امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ اپنے چینی ہم منصب شی جن پنگ سے بات نہیں کرنا چاہتے۔ صدر ٹرمپ نے چین کے ساتھ تعلقات میں ممکنہ کمی لانے کا بھی عندیہ دیا ہے۔
اشتہار
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ کورونا وائرس کی وبا سے نمٹنے کے تناظر میں چین کے ساتھ تعلقات کم کر سکتے ہیں۔ اپنے بیان میں انہوں نے دنیا کی دوسری بڑی اقتصادی قوت کے ساتھ اپنے ملکی تعلقات میں بگاڑ کا واضح اشارہ دیا ہے۔ امریکی صدر مسلسل چین پر الزام لگاتے چلے آ رہے ہیں کہ اس نے کورونا وائرس کی وبا سے متعلق حقائق کو چھپایا ہے۔
فوکس نیوز چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے ٹرمپ نے واضح کیا کہ وہ چین کے ساتھ اپنے تعلقات میں کمی لانے کے حوالے سے بہت کچھ کر سکتے ہیں اور تعلقات مکمل طور پر ختم بھی کیے جا سکتے ہیں۔ اس حوالے سے وہ مزید کہتے ہیں کے اگر ایسا کیا گیا تو پانچ سو بلین ڈالر بچائے جا سکیں گے۔ پانچ سو بلین ڈالر بچانے سے ان کی مراد چین سے مختلف اشیاء کی سالانہ امپورٹ ہے۔
یہ امر اہم ہے کہ چین اور امریکا کے تعلقات میں گزشتہ کئی ماہ سے تناؤ پایا جاتا ہے۔ دونوں ملک کورونا وائرس سے متعلق حقائق چھپانے کے معاملے پر بیان بازی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ چین کا موقف ہے کہ کورونا وائرس کے معاملے پر وہ مکمل شفافیت رکھتا ہے اور اس تناظر میں کچھ بھی چھپایا نہیں گیا۔
چین کے حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پانچ جملے
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے چبھتے ہوئے بیانات کے لیے خاص شہرت رکھتے ہیں۔ ایسے ہی کچھ جملے انہوں نے چین کے لیے بھی کہے۔ ’چین نے امریکا کو تباہ کر دیا‘ کے بیان سے لے کر ’ آئی لو یو چائنہ‘ تک ٹرمپ کے تبصرے رنگا رنگ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Harnik
’ آئی لو یو چائنہ‘
سن دو ہزار سولہ میں امریکی صدر کا منصب سنبھالنے کے فوراﹰ بعد ہی ٹرمپ نے ایک امریکی نشریاتی ادارے کو بتایا تھا،’’ مجھے چین سے محبت ہے۔‘‘ لیکن جہاں تک بیجنگ حکومت سے متعلق اُن کے تبصروں کا تعلق ہے تو وہ کبھی مثبت نہیں رہے۔
تصویر: picture-alliance/AP/A. Harnik
’ چین ہمارے ملک کا ریپ کر رہا ہے‘
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا چین تعلقات کو بیان کرتے ہوئے ہمیشہ سخت زبان کا استعمال کیا ہے۔
اپنی صدارتی مہم کے دوران ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا تھا،’’ ہم چین کو اپنا ملک برباد کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے جو وہ کر رہا ہے۔‘‘
تصویر: Feng Li/AFP/GettyImages
’کوریا دراصل چین کا حصہ ہوا کرتا تھا‘
رواں برس اپریل میں چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ ملاقات کے بعد وال اسٹریٹ جرنل کو ایک انٹرویو میں صدر ٹرمپ نے کہا،’’ آپ جانتے ہیں کہ چین اور کوریا کی تاریخ ہزاروں سال اور کئی جنگوں پر محیط ہے۔ کوریا دراصل چین کا حصہ ہوا کرتا تھا۔‘‘
تصویر: picture-alliance/AP Photo/N. H. Guan
‘انہیں میکڈونلڈز لے جائیں‘
سن 2015 میں ایک ریلی سے خطاب میں ٹرمپ نے کہا،’’ اگر آپ سمارٹ ہوں تو چین سے جیت سکتے ہیں لیکن ہمارے لوگوں کو اس کا پتہ نہیں ہے۔ ہم چین کے سربراہان کو سرکاری ڈنر دیتے ہیں۔ ہم انہیں اسٹیٹ ڈنر کیوں دیں؟ میں کہتا ہوں کہ انہیں میکڈونلڈز لے جائیں اور بھر دوبارہ مذاکرات کی میز پر واپس آ جائیں۔‘‘
سن دو ہزار گیارہ میں چین کی سرکاری نیوز ایجنسی شنہوا کے ساتھ ایک مبینہ انٹرویو میں ٹرمپ نے کہا،’’ میں نے چین کے بارے میں سینکڑوں کتابیں پڑھ رکھی ہیں۔ میں نے چینی لوگوں کے ساتھ بہت روپیہ بنایا ہے۔ میں چینی ذہنیت کو اچھی طرح جانتا ہوں۔‘‘ تاہم بعض افراد کا ماننا ہے کہ یہ انٹرویو کبھی ہوا ہی نہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Harnik
’ گلوبل وارمنگ کا ذمہ دار چین ہے‘
سن 2012 میں ٹرمپ نے گلوبل وارمنگ کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ چین نے امریکا کے اقتصادی مفادات کو ضرب لگانے کے لیے یہ منصوبہ بنایا ہے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا،’’ گلوبل وارمنگ کی تخلیق چین کے ہاتھوں اور چینی عوام کے لیے ہوئی تاکہ امریکی مصنوعات کو عالمی منڈیوں میں بے وقعت کیا جا سکے۔‘‘
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Wong
6 تصاویر1 | 6
امریکی صدر کا کہنا ہے کہ چین اس وبا کو اپنے ملک تک محدود رکھ سکتا تھا کیونکہ اس نے جنم وہیں سے لیا تھا لیکن بیجنگ نے ایسا نہیں کیا۔ ٹرمپ ماضی میں اپنے چینی ہم منصب کے ساتھ اپنے اچھے تعلقات کا بڑے فخر سے تذکرہ کیا کرتے تھے لیکن اب ان کا کہنا ہے کہ وہ اس موجودہ صورت حال میں صدر شی جی پنگ کے ساتھ کوئی بات کرنے کی خواہش نہیں رکھتے۔ امریکی صدر کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ کورونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کو دیکھتے ہوئے چین سے بہت مایوس ہوئے ہیں۔
ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ بھی کہنا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا نے چینی امریکی تجارتی ڈیل پر بھی اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس ڈیل کے طے ہونے پر بھی انہوں نے مسرت کا اظہار کیا تھا۔ امریکی صدر کے مطابق چین کے ساتھ ایک بڑا معاہدہ طے کیا گیا لیکن ابھی اس کی سیاہی سوکھی بھی نہیں کہ وبا آن پہنچی ہے اور اب وہ ڈیل کے حوالے سے پہلے جیسے احساسات نہیں رکھتے۔ امریکا اور چین کے مابین تجارتی ڈیل پر دستخط رواں برس جنوری میں کئی مہینوں کی بات چیت کے بعد کیے گئے تھے۔