چین جنگ میں مصنوعی ذہانت کے استعمال پر معاہدے میں شامل نہیں
11 ستمبر 2024امریکہ سمیت دنیا کے تقریباً 60 ممالک نے منگل کے روز "بلیو پرنٹ فار ایکشن" نامی ان رہنما اصولوں پر دستخط کر دیے، جو میدان جنگ میں مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے ذمہ دارانہ استعمال کی بات کرتا ہے۔
جنوبی کوریا میں اس حوالے سے ہونے والے سربراہی اجلاس میں چین نے بھی اپنے نمائندوں کو شرکت کے لیے بھیجا تھا، تاہم چین سمیت تقریباً 30 ممالک نے اس دستاویز کی حمایت نہیں کی۔
یورپی یونین میں تاریخی اے آئی قوانین کا نفاذ
اس بارے میں رہنما اصول کیا ہیں؟
جنگ کے دوران مصنوعی ذہانت کے استعمال سے متعلق رہنما خطوط میں کہا گیا ہے کہ فوجی شعبے میں اس کا اطلاق "اخلاقی اور انسانی بنیادوں پر" ہی ہو گا۔
اس دستاویز میں اس بات پر بھی توجہ مبذول کرائی گئی ہے کہ اس کے استعمال پر خطرے کا جائزہ لینا بہت اہم ہے اور اس میں انسانی کنٹرول کی اہمیت پر زور دیا گیا ہے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ "فوجی ڈومین میں اے آئی کی ترقی، تعیناتی اور استعمال میں مناسب انسانی شمولیت کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے، بشمول ایسے مناسب اقدامات کے، جو طاقت کے استعمال پر کنٹرول سے متعلق انسانی فیصلے پر مبنی ہوں۔"
جرمنی مصنوعی ذہانت کی دوڑ میں پیچھے کیوں؟
نیدر لینڈ کی حکومت کا کہنا تھا کہ سربراہی اجلاس کا مرکزی مقصد "کارروائی پر مبنی" ایسے رہنما خطوط پر بات چیت شامل تھی، جس میں حقیقی دنیا کی پیش رفت، جیسے کہ یوکرین کی جانب سے اے آئی کے ذریعے ڈرونز کے استعمال، کے بارے میں بات کی جا سکے۔
اس حوالے سے تازہ ترین دستاویز میں شامل کی گئی تفصیلات میں اس بات زور دیا گیا ہے کہ دہشت گرد گروہوں سمیت دیگر اداروں کے ذریعے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں میں اے آئی کے استعمال کو روکنے کی سخت ضرورت ہے۔
اس معاہدے پر دستخط کرنے والے ممالک میں یوکرین سمیت نیٹو کے ممتاز ارکان فرانس، جرمنی اور برطانیہ بھی شامل ہیں۔
امریکہ اور چین کے صدور میں فون پر کن اہم امور پر بات ہوئی؟
یوکرین پر حملے کی وجہ سے اس سربراہی اجلاس میں روس کو مدعو نہیں کیا گیا تھا اور اس لیے دستخط نہ کرنے والوں میں وہ بھی شامل ہے۔
'دی ریسپونسبل اے آئی ان دی ملٹری ڈومین' (آر ای اے آئی ایم) نامی اپنی نوعیت کا یہ دوسرا سربراہی اجلاس اس بار جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول میں ہوا، جبکہ اس کا پہلا اجلاس گزشتہ برس ہیگ میں ہوا تھا۔
اس اجتماع میں چین سمیت تقریباً 60 ممالک نے شرکت کی، تاہم چین نے کسی قانونی کارروائی کے عزم کے بغیر صرف ایک معمولی "کال ٹو ایکشن" کی توثیق کی۔
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مصنوعی ذہانت سے متعلق اولین عالمی قرارداد منظور
وسیع تر معاہدہ کتنا حقیقت پسندانہ ہے؟
نیدرلینڈز کے وزیر دفاع روبن بریکل مینس نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ہم مزید ٹھوس اقدامات کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ برس ۔۔۔۔۔ مشترکہ افہام و تفہیم پیدا کرنے کے بارے میں زیادہ تھا اور اب ہم اس پر عمل کی طرف بڑھ رہے ہیں۔"
بریکل مینس نے دستخط نہ کرنے والے ممالک کی تعداد کے جواب میں کہا، "ہمیں حقیقت پسند ہونے کی بھی ضرورت ہے کہ ہم کبھی بھی پوری دنیا کو ایک ساتھ متحدہ نہیں کر سکتے۔"
مصنوعی ذہانت کے ذریعے پھیلنے والی غلط معلومات خطرناک قرار
انہوں نے مزید کہا، "ہم اس حقیقت سے کیسے نمٹتے ہیں کہ ہر کوئی تعمیل نہیں کر رہا ہے؟ ۔۔۔۔ یہ ایک ایسا پیچیدہ مخمصہ ہے، کہ ہمیں اسے بھی میز پر رکھنے کی ضرورت ہے۔"
انہوں نے سوشل میڈیا ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں کہا، "ابھی تک اس حوالے سے کوئی اصول یا معاہدہ نہیں ہے۔ اے آئی کو ذمہ داری سے استعمال کرنے کے لیے یہ بہت ضروری ہے اور ایسے ممالک کا مقابلہ کرنے کے لیے بھی جو قوانین کو توڑتے ہیں۔"
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے تخفیف اسلحہ میں پروگرام سکیورٹی اور ٹیکنالوجی کے سربراہ نے کہا کہ ایسے قوانین کے ساتھ آگے بڑھنا نقصان دہ ہو سکتا ہے جن پر ہر کوئی متفق نہ ہو۔
مصنوعی ذہانت کیا آپ کو بھی بے روزگار کر سکتی ہے؟
انہوں نے کہا کہ بلیو پرنٹ آگے بڑھنے کے لیے ایک اہم قدم ہے۔ تاہم "بہت تیزی اور بہت جلد آگے بڑھنے سے زیادہ خطرہ اس بات کا ہے کہ بہت سے ممالک اس پر بات کرنے سے بھی گریز کر سکتے ہیں۔"
سیول سربراہی اجلاس کی میزبانی نیدرلینڈز، سنگاپور، کینیا اور برطانیہ نے مشترکہ طور پر کی تھی، جس میں ملٹی اسٹیک ہولڈرز کو بات چیت کی اجازت دینے کی کوشش کی گئی، جس پر کسی ایک ملک یا ادارے کا غلبہ نہ ہو۔
ص ز / ج ا ( روئٹرز، رچرڈ کونور)