چین، شمالی کوریا کا دو طرفہ تعلقات مضبوط بنانے کا اظہار
5 اکتوبر 2009چینی وزیراعظم وین جیا باؤ چین کے کمیونسٹ انقلاب کے ساٹھ برس مکمل ہونے پر نظریاتی اتحادی شمالی کوریا کے تین روزہ خیر سگالی دورے پر ہیں۔ امید کی جارہی ہے کہ اس دورے کے بعد شمالی کوریا اپنے ایٹمی پروگرام سے متعلق چھ ملکی مذاکرات کا سلسلہ دوبارہ شروع کرنے پر بھی تیار ہوجائے گا۔
مشترکہ طورپر جاری کئے گئے ایک بیان میں جیا باؤ نے چین اور شمالی کوریا کے دوطرفہ تعلقات کو خطے میں امن اور ترقی کیلئے ناگزیر قرار دیا ہے، جبکہ شمالی کوریا کے رہنما کم یونگ ال نے چین کے ساتھ اپنے ملک کے تعلقات کو دونوں ملکوں کا مشترکہ اثا ثہ قراردیا ہے۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے عائد پابندیوں کے باعث عالمی طورپر تنہا رہ جانے والے شمالی کوریا کے لئے چین تجارتی اور سیاسی طور پر کلیدی حیثیت رکھتا ہے، مگر مئی میں متنازعہ ایٹمی اور میزائل تجربات کے بعد سے دونوں ممالک کے تعلقات قدرے کشیدہ ہوگئے ہیں۔
شمالی کوریا نے امریکہ، چین، روس، جاپان اور جنوبی کوریا کے ساتھ چھ سال تک جاری اپنا مذاکراتی سلسلہ منقطع کردیا تھا جس پر چین نے سلامتی کونسل میں شمالی کوریا پر پابندی عائد کرنے سے متعلق قرارداد کی حمایت کی تھی۔ تاہم چین ابھی بھی شمالی کوریا کا سب سے بڑا تجارتی اتحادی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا حجم تین ارب ڈالر سالانہ کے قریب ہے۔
تاریخی طور پر چین شمالی کوریا کا مضبوط ترین حلیف رہا ہے۔ 1950-53 کی کوریا جنگ میں چین نے شمالی کوریا کا ساتھ دیتے ہوے امریکی فوج کا مقابلہ کیا تھا، جو جنوبی کوریا کی حمایت میں وہاں آئی تھی۔ اپنے حالیہ دورہ کے آغاز پر چینی وزیراعظم نے اس جنگ میں مارے جانے والے فوجیوں کی یادگار پر بھی حاضری دی جو کمیونسٹ اتحادیوں کےگہرےدوطرفہ تعلقات کی نشانی تصور کی جاتی ہے۔ دوسری جانب جنوبی کوریا ئی حکام نے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ چین شمالی کوریا کو ایٹمی پروگرام ختم کرنے اور چھ ملکی مذاکراتی سلسلہ دوبارہ شروع کرنے پر تیار کرلے گا۔
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: انعام حسن