چین جدید قسم کے ایٹمی ہتھیار حاصل کر سکتا ہے، امریکا
9 جولائی 2021
ایک امریکی سفیر کے مطابق چین بہت ہی جلد زیر آب ڈرون اور جوہری توانائی سے چلنے والے میزائلوں جیسے پر اسرار ایٹمی ہتھیار حاصل کر سکتا ہے۔
اشتہار
جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ پر مہارت رکھنے والے ایک امریکی سفیر کا کہنا ہے کہ چین کی ایٹمی ہتھیاروں کے جدید پروگرام پر نظر ہے جس سے موجودہ، ''عالمی اسٹریٹیجک استحکام درہم برہم ہو سکتا ہے۔''
جنیوا میں جوہری ہتھیاروں کے عدم پھیلاؤ سے متعلق امریکی سفیر رابرٹ وؤڈ کا کہنا تھا کہ زیر آب ڈرون اور جوہری توانائی سے مار کرنے والے میزائل جیسے ''پراسرار جوہری ہتھیار'' بہت ہی جلد چینی فوج کا حصہ ہو سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سیٹیلائیٹ سے حاصل تصاویر سے پتہ چلتا ہے کہ چین شمال مغربی شہر یومین کے پاس ایک صحرا میں میزائلوں کو محفوظ طریقے سے رکھنے کے لیے 119 سیلوس (زیر زمین گودام یا گڈھے) تعمیر کر رہا ہے۔ ان کا مزید تھا کہ یہ زیر زمین گودام بالکل اسی نوعیت کے ہیں جس میں اس نے موجودہ ایٹمی ہتھیار محفوظ کر رکھے ہیں اور یہ کافی تشویش ناک بات ہے۔
چین کے نئے ایٹمی ہتھیار کیا ہو سکتے ہیں؟
چین جدید ترین ٹیکنالوجی کی مدد سے اپنے جوہری ہتھیار اپ گریڈ کرنے میں مصروف ہے تاکہ ضرورت پڑنے پر یہ ہتھیار امریکی اہداف کو بھی نشانہ بنا سکیں۔ گزشتہ برس پینٹاگون نے جو اندازہ لگایا تھا اس کے مطابق چین کے پاس پہلے سے ہی 200 سے زیادہ جوہری ہتھیار موجود ہیں اور آئندہ ایک عشرے کے دوران وہ اس تعداد کو دوگنا کرنا چاہتا ہے۔
رابرٹ ووڈ کا کہنا تھا، ''چین اس مقام پر سو برس قبل نہیں تھا، اور وہ جوہری توانائی سے چلنے والے ویسے ہی ایٹمی پروگرام کو حاصل کرنے کی کوشش میں ہے جس پر روس کام کرتا رہا ہے۔'' روس امریکی بیلیسٹک ہتھیاروں سے دفاع کے لیے نئے دفاعی طریقوں پر غور کر رہا ہے اور رابرٹ وؤڈ کو شبہ ہے کہ چین بھی اب اسی راستے پر گامزن ہے۔
اس کا حل کیا ہے؟
رابرٹ وؤڈ کی دلیل یہ ہے کہ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے روس اور امریکا کے درمیان تو پہلے سے ایک فریم ورک موجود ہے جبکہ چین کے ساتھ اس طرح کا کوئی معاہدہ نہیں ہے۔ واضح رہے کہ روس اور امریکا کے پاس تقریباً گیارہ ہزار جوہری ہتھیار ہیں، جو دنیا کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔
رابرٹ وؤڈ کا کہنا ہے، ''جب تک چین اس معاملے پر امریکا کے ساتھ دو طرفہ میٹنگ نہیں کرتا اس وقت اسلحوں کی تباہ کن دوڑ کا خطرہ بڑھتا ہی رہے گا اور اس سے کسی کو بھی فائدہ نہیں ہو گا۔''
ان کا کہنا تھا کہ گرچہ چین اس بات کا دعوی کرتا ہے کہ وہ دفاعی صلاحیت سے لیس، ''ایک ذمہ دار جوہری طاقت ہے۔ لیکن ہم جب چین کو وہ کرتے ہوئے دیکھتے ہیں جو وہ کر رہا ہے تو یہ اس کے قول سے مطابقت نہیں رکھتا ہے۔''
ان کا مزید کہنا تھا، '' یہ سب کے مفاد میں ہے کہ جوہری طاقتیں ایک دوسرے سے جوہری خطرات کو کم کرنے اور بد انتظامی سے بچنے کے بارے میں براہ راست بات کریں۔''
ص ز/ ج ا (اے پی، اے ایف پی)
ناگاساکی پر ایٹمی حملے کو 76 برس ہو گئے
1945ء میں دو جاپانی شہروں پر امریکی حملے ابھی تک کسی بھی جنگ میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا واحد واقعہ ہیں۔ چھ اگست کو ہیروشیما پر ایٹمی حملے کے تین دن بعد امریکا نے ناگاساکی پر بھی ایٹم بم گرایا تھا۔
تصویر: Courtesy of the National Archives/Newsmakers
پہلا حملہ
چھ اگست 1945ء کو امریکی جہاز Enola Gay نے ہیروشیما پر پہلا ایٹم بم گرایا تھا۔ اس بم کو’لٹل بوائے‘ کا بے ضرر سا نام دیا گیا تھا۔ اُس وقت اس شہر کی آبادی ساڑھے تین لاکھ تھی اور حملے کے فوری بعد ستر ہزار لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔ چند دنوں کے دوران مرنے والوں کی تعداد دگنی ہو گئی تھی۔
تصویر: Three Lions/Getty Images
حملے میں تاخیر
منصوبے کے مطابق ہیروشیما پر یکم اگست 1945ء کو حملہ کیا جانا تھا تاہم خراب موسم کی وجہ سے امریکیوں کو اسے ملتوی کرنا پڑا۔ پانچ روز بعد بمبار جہاز ’انولا گے‘ تیرہ رکنی عملے کے ساتھ اپنا مشن پورا کرنے کے لیے روانہ ہوا۔ اس ٹیم کو راستے میں معلوم ہوا کہ وہ ایٹم بم گرانے جا رہی ہے۔
تصویر: gemeinfrei
دوسرا جوہری حملہ
ہیروشیما پر حملے کے تین روز بعد امریکیوں نے ناگاساکی پر دوسرا ایٹم بم گرایا۔ منصوبے کے مطابق دوسرا ایٹم بم کیوٹو پر گرایا جانا تھا۔ امریکی وزارت دفاع کی مخالفت کے بعد یہ ہدف تبدیل کر دیا گیا۔ ’فیٹ مین‘ نامی یہ بم 22 ٹن وزنی تھا۔ اس جوہری بم نے بھی قریب ستر ہزار افراد کی جان لی تھی۔
تصویر: Courtesy of the National Archives/Newsmakers
ہدف کا اسٹریٹیجک انتخاب
1945ء میں ناگاساکی میں اسلحہ ساز کمپنی مٹسوبیشی کی مرکزی دفتر قائم تھا۔ وہاں بحری اڈہ بھی موجود تھا۔ اس شہر میں وہ تارپیڈو بھی تیار کیے گئے تھے، جوجاپان نے پرل ہاربر پر حملے کے لیے استعمال کیے تھے۔ ناگاساکی میں بہت کم ہی جاپانی فوجی تعینات تھے۔ تاہم خراب موسم کی وجہ سے شپ یارڈ کو نشانہ نہ بنایا جا سکا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ہلاکتیں بڑھتی ہی چلی گئیں
حملوں کے بعد بھی کئی ماہ تک تابکاری اثرات ہزاروں افراد کی موت کا باعث بنتے رہے۔ صرف ہیروشیما میں 1945ء کے اختتام تک ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد میں ساٹھ ہزار کا اضافہ ہو چکا تھا۔ ہلاکتوں میں اضافہ تابکاری، بری طرح جھلس جانے اور دیگر زخموں کی وجہ سے ہوا۔ بعد ازاں لگائے گئے اندازوں کے مطابق دوہرے جوہری حملوں میں مرنے والوں کی تعداد دو لاکھ تیس ہزار تک رہی تھی۔
تصویر: Keystone/Getty Images
خوف کے سائے میں جنگ کا اختتام
ہیروشیما اور ناگاساکی پر حملوں کے بعد بھی متعدد جاپانی شہریوں کو خدشہ تھا کہ تیسرا ایٹمی بم ٹوکیو پر گرایا جائے گا۔ جاپان نے ہتیھار پھینکنے کا اعلان کیا اور اس طرح ایشیا میں دوسری عالمی جنگ کا اختتام ہوا۔ امریکی صدر ہیری ٹرومین نے جوہری حملوں کے احکامات دیے تھے۔ کئی مؤرخین ان حملوں کو جنگی جرائم قرار دیتے ہیں۔
تصویر: AP
تعمیر نو
ہیروشیما کے تباہ شدہ شہر کو مکمل طور پر دوبارہ تعمیر کیا گیا ہے۔ صرف دریائے اوٹا پر واقع ایک جزیرے پر امن پارک پہلے ہی طرح قائم ہے۔ یہاں پر ایک یادگاری شمع بھی روشن کی گئی ہے۔ یہ شمع اس وقت بجھائی جائے گی، جب دنیا سے آخری ایٹم بم کا خاتمہ ہو جائے گا۔
تصویر: Keystone/Getty Images
یادگاروں کی تعمیر کی جاپانی روایت
ناگاساکی میں 1955ء سے جوہری بم حملوں کے حوالے سے ایک عجائب گھر اور ان حملوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے افراد کی یاد میں ایک امن پارک قائم ہے۔ جاپان میں 1945ء کے ان واقعات میں ہلاک ہونے والوں کی یاد کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں ہیروشیما اور ناگاساکی کو ایٹمی ہتھیاروں کی تباہ کاریوں کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images
یادگاری تقریبات
اگست 1945ء کے ان حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں دنیا بھر میں تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ ہیروشیما میں منقعد ہونے والی سالانہ تقریب میں حملوں میں بچ جانے والے، ہلاک ہونے والوں کے لواحقین، شہری اور سیاستدان شرکت کرتے ہیں اور اس دوران ایک منٹ کے لیے خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔
تصویر: Kazuhiro Nogi/AFP/Getty Images
جوہری ہتھیاروں کے خلاف آواز
پیروشیما میں امن یادگاری پارک میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جاپانی وزیراعظم شینزو آبے نے کہا کہ جاپان دنیا بھر سے جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے آواز اٹھاتا رہے گا۔