزامات کی سختی سے تردید کی ہے کہ اس نے لائن آف ایکچوول کنٹرول عبور کی ہے یا پھر اس کے فوجیوں نے فائرنگ کی ہے۔ بھارت کا کہنا ہے کہ چینی فوج نے کشیدگی میں اضافے کے لیے اشتعال انگیزی کی کوشش کی اور اسی نے فائرنگ کی۔ ان کا کہنا ہے کہ چین  بھارتی فوج کے بارے میں عالمی برادری اور اپنے عوام کو گمراہ کرنے لیے ایسے بیانات دے رہا ہے۔ اس سے قبل پیر کی درمیانی شب چین نے بھارتی فوج پر سرحد پار کرنے اور فائرنگ کا الزام عائد کیا تھا۔

چینی فوج 'پی ایل اے' کے ویسٹرن تھیئٹر کمانڈ کے ایک ترجمان نے اپنے بیان میں کہاکہ بھارتی فوج کی جانب سے غیر قانونی طور پر سرحد عبور کرنے کا ایک اور واقعہ پیش آیا، ''جس میں بھارتی فوج چین کی مغربی سرحد پر بینگانگ ہونان میں داخل ہوئی۔ اس کے خلاف چینی آپریشن کے دوران بھارتی فوج نے گشت کرنے والی چینی فوجیوں کو دھماکنے کے لیے فائرنگ کی۔ حالات کو مستحکم کرنے کے لیے چینی فوج نے بھی اس کا جواب دیا۔ بھارتی فوج کی کارروائی دونوں ملکوں کے درمیان سابق میں ہونے والے معاہدوں کی خلاف ورزی ہے۔ اس سے خطے میں کشیدگی اور غلط فہمی میں اضافہ ہوگا۔'' 

چین نے بھارتی فوج کی ان کارروائیوں کو سنگین عسکری اشتعال انگیزی بتاتے ہوئے کہا کہ یہ بہت ہی خراب نوعیت کے معاملات  ہیں۔ ''بھارت کو ایسے خطرناک اقدام سے فوری طور پر باز آنے کی ضرورت ہے، وہ سرحد عبور کرنے والے فوجیوں کو فوری طور پر واپس بلائے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ مستقبل میں ایسے واقعات پیش نہ آئیں، فائرنگ کے اس واقعے کی تفتیش کرے اور جو فوجی اس میں ملوث ہوں انہیں سزا دے۔'' 

چینی فوج نے اپنے بیان میں کہا کہ اس کی افواج عزم و حوصلے کے ساتھ اپنی سالمیت اور خود مختاری کے دفاع کے لیے اپنے فرائض انجام دیتی رہیں گی۔ لیکن بھارت نے چین کے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کی فوج نے نہ تو فائرنگ کی ہے اور نہ ہی کوئی جارحانہ کارروائی کی ہے۔ اس کا کہنا ہے، ''ایک ایسے وقت جب فوجی، سفارتی اور سیاسی سطح پر بات چیت جل رہی ہے پی ایل اے تمام معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے جارحانہ رویہ اپنا رہی ہے۔''

بھارتی فوج نے اپنے بیان میں کہا کہ جہاں تک سات ستمبر کی شب کا معاملہ ہے تو، ''یہ پی ایل اے کے فوجی تھے جو سرحد پر ہماری ایک فارورڈ پوسٹ پر تعینات فوجیوں کے گھیرنے کی کوشش کر رہے تھے، اور جب ہمارے فوجیوں نے انہیں للکارا تو ہماری فوج کے ڈرانے کے لیے چینی فوج نے  چند راؤنڈ ہوا میں فائر کیے۔ چینی فوج کی سنگین اشتعال انگیزی کے باوجود ہماری فوج نے تحمل سے کام لیتے ہوئے سمجھ داری اور ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔''

بھارتی فوج نے بھی اپنے بیان میں سرحد پر امن و امان کے قیام کی بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی سالمیت کے تحفظ کے لیے پر عزم ہے۔ اس کا دعوی ہے کہ چین کی جانب سے جو بیان آیا ہے وہ اپنے عوام کو گمراہ کرنے کے لیے ہے۔ چین اور بھارت کے درمیان سرحد سے متعلق ایک پرانا معاہدہ ہے جس کے تحت سرحد پر گشت کے دوران فائرنگ ممنوع ہے۔ فریقین برسوں سے اس معاہدے پر عمل کرتے رہے ہیں اور کئی عشرے بعد، گرچہ گولی ہوا میں چلی تاہم، سرحد پر فائرنگ کا واقعہ پیش آیا ہے۔

تنازعہ اس بات پر ہے کہ پہلے کس نے گولی چلائی اور فریقین اس کے لیے ایک دوسرے پر الزام عائد کر رہے ہیں۔ یہ نکتہ بڑی اہمیت کا حامل ہے کہ اس برس جون کے وسط میں وادی گلوان میں چین اور بھارتی فوجیوں کے درمیان جھڑپ میں بھارت کے 20 فوجی ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے۔ اس تصادم میں گولی چلنے کے واقعے کی تصدیق نہیں ہوئی تھی تاہم بھارت نے اس کے بعد اپنے فوجیوں کو اس بات کی اجازت دیدی تھی کہ اگر انہیں کسی صورتحال میں یہ محسوس ہو کہ فائرنگ کی ضرورت ہے تو وہ اپنی بندوق کا استعمال کر سکتے ہیں۔ بھارت کے اس اعلان کے بعد ہی برسوں بعد ایل اے سی پر فائرنگ کا واقعہ پیش آیا ہے۔

 اس واقعے سے اس بات کا بھی واضح اشارہ ملتا ہے کہ ایل اے سی پر اس وقت حالات بہت کشیدہ ہیں۔ دفاعی تجزیہ کار جنرل(ریٹائرڈ) اتپل بھٹا چاریہ نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں بتایا کہ ایل اے سی پر اس طرح کی فائرنگ غیر معمولی بات ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ سرحد پر فائرنگ کوئی بڑی بات نہیں ہے تاہم کس علاقے میں ہوئی وہ اہم ہے۔ وہ کہتے ہیں، ''پاکستان کے ساتھ سرحد پر جس طرح فائرنگ ہونا ایک عام سی بات ہے ویسے ہی چین کے ساتھ یہ ایک غیر معمولی اور غیر مثالی واقعہ ہے۔'' ا ن کا کہنا ہے کہ سن 1975 کے بعد ایسا واقعہ پہلی بار پیش آیا ہے۔

چند روز قبل ہی بیجنگ نے بھارت کے خلاف ایک سخت بیان میں کہا تھاکہ چین اور بھارت کے درمیان سرحد پر موجودہ کشیدگی کی وجوہات پوری طرح سے واضح ہیں اور اس کے لیے بھارت پوری طرح سے ذمہ دار ہے۔ ا س کا کہنا تھا، ''چین اپنی سرزمین کا ایک انچ بھی نہیں کھو سکتا اور اس کی مسلح افواج قومی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کے تحفظ کے تئیں پوری طرح پرعزم، پر اعتماد اور قابل ہیں۔''

بھارت اور چین کے درمیان مشرقی لداخ میں ایل اے سی پر تنازعہ کی ابتدا رواں برس مئی میں ہوئی تھی اور جون کے وسط میں وادی گلوان میں دونوں فوجیوں کے درمیان ہونے والے ایک تصادم میں بھارت کے 20 فوجی ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے تھے۔

اس واقعے کے بعد سے فریقین کے درمیان فوجی اور سفارتی سطح پر بات چیت کے کئی ادوار ہوچکے ہیں، تاہم کسی پیش رفت کے بجائے کشیدگی میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

تازہ کشیدگی کی وجہ پیونگانگ جھیل کے جنوبی علاقے میں 30 اگست کی درمیانی شب بھارتی فوج کی کارروائی بتائی جاتی ہے جس میں بھارتی فوجوں نے جھیل سے متصل اونچی پہاڑیوں پر قبضہ کر لیا تھا۔

بھارت نے چین پر اشتعال انگیزی کے الزامات عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ چینی فوج نے اس علاقے میں صورت حال کو بدلنے کی کوشش کی جس کا بھارتی فوج کو پہلے سے پتہ چل گیا تھا اور بھارتی فوج نے اس کوشش کو ناکام بنا دیا۔ لیکن چین نے اسے بھارتی فوجیوں کی دراندازی بتاتے ہوئے بھارت سے سخت احتجاج کیا اور ان کی فوری واپسی کا مطالبہ کیا تھا۔

چین اور بھارت کے مابین بڑھتی ہوئی فوجی کشیدگی

03:33

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں