1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین، جاپان اور جنوبی کوریا آزاد تجارت کے خواہشمند

13 مئی 2012

شمال مشرقی ایشیا کی تین بڑی اقتصادی طاقتوں چین، جاپان اور جنوبی کوریا کے مابین آزاد تجارت کے معاہدے کو حتمی شکل دینے کی کوششیں جاری ہیں۔ اس سلسلے میں بیجنگ میں سربراہی سمٹ ترتیب دی گئی ہے۔

تصویر: dapd

اس سمٹ کے ایجنڈے پر سہ فریقی آزاد تجارت کا معاہدہ سر فہرست ہے جو خاصی اہمیت کا حامل تصور کیا جارہا ہے۔ چینی وزیر اعظم وین جیاباؤ نے جنوبی کوریائی اور جاپانی قیادت کے ساتھ بیجنگ منعقدہ سمٹ میں کہا ہے کہ ایشیا کو غیر مستحکم اور غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے۔ چینی وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں کہا کہ خطے کو درپیش غیر مستحکم اور غیر یقینی صورتحال کا اندازہ لگانا خاصا مشکل ہے۔ سمٹ میں جاپانی وزیر اعظم یوشیکو نودا اور جنوبی کوریا کے صدر لی میونگ بک شریک ہیں۔

بیجنگ منعقدہ سہ فریقی سمٹ میں باہمی دلچسپی کے دیگر کئی امور بھی طے پانے کے امکانات ہیں۔ چین، جاپان اور جنوبی کوریا کے مابین اقتصادی تعاون سے متعلق امور پر 2007ء سے مذاکرات کے 13 دور ہوچکے ہیں۔ جاپانی وزیر اعظم یوشیکو نودا نے اتوار کو صحافیوں سے بات چیت میں کہا کہ تینوں ملکوں کے مابین باہمی تعاون میں خاصی پیشرفت ہوئی ہے۔ چین کے سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق تینوں ممالک کے وزرائے تجارت و اقتصادیات نے تجویز کیا ہے کہ آزاد تجارت کے معاہدے پر مذاکرات کا آغاز رواں سال کے اختتام سے قبل ہوجانا چاہیے

تینوں ممالک کی مابین باہمی تجارت کا حجم عالمی معیشت کے 19 اعشاریہ 6 فیصد اور مجموعی عالمی برآمدات کے 18 اعشاریہ 5 فیصد کے برابر ہے۔ چین اپنے وسیع تر رقبے اور آبادی کی وجہ سے جاپان اور جنوبی کوریا کے لیے ایک بہت بڑی منڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ چین ان دونوں ممالک کا سب سے بڑا تجارتی حلیف بھی ہے۔ آزاد تجارت کے معاہدے سے ممکنہ طور پر چین کی مجموعی قومی پیداوار میں قریب 3 فیصد، جاپان کی مجموعی قومی پیداوار میں اعشاریہ پانچ فیصد اور جنوبی کوریا کی مجموعی قومی پیداوار میں تین اعشاریہ ایک فیصد نمو متوقع ہے۔

سمٹ کے لیے روانگی سے قبل جاپانی وزیر اعظم نے کہا کہ سمٹ میں شریک تینوں ممالک کی کوشش ہوگی کہ شمالی کوریا کو جوہری تجربہ کرنے سے روکیں۔ شمالی کوریا کے جوہری پروگرام سے متعلق خدشات اس وقت دوبارہ ابھرے تھے جب اس کمیونسٹ ریاست کی جانب سے ناکام میزائل تجربہ کیا گیا، جسے بیلسٹک میزائل قرار دیا جارہا ہے اور اس قسم کے تجربے پر اقوام متحدہ کے تحت پابندی عائد ہے۔

sk/aba (AFP)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں