1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین: لاکھوں اعلی تعلیم یافتہ نوجوان مناسب روزگار کی تلاش میں

عدنان اسحاق / Hartmut Beuß12 ستمبر 2013

چین میں اقتصادی ترقی میں کمی کا رجحان ہے۔ اس کا اثر روزگار کی منڈی پر پڑ رہا ہے۔ چین میں آج کل صورتحال یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو بھی مناسب روزگار کی تلاش میں شدید مسائل کا سامنا ہے۔

تصویر: picture-alliance/dpa

بیجنگ حکومت روزگار کے منڈی کی صورتحال سے اچھی طرح واقف ہے۔ حکومت مختلف اقدامات کرتے ہوئے کوشش کر رہی ہے کہ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو مناسب روزگار مہیا کیا جائے۔ اس سلسلے میں اب ’جاب ایگزیبیشنز‘ بھی لگائی جا رہی ہیں۔ اسی نوعیت کی ایک نمائش گزشتہ دنوں شنگھائی میں منعقد ہوئی۔ اس نمائش کو دیکھنے اور پیشہ ورانہ زندگی میں اپنے لیے امکانات کی تلاش میں روزانہ ہزاروں نوجوان ’شنگھائی جاب ایگزیبیشن‘ میں شریک ہوئے۔ ان میں سے ایک لی یابن بھی تھی۔ لی بتاتی ہے کہ اسے ایک جاب ملی تو تھی لیکن شروع کرنے سے قبل ہی کمپنی نے کسی اور کو اس جاب کے لیے منتخب کر لیا۔ لی کے بقول وہ اپنی قسمت آزمانے کے لیے اس نمائش میں آئی۔ ’’کوئی عام سی جاب حاصل کرنا تو کوئی مسئلہ نہیں ہے لیکن ایک اچھا اور مناسب روزگار تلاش کرنا انتہائی مشکل ہے۔ میں کسی بڑی کمپنی میں کام کرنا چاہتی ہوں کیونکہ بڑی کمپنیاں تربیتی کورس کرواتی ہیں اور اس طرح مزید سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔‘‘

تصویر: Ruth Kirchner

لی کی طرح زیادہ تر نوجوانوں کی سوچ بھی یہی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق رواں برس تقریباً سات ملین نوجوان مختلف چینی یونیورسٹیوں سے فارغ ہوئے ہیں۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ طلبا کی اتنی بڑی تعداد تعلیم مکمل کرنے کے بعد روزگار کی تلاش میں ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کی خواہش ہے کہ انہیں کسی سرکاری کمپنی یا سرکاری محکمے میں نوکری مل جائے۔ تاہم رواں برس صنعتی ترقی میں کمی کی وجہ سے سرکاری اداروں میں نوکری حاصل کرنا مزید مشکل ہو گیا ہے۔ شنگھائی جاب ایگزیبیشن میں چھوٹے پیمانے کی کمپنیوں نے بھی اپنے اسٹالز لگائے تاکہ مناسب ترین افراد کو تلاش کیا جائے۔ اسی طرح کی ایک کمپنی سے منسلک لی ژیا بتاتی ہیں۔ ’’یونیورسٹیوں کے تازہ فارغ التحصیل نوجوانوں کے ساتھ ایک مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ انہیں کام کا تجربہ نہیں ہوتا۔ ہماری کمپنی مزید سیکھنے پر رضامند اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کو نوکری دیتی تو ہے لیکن ان سے توقع بھی رکھتی ہےکہ وہ محنتی اور لچکدار رویے کا مظاہرہ کریں۔‘‘

اس شعبے کے ماہرین کہتے ہیں کہ چینی یونیورسٹیوں کے گریجویٹ نوجوان روزگار کی منڈی کی مشکلات سے واقف نہیں ہوتے۔ چائنا شیف ہیز کمپنی کے زیمون لانس کہتے ہیں کہ اعلیٰ تعلیمی اداروں اور آجر اداروں کے مابین فاصلہ بہت زیادہ ہے۔ ’’تعلیم میں اقتصادیات کے موضوع کو بھی لازمی طور پر شامل کیا جانا چاہیے۔ چین میں پڑھائی کے دوران کسی ادارے میں انٹرن شپ کرنے کا رجحان نہ ہونے کے برابر ہے حالانکہ پیشہ ورانہ زندگی کے حوالے سے یہ بہت ہی اہم ہے۔‘‘

تصویر: Reuters

شنگھائی جاب ایگزیبیشن کے دوران جوتے بنانے والی ایک کمپنی نے لی یابن کو انٹرویو کے لیے بلایا۔ یابن اس پیش رفت پر انتہائی خوش تھی۔ یہ انٹرویو نمائش کے دوران ہی کیا جانا تھا۔ لی یابن کا انٹرویو آدھ گھنٹے تک جاری رہا۔ کیا اسے اس کی پسندیدہ نوکری مل گئی؟ ’’انٹرویو اچھا رہا۔ کمپنی نے تو مجھے تقریباً جاب کی پیشکش کر دی ہے لیکن میں ابھی اس بارے میں سوچ کر ہی جواب دوں گی۔ ابھی تھوڑی دیر میں میرا ایک اور انٹرویو بھی ہے، میں اس کے بعد ہی فیصلہ کروں گی۔‘‘

لی کے پاس تو یہ موقع ہے کہ وہ ایک اور انٹرویو دے سکتی ہے لیکن اس کے متعدد ساتھی نوجوانوں کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ کسی انٹرویو کے مرحلے تک پہنچنا ہی کتنا مشکل ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں