1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین شرح پیدائش میں کمی سے پریشان

10 فروری 2021

چینی ماہرین سماجیات نے اسے انتہائی خطرناک رجحان قرار دیا ہے اور متنبہ کیا کہ چینی سماج بظاہر توقع سے کہیں زیادہ تیزی سے عمر دراز ہو رہا ہے۔

China Familie mit Baby in Nanjing
تصویر: picture-alliance/dpa/Yu Ping

چین کی وزارت پبلک سکیورٹی کی رپورٹ کے مطابق بچوں کی پیدائش میں گزشتہ برس پندرہ فیصد کی کمی درج ہوئی ہے۔ یہ تعداد ایک کروڑ دس لاکھ اناسی ہزار سے کم ہو کر ایک کروڑ چار لاکھ ہوگئی۔

چین کی وزارت پبلک سکیورٹی کا کہنا ہے کہ سن 2020 میں پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد اس سے پچھلے برس کے مقابلے میں پندرہ فیصد کم ہے۔ اس کی وجہ کورونا وائرس کی وبا اور اس سے پیدا ہونے والی صورت حال بتائی گئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ لوگ اقتصادی عدم استحکام کے خدشے سے خاندان میں اضافہ کرنے سے پہلے کافی غور و خوض کر رہے ہیں۔

وزارت کا کہنا ہے کہ سن 2019 میں چین میں ایک کروڑ دس لاکھ سے زیادہ بچے پیدا ہوئے تھے لیکن گزشتہ برس ان کی تعداد بہت کم رہی۔ سن 2020 میں جو بچے پیدا ہوئے ان میں 52.7 فیصد لڑکے اور 47.3 فیصد لڑکیاں ہیں۔

چین میں شادیوں کی شرح میں بھی کمی آئی ہے جب کہ طلاق کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔ شادیاں بالعموم زیادہ عمر میں ہو رہی ہیں جبکہ بیشتر جوڑے کافی تاخیر سے خاندان میں اضافہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔

'سب سے بڑا بحران‘

دنیا کی سب سے بڑی آبادی والے ملک چین نے گو کہ ایک بچہ پالیسی کو ختم کر دیا ہے لیکن سن 1976 کے بعد صرف سن 2016 میں بچوں کی پیدائش میں اضافہ ہوا جبکہ اس کے بعد سے شرح پیدائش میں مسلسل کمی آ رہی ہے۔

چین: ایغور مسلمان بچوں کی شرح پیدائش کم کرنے کی جبری کوشش

02:50

This browser does not support the video element.

حکومت کے ساتھ عوام بھی شرح پیدائش میں کمی سے فکر مند ہے۔ بچوں کی شرح پیدائش کے حوالے سے تازہ ترین رپورٹ شائع ہونے کے بعد چینی سوشل میڈیا میں ایک ہیش ٹیگ چل رہا ہے جس کا مطلب ہے''چین کو کم شرح پیدائش کی جال سے کیسے آزاد کرائیں۔"  تقریباً بارہ کروڑ افراد اس پوسٹ پر تبصرہ کر چکے ہیں۔ ایک صارف نے شرح پیدائش میں کمی کو 'چین کو در پیش سب سے بڑا بحران‘ قرار دیا۔

بدلتا ہوا سماج

کچھ لوگ روز مرہ کی ضرورتوں اور تعلیم وغیرہ پر بڑھتے ہوئے اخراجات کو شرح پیدائش میں کمی کا سبب قرار دیتے ہیں جبکہ بعض لوگوں کے مطابق عوام کی سوچ میں بڑی تبدیلیاں آ رہی ہیں۔

چینی سوشل میڈیا وائیبو پر ایک صارف نے لکھا”کم ہوتی شرح دراصل چینیوں کی سوچ میں ترقی کو اجاگر کرتی ہے۔ عورتیں اب صرف بچے پیدا کرنے کی مشین نہیں ہیں۔" لیکن ایک دیگر صارف نے لکھا”اگر پورا سماج ہی بچے پیدا کرنے اور ان کی پرورش کو بوجھ سمجھنے لگے تو پھر سماج کے سامنے مسائل پیدا ہوجائیں گے۔"

حالیہ برسوں میں چینی جوڑے صحت کی دیکھ بھال، تعلیم اور رہائش پر بڑھتے ہوئے اخراجات کے مدنظر بچے پیدا کرنے کا فیصلہ کافی سوچ سمجھ کر کر رہے ہیں۔ چین نے آبادی میں کم کرنے کے لیے سن 1970کے عشرے میں ایک بچہ پالیسی نافذ کی تھی۔ لیکن ملک کی تیزی سے عمر دراز ہوتی آبادی کو دیکھتے ہوئے سن 2016 میں اس پالیسی کو ختم کر دیا گیا تھا۔ تاہم اس کے باوجود شرح پیدائش میں حسب توقع اضافہ نہیں ہو رہا ہے۔

چینی باشندوں کی پاکستانی بیویاں

02:59

This browser does not support the video element.

بیس فیصد آبادی 60 برس سے زیادہ عمر والوں کی

گزشتہ برس کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے پیدا اقتصادی عدم استحکام نے لوگوں کے لیے بچے پیدا کرنے کے سلسلے میں فیصلہ کرنا مزید مشکل بنا دیا ہے۔ یہ چین کے لیے انتہائی تشویش کی بات ہے کیوں کہ اس کی آبادی بڑی تیزی سے عمر دراز ہوتی جا رہی ہے۔

چین کی آبادی کا تقریباً پانچواں حصہ یا پچیس کروڑ سے زائد لوگوں کی عمریں ساٹھ برس سے زیادہ ہوچکی ہیں۔ حکومت کی پریشانی یہ بھی ہے کہ اس نے ان لوگوں کو صحت کی دیکھ بھال اور پنشن کی ضمانت دی ہے۔ دوسری طرف افرادی قوت میں مسلسل کمی کا اثر پیداواریت پر پڑے گا۔

چین کی سرکاری میڈیا نے گزشتہ دسمبر میں شہری امور کے وزیر کے حوالے سے بتایا تھا کہ ملک میں شرح پیدائش''خطرناک حد تک کم ہوگئی ہے۔" یہ آبادی کو ایک مقررہ سطح پر برقرار رکھنے کے لیے ضروری فی خاتون 2.1 بچہ کی پیدائش سے بھی نیچے پہنچ گئی ہے۔

ج ا/ ص ز  (روئٹرز، ڈی پی اے، اے ایف پی)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں