چینی ماہرین سماجیات نے اسے انتہائی خطرناک رجحان قرار دیا ہے اور متنبہ کیا کہ چینی سماج بظاہر توقع سے کہیں زیادہ تیزی سے عمر دراز ہو رہا ہے۔
اشتہار
چین کی وزارت پبلک سکیورٹی کی رپورٹ کے مطابق بچوں کی پیدائش میں گزشتہ برس پندرہ فیصد کی کمی درج ہوئی ہے۔ یہ تعداد ایک کروڑ دس لاکھ اناسی ہزار سے کم ہو کر ایک کروڑ چار لاکھ ہوگئی۔
چین کی وزارت پبلک سکیورٹی کا کہنا ہے کہ سن 2020 میں پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد اس سے پچھلے برس کے مقابلے میں پندرہ فیصد کم ہے۔ اس کی وجہ کورونا وائرس کی وبا اور اس سے پیدا ہونے والی صورت حال بتائی گئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ لوگ اقتصادی عدم استحکام کے خدشے سے خاندان میں اضافہ کرنے سے پہلے کافی غور و خوض کر رہے ہیں۔
وزارت کا کہنا ہے کہ سن 2019 میں چین میں ایک کروڑ دس لاکھ سے زیادہ بچے پیدا ہوئے تھے لیکن گزشتہ برس ان کی تعداد بہت کم رہی۔ سن 2020 میں جو بچے پیدا ہوئے ان میں 52.7 فیصد لڑکے اور 47.3 فیصد لڑکیاں ہیں۔
چین میں شادیوں کی شرح میں بھی کمی آئی ہے جب کہ طلاق کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ شادیاں بالعموم زیادہ عمر میں ہو رہی ہیں جبکہ بیشتر جوڑے کافی تاخیر سے خاندان میں اضافہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔
'سب سے بڑا بحران‘
دنیا کی سب سے بڑی آبادی والے ملک چین نے گو کہ ایک بچہ پالیسی کو ختم کر دیا ہے لیکن سن 1976 کے بعد صرف سن 2016 میں بچوں کی پیدائش میں اضافہ ہوا جبکہ اس کے بعد سے شرح پیدائش میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔
چین: ایغور مسلمان بچوں کی شرح پیدائش کم کرنے کی جبری کوشش
02:50
حکومت کے ساتھ عوام بھی شرح پیدائش میں کمی سے فکر مند ہے۔ بچوں کی شرح پیدائش کے حوالے سے تازہ ترین رپورٹ شائع ہونے کے بعد چینی سوشل میڈیا میں ایک ہیش ٹیگ چل رہا ہے جس کا مطلب ہے''چین کو کم شرح پیدائش کی جال سے کیسے آزاد کرائیں۔" تقریباً بارہ کروڑ افراد اس پوسٹ پر تبصرہ کر چکے ہیں۔ ایک صارف نے شرح پیدائش میں کمی کو 'چین کو در پیش سب سے بڑا بحران‘ قرار دیا۔
اشتہار
بدلتا ہوا سماج
کچھ لوگ روز مرہ کی ضرورتوں اور تعلیم وغیرہ پر بڑھتے ہوئے اخراجات کو شرح پیدائش میں کمی کا سبب قرار دیتے ہیں جبکہ بعض لوگوں کے مطابق عوام کی سوچ میں بڑی تبدیلیاں آ رہی ہیں۔
چینی سوشل میڈیا وائیبو پر ایک صارف نے لکھا”کم ہوتی شرح دراصل چینیوں کی سوچ میں ترقی کو اجاگر کرتی ہے۔ عورتیں اب صرف بچے پیدا کرنے کی مشین نہیں ہیں۔" لیکن ایک دیگر صارف نے لکھا”اگر پورا سماج ہی بچے پیدا کرنے اور ان کی پرورش کو بوجھ سمجھنے لگے تو پھر سماج کے سامنے مسائل پیدا ہوجائیں گے۔"
حالیہ برسوں میں چینی جوڑے صحت کی دیکھ بھال، تعلیم اور رہائش پر بڑھتے ہوئے اخراجات کے مدنظر بچے پیدا کرنے کا فیصلہ کافی سوچ سمجھ کر کر رہے ہیں۔ چین نے آبادی میں کم کرنے کے لیے سن 1970کے عشرے میں ایک بچہ پالیسی نافذ کی تھی۔ لیکن ملک کی تیزی سے عمر دراز ہوتی آبادی کو دیکھتے ہوئے سن 2016 میں اس پالیسی کو ختم کر دیا گیا تھا۔ تاہم اس کے باوجود شرح پیدائش میں حسب توقع اضافہ نہیں ہو رہا ہے۔
چینی باشندوں کی پاکستانی بیویاں
02:59
This browser does not support the video element.
بیس فیصد آبادی 60 برس سے زیادہ عمر والوں کی
گزشتہ برس کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے پیدا اقتصادی عدم استحکام نے لوگوں کے لیے بچے پیدا کرنے کے سلسلے میں فیصلہ کرنا مزید مشکل بنا دیا ہے۔ یہ چین کے لیے انتہائی تشویش کی بات ہے کیوں کہ اس کی آبادی بڑی تیزی سے عمر دراز ہوتی جا رہی ہے۔
چین کی آبادی کا تقریباً پانچواں حصہ یا پچیس کروڑ سے زائد لوگوں کی عمریں ساٹھ برس سے زیادہ ہوچکی ہیں۔ حکومت کی پریشانی یہ بھی ہے کہ اس نے ان لوگوں کو صحت کی دیکھ بھال اور پنشن کی ضمانت دی ہے۔ دوسری طرف افرادی قوت میں مسلسل کمی کا اثر پیداواریت پر پڑے گا۔
چین کی سرکاری میڈیا نے گزشتہ دسمبر میں شہری امور کے وزیر کے حوالے سے بتایا تھا کہ ملک میں شرح پیدائش''خطرناک حد تک کم ہوگئی ہے۔" یہ آبادی کو ایک مقررہ سطح پر برقرار رکھنے کے لیے ضروری فی خاتون 2.1 بچہ کی پیدائش سے بھی نیچے پہنچ گئی ہے۔
ج ا/ ص ز (روئٹرز، ڈی پی اے، اے ایف پی)
پاکستان کے ایک کروڑ مشقتی بچے
پاکستان میں بچوں سے مشقت کروانا قانونا منع ہے لیکن یونیسیف کے اعداد و شمار کے مطابق آج بھی قریب ایک کروڑ پاکستانی بچے زندہ رہنے کے لیے محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ تعداد ملکی آبادی کا پانچ فیصد بنتی ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
معذور کمہار کا محنتی بیٹا
غلام حسین کا والد ٹانگوں سے معذور ہے۔ باپ گھر میں مٹی کے برتن بناتا ہے، جنہیں اپنی ریڑھی پر بیچنے کے لیے بیٹا ہر روز صبح سویرے گھر سے نکلتا ہے۔ غلام حسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اسے اکثر پانچ چھ سو روپے روزانہ تک آمدنی ہوتی ہے، کبھی کبھی ایک ہزار روپے تک بھی۔ لیکن سارا دن سڑکوں کی خاک چھاننے کے بعد کبھی کبھار وہ رات کو خالی ہاتھ بھی گھر لوٹتا ہے، تب وہ اور اس کے گھر والے بہت اداس ہوتے ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
تعلیم کے بجائے تربوز فروشی
اسلام آباد کے سیکٹر جی الیون میں تربوز بیچنے والے یہ دونوں بھائی کبھی اسکول نہیں گئے۔ بڑا لیاقت بیگ پانچ سو روپے دیہاڑی پر یہ کام کرتا ہے اور چھوٹا منصور بیگ دو سو روپے یومیہ پر۔ وہ تربوز بیچیں یا کوئی دوسرا پھل، گرمی ہو یا سردی، انہیں سوائے اپنی روزی کمانے کے کسی دوسری چیز کا ہوش نہیں ہوتا۔ لیاقت نے بتایا کہ اس کے گھرانے کی گزر بسر ان دونوں کم سن بھائیوں کی محنت کی کمائی پر ہی ہوتی ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
اس تصویر کی سب سے تکلیف دہ بات کیا ہے؟
ایک معصوم بچہ جو ایک کم سن مزدور بھی ہے۔ نسوار اور نئی پشاوری چپل بیچنے کے ساتھ ساتھ ایک غریب گھرانے کا یہ لڑکا جوتے اور بیگ وغیرہ بھی مرمت کرتا ہے۔ کسی گاہک کے انتظار میں کسی گہری سوچ میں گم اس بچے کی تصویر کا سب سے تکلیف دہ پہلو دائیں طرف کونے میں نظر آنے والی اس کی کاپی ہے۔ جسے اس عمر میں اسکول میں زیر تعلیم ہونا چاہیے تھا، وہ فٹ پاتھ پر جوتے مرمت کر رہا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
اسکول بیگ کے بجائے دھوپ کے چشمے
اس چودہ سالہ لڑکے محمد حنیف کا تعلق پشاور سے ہے لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے وہ اپنے والدین کے ساتھ اسلام آباد رہائش پذیر ہے۔ پہلے وہ اسکول جاتا تھا، لیکن استاد کے ہاتھوں مار پیٹ کے باعث اسے اسکول سے نفرت ہو گئی اور وہ دوسری جماعت سے ہی اسکول سے بھاگ گیا، وہ چند سال تک مکئی کے بھنے ہوئے دانوں کی ریڑھی لگا چکا ہے مگر اب دھوپ کے چشمے بیچتا ہے، جو اس کے نزدیک صاف ستھرا کام ہے اور منافع بھی قدرے زیادہ۔
تصویر: DW/I. Jabeen
سب کچھ کہہ دینے والی ایک نظر
آٹھ سالہ بخشو جان، جو اس وقت سے ایسے رنگا رنگ غبارے بیچ رہا ہے، حالانکہ اس کی اپنی عمر ابھی ایسے غباروں سے کھیلنے کی ہے۔ بخشو نے بتایا کہ وہ اور اس کا پورا خاندان یہ غبارے بیچتے ہیں، جو لوگ اپنے بچوں کے لیے خرید بھی لیتے ہیں اور اکثر بغیر کچھ خریدے ہوئے اسے کچھ پیسے بھی دے دیتے ہیں۔ بخشو جان جس طرح اپنے غباروں کو دیکھ رہا ہے، لگتا ہے جیسے اس سوچ میں ہو، ’بیچ دوں یا اپنے ہی پاس رکھ لوں‘۔
تصویر: DW/I. Jabeen
عمر بارہ برس، کام کا تجربہ چار سال
اسلام آباد کی ایک مقامی مارکیٹ میں جوتوں کی ایک دکان پر سیلز بوائے کا کام کرنے والے بارہ سالہ جاوید چوہدری، جینز پہنے ہوئے، کو یہ کام کرتے ہوئے چار سال ہو گئے ہیں۔ جاوید کے بقول اس کے والد کا کافی عرصہ قبل انتقال ہو گیا تھا اور والدہ مختلف گھروں میں کام کرتی ہے۔ جاوید نے بتایا، ’’کئی برسوں سے ہم نے عید پر بھی نئے کپڑے نہیں بنائے۔ مہنگائی بہت ہے اور ہمارا گزارہ پہلے ہی بڑی مشکل سے ہوتا ہے۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
جو خود پہننا چاہیے، وہ بیچنے پر مجبور
سات سالہ وقاص احمد راولپنڈی کے علاقے راجہ بازار کا رہائشی ہے اور وہیں ایک اسٹال پر ریڈی میڈ کپڑے بیچتا ہے۔ گاہکوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے وہ بار بار ’ہر سوٹ، سو روپے‘ کی آواز لگاتا ہے۔ وقاص نے ڈی دبلیو کو بتایا کہ وہ یہ کام دو سال سے کر رہا ہے اور کبھی اسکول نہیں گیا۔ ’’ہمارے خاندان کا کوئی بچہ اسکول نہیں جاتا۔ سب چھوٹی عمر سے ہی اسٹال لگاتے ہیں۔‘‘
تصویر: DW/I. Jabeen
ایک بالغ سیلز مین اور دو ’چھوٹے‘
راولپنڈی میں خواتین کے لیے گرمیوں کے ڈوپٹوں کی ایک دکان، جس میں ایک بالغ سیلز مین اور اس کے دو کم سن معاون دیکھے جا سکتے ہیں۔ بچے جن کے اسکول کے بعد کھیلے کودنے کے دن تھے، خواتین کے کڑھائی والے ڈوپٹے بیچنے میں مدد کرتے ہوئے۔ اکثر غریب والدین اپنے چھوٹے بچوں کو سو دو سو روپے روزانہ کے بدلے ایسی دکانوں پر دن بھر کام کرنے کے لیے بھیج دیتے ہیں۔
تصویر: DW/I. Jabeen
گھروں میں صفائی کرنے والی کم سن بچیاں
اسلام آباد کی ایک کچی آبادی کی رہائشی یہ بچی اپنے گھر سے دور چند گھروں میں برتن اور کپڑے دھونے کے علاوہ صفائی کا کام بھی کرتی ہے۔ دن کے پہلے حصے میں ایک پرائمری اسکول میں دوسری جماعت کی طالبہ اور سہ پہر کے وقت ایک ایسی کم سن ایماندار گھریلو ملازمہ، جو جانتی ہے کہ اس کے والدین کی مجبوری ہے کہ وہ بھی محنت کر کے کچھ کمائے کچھ اور اس کے خاندان کا گزارہ ہو۔
تصویر: DW/I. Jabeen
گرمیوں میں برف، سردیوں میں بُھنی ہوئی مکئی
اسلام آباد میں ایک سڑک کے کنارے محنت کرنے والے یہ دونوں نابالغ بھائی گرمیوں میں یہاں برف بیچتے ہیں اور سردیوں میں بُھنی ہوئی مکئی۔ پاکستان کے ایسے کئی ملین بچوں کو یہ علم ہی نہیں کہ دنیا میں ہر سال بارہ جون کو بچوں سے لی جانے والی مشقت کے خلاف کوئی عالمی دن منایا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان پاکستانیوں کے روشن مستقبل کے لیے حکومت کیا اپنے تمام فرائض پورے کر چکی ہے؟
تصویر: DW/I. Jabeen
مڈل اسکول کے بجائے موٹرسائیکلوں کی ورکشاپ
ایک موٹر سائیکل ورکشاپ پر کام کرنے والا یہ بچہ اپنی عمر کے لحاظ سے کسی مڈل اسکول کا اسٹوڈنٹ ہونا چاہیے تھا لیکن غربت اور بھوک کے خلاف جنگ ایسے بچوں کے والدین کو اپنی اولاد کو ایسے کاموں پر ڈالے دینے پر مجبور کر دیتی ہے، جہاں سے وہ روزانہ سو دو سو روپے کما کر لا سکیں۔ وہ بچے جو تعلیم یافتہ پیشہ ور ماہرین بن سکتے ہیں، انہیں موٹر سائیکل مکینک یا خوانچہ فروش بنا دینا معاشرے کے لیے گھاٹے ہی کا سودا ہے۔
تصویر: DW/I. Jabeen
اس بچے کے ساتھ ناانصافی کا ذمے دار کون؟
محض چند برس کی عمر میں ریڑھی پر پھل بیچنے والے اس بچے کو تو موسم کی سختیوں سے بھی بچایا جانا چاہیے، بجائے اس کے کہ اس کا آج اور آنے والا کل دونوں محرومی کی داستان بن جائیں۔ اس بچے نے بتایا کہ اسے یاد نہیں کہ اس نے اس طرح پھل بیچنے کے علاوہ بھی کبھی کچھ کیا ہو۔ وہ اسکول جانا چاہتا تھا۔ لیکن اگر وہ ایسا نہیں کر سکا، تو اس کی اس محرومی کا ذمے دار کون ہے؟