عراقی حکومت کا منصوبہ ہے کہ چینی شراکت داری کے ساتھ بندرگاہی شہر الفاو میں ایک آئل ریفائنری تعمیر کی جائے گی۔ یہ مجوزہ ریفائنری یومیہ تین لاکھ بیرل تیل پیدا کرنے کی صلاحیت کی حامل ہو گی۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز نے عراقی وزارت برائے تیل کے حوالے سے انتیس جنوری بروز پیر بتایا ہے کہ بغداد حکومت چین کی دو کمپنیوں کی مدد سے الفاو میں ایک آئل فیلڈ تعمیر کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ وزارت کی ویب سائٹ پر جاری کردہ ایک بیان کے مطابق اس بندرگاہی شہر میں تعمیر کی جانے والی اس آئل ریفائنری کے ساتھ پیٹروکیمکل کا ایک پلانٹ بھی لگایا جائے گا۔
چین کی کوشش ہے کہ وہ دنیا کے دیگر خطوں کی طرح مشرق وسطیٰ کے ممالک میں بھی سرمایہ کاری کرے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ عراق میں چینی شراکت داری کا یہ مجوزہ منصوبہ علاقائی سطح پر چین کے اثرورسوخ میں مزید اضافے کا باعث بنے گی۔
عراق میں انتہا پسندوں کے خلاف کامیاب حکومتی کریک ڈاؤن کے بعد اب بغداد ترقی اور تعمیراتی کاموں پر توجہ مرکوز کرنا چاہتی ہے۔ حکام کے مطابق یہ منصوبہ بھی اسے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ حکومت کے مطابق بغداد حکومت کی کوشش ہے کہ عراق میں تین مزید آئل ریفائنریاں بھی قائم کی جائیں، جس کی خاطر سرمایہ کاروں کی تلاش کا کام جاری ہے۔
وزارت تیل کے مطابق جنوبی عراق کے علاقے ناصریہ اور مغربی صوبے انبار میں ایک ایک آئل ریفائنری بنائی جائے گی، جو یومیہ ڈیڑھ لاکھ بیرل خام تیل پیدا کرنے کی صلاحیت کی حامل ہوں گی۔
اسی طرح تیسری آئل ریفارئنری موصل کے نزدیک واقع شہر القیارہ میں قائم کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ یہ آئل فیلڈ ایک لاکھ تیل یومیہ پیدا کر سگے گی۔ موصل کو گزشتہ برس ہی انتہا پسند گروہ داعش سے آزاد کرایا گیا تھا۔ وہاں اب بحالی اور تعمیر نو کا کام بھی جاری ہے۔
عراق، سعودی عرب کے بعد تیل پیدا کرنے والا دنیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ یہ دونوں ممالک تیل پیدا کرنے والی تنظیم اوپیک کے رکن ملک بھی ہیں۔ تاہم عراق میں انتہا پسند گروہ داعش کی خونریزی کے نتیجے میں عراق کو کافی زیادہ اقتصادی نقصان ہوا ہے۔ ان جنگجوؤں نے سن 2014 میں عراقی علاقے بیجی میں تیل صاف کرنے والے سب سے بڑے پلانٹ پر قبضہ بھی کر لیا تھا۔
عراقی فورسز نے سن 2015 میں بیجی کو بازیاب کرا لیا تھا۔ تاہم اس فوجی کارروائی کے نتیجے میں اس پلانٹ کو شدید نقصان پہنچا تھا۔ اب عراقی حکومت بغداد میں واقع الدورہ ریفائنری اور شبعیہ آئل ریفائنریوں پر انحصار کر رہی ہے۔
عراق: موصل میں خوف سے فرار ہوتے ہوئے شہری
عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل پر مکمل قبضے کے لیے عراقی فورسز دن رات حملوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہزاروں افراد متاثرہ علاقے چھوڑ کر فرار ہو رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
موصل کے مغربی حصے پر قبضے کے لیے اس فوجی آپریشن کا آغاز انیس فروری کو کیا گیا تھا لیکن خراب موسم اور داعش کی طرف سے مزاحمت کے بعد یہ سست روی کا شکار ہو گیا۔ اتوار کے روز سے عراقی فورسز اس حصے پر قبضے کے لیے اپنی بھرپور کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
تصویر: Reuters
عراقی فورسز نے ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر موصل کے مغربی حصے میں مزید کامیابیاں حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے جبکہ مغربی موصل میں جاری اس جنگ کی وجہ سے تقریباﹰ پچاس ہزار افراد یہ علاقہ چھوڑ کر فرار ہو چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/S. Salem
موصل کو دہشت گرد تنظیم داعش سے آزاد کرانے کے لیے کارروائی جاری ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق اس دوران موصل کے بچوں کی ایک بڑی تعداد دہشت زدہ ہو کر رہ گئی ہے۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
ان بچوں کے دہشت زدہ ہونے کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے سامنے اپنے رشتہ داروں یا اہل محلہ کو بے دردی سے مرتے اور قتل ہوتے دیکھا ہے۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
فلاحی اداروں سے منسلک افراد کا کہنا ہے کہ موصل کے متاثرہ بچوں کی ذہنی تربیت ضروری ہے کیونکہ ان میں سے زیادہ تر شدید صدمے کا شکار ہیں:’’ کچھ بچے سکتے میں بھی ہیں، اچانک رو بھی پڑتے ہیں اور چیختے چلاتے ہیں جبکہ کچھ کا رویہ انتہائی جارحانہ ہے‘‘۔
تصویر: Reuters/S. Salem
داعش کے خلاف بغداد حکومت کا فوجی آپریشن جوں جوں آگے بڑھ رہا ہے، توں توں اس سے زمین کا ماحول تباہ ہو رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ آلودگی انسانوں کے لیے کئی برسوں تک مضر صحت رہے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
موصل پر قبضے کی مہم میں داعش نے تیل کے کنوئیں کو آگ لگانے کے علاوہ گندھک کی ایک فیکٹری کو بھی آگ لگا دی تھی۔ آگ اور پانی کی آلودگی کے ساتھ فضا میں تباہ ہونے والی عمارتوں سے اٹھنے والی زہریلی گرد اور خاک، ہتھیار اور جنگی آلات بھی موصل اور گردونواح کے لوگوں کی جانوں کے لیے خطرے کا باعث ہوں گے۔
تصویر: Reuters/World Press Photo Foundation/The New York Times/S. Ponomarev
موصل میں کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی رپورٹوں کے بعد عراق میں ہیومینیٹیرین کوآرڈینیٹر لیزا گرانڈے کا کہنا تھا کہ کیمیائی ہتھیاروں کا مبینہ استعمال جنگی جرم کے زمرے میں آسکتا ہے اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ گرانڈے کے مطابق، ’’یہ انتہائی خوفناک ہے‘‘۔
تصویر: Reuters
امدادی گروپوں کے اندازوں کے مطابق موصل کے مغربی حصے میں تقریباﹰ ساڑھے چھ لاکھ شہری موجود ہیں اور ان میں سے بچوں کی تعداد تقریبا ساڑھے تین لاکھ بنتی ہے۔
تصویر: Reuters/S. Salem
عراقی فورسز نے ملک کے دوسرے سب سے بڑے شہر موصل کے مغربی حصے میں مزید کامیابیاں حاصل کرنے کا دعویٰ کیا ہے جبکہ امریکی عسکری حکام کے مطابق داعش کے غیر ملکی عسکریت پسند یہ علاقہ چھوڑ کر فرار ہونے کی کوششوں میں ہیں۔
تصویر: Reuters/Z. Bensemra
موصل کو دریائے دجلہ نے تقسیم کر رکھا ہے۔ عراقی فورسز نے تین ماہ سے زائد کی لڑائی کے بعد جنوری میں موصل کے مغربی حصے پر تو قبضہ کر لیا تھا لیکن دریائے دجلہ کی دوسری جانب مغربی حصے کا کنٹرول ابھی تک داعش کے ہاتھوں میں ہے۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
امریکی فضائیہ کے بریگیڈیئر جنرل میتھیو آئیلر کا کہنا تھا، ’’کھیل ختم ہو چکا ہے۔ وہ اپنی جنگ ہار چکے ہیں اور جو آپ اس وقت دیکھ رہے ہیں، وہ وقت حاصل کرنے کے طریقے ہیں۔‘‘ امریکی کمانڈر کے مطابق مغربی موصل کی لڑائی سے پہلے ہی داعش کے متعدد سرگرم لیڈر مار دیے گئے تھے۔
تصویر: Reuters/G. Tomasevic
داعش کے خودکش حملہ آوروں کو ابھی بھی خطرہ تصور کیا جا رہا ہے لیکن اب فی الحال ایسے دس حملہ آوروں میں سے ایک ہی کامیاب ہو رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
اقوام متحدہ کی ترجمان روینا شمداسنی کا جنیوا میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’آئی ایس آئی ایل جان بوجھ کر بعض مقامات پر مغوی عورتوں اور بچوں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کرنے کی بزدلانہ حکمت عملی استعمال کر رہی ہے تاکہ فوجی کارروائیوں سے محفوظ رہا جا سکے۔‘‘