1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین سے پاکستانیوں کو واپس لانے پر حکومت ہچکچاہٹ کا شکار

عبدالستار، اسلام آباد
31 جنوری 2020

چین میں پھنسے پاکستانی طلباء اور دیگر پاکستانیوں کو ملک واپس لانے کا مطالبہ زور پکڑتا جارہا ہے۔ آج پارلیمنٹ میں اس مسئلے پر دھواں دھار تقاریر میں حکومت پر سخت تنقید کی گئی۔

Pakistaniche Studenten In China.
تصویر: Hina Fatima

واضح رہے کل بروز جمعرات وزیر اعظم کے مشیر برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے کل ایک پریس کانفرنس میں پاکستانیوں کو لانے کی مخالفت کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ فیصلہ عالمی ادارہ برائے صحت کے مشورے کی روشنی میں لیا گیا ہے۔

لیکن اراکین پارلیمنٹ بضد ہیں کہ ان تمام پاکستانیوں کو واپس لایا جانا چاہیے۔ ن لیگ کے رہنما سینیٹر پرویز رشید نے اس مسئلے پر اپنی رائے دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ووہان صوبے میں چند سو طلباء ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ جو طلباء اس وائرس سے متاثر نہیں ہیں۔ انہیں ملک واپس لایا جائے۔ اگر واپس لانا فوری طور پر ممکن نہ ہو تو کم ازکم انہیں چین کے کسی اور علاقے میں منتقل کیا جائے اور ان کے والدین سے اسکائپ یا کسی اور ذرائع سے فوری طور پر رابطہ کرایا جائے تا کہ ان کی پریشانی کم ہو سکے۔‘‘

سینیٹر پرویز رشید کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کو بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی پریشانی کا کوئی احساس نہیں۔ ''ان طلباء اور پاکستانیوں کی مدد کرنے کے لیے کتنے پیسے لگ جائیں گے۔ ہم اگر لاکھوں افغان بھائیوں کی مدد کر سکتے ہیں تو پھر کچھ پاکستانیوں کی کیوں نہیں کر سکتے۔‘‘

تصویر: DW/A. G. Kakar

سینیٹر عثمان کاکڑ نے اس مسئلے پر ڈی ڈبلیو کو اپنی رائے دیتے ہوئے کہا، ''صورت حال انتہائی خطرناک ہے۔ جہاں پاکستانی رہ رہے ہیں، وہاں کرفیو نما صورت حال ہے۔ میں حکومت کی اس بات کو نہیں مانتا کہ پاکستانی افراد کو واپس نہیں لانا چاہیے۔ اگر چینی افراد روزانہ یہاں آسکتے ہیں تو پاکستانیوں کو واپس کیوں نہیں لایا جا سکتا۔‘‘

تصویر: picture-alliance/dpa/H. Punz

اسلام آباد میں وزارت صحت سے وابستہ ایک سینئر افسر نے صورت حال کی بہتر منظر کشی کی۔ نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ابھی تک پاکستان میں کوئی بھی کرونا کا کیس سامنے نہیں آیا ہے اور وزارت صحتے نے اس سے نمٹنے کے لیے تمام اقدامات کر لیے ہیں۔‘‘

تاہم ناقدین کے خیال میں حکومت کی ہچکچاہٹ کی ایک وجہ یہ ہے کہ ملک میں کرونا وائرس کے ٹیسٹ کا بھی انتظام نہیں ہے۔ وزارت صحت کے ایک اعلیٰ افسر کے مطابق، ''کرونا وائرس کے پانچ اقسام ہوتی ہیں۔ ان میں چار اقسام کے ٹیسٹ پاکستان میں ممکن ہیں جب کہ خطرناک ترین 'نوول وائرس‘  کے لیے پاکستان میں کوئی لیبارٹری نہیں ہے اور اس کے لیے چار افراد کے ٹیسٹس کے نمونے ہانگ کونگ بھیجے جارہے ہیں۔‘‘

وزارت صحت کے اس افسر نے یہ بھی اعتراف کیا کہ پاکستان کے پاس یہ ٹیسٹ کرنے کے لیے لیبارٹری نہیں ہے۔ ''لہذا یہ بات صیح ہے کہ اگر ہمارے ہاں کوئی نوول کرونا کا کیس ہوتا ہے تو ہمیں پتہ نہیں چلے گا۔ اسی وجہ سے حکومت پریشان ہے اور پاکستانیوں کو لانا نہیں چاہتی۔ کیونکہ چین میں تو ٹیکنالوجی بہت ایڈوانس ہے اور ہمارے پاس ایسی کوئی چیز نہیں ہے۔‘‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں