چین ممکنہ طور پر 'انسانیت کےخلاف جرائم' میں ملوث،اقوام متحدہ
1 ستمبر 2022
اقوام متحدہ نے 'باوثوق' اطلاعات کی بنیاد پر اپنی انتہائی اہم رپورٹ میں کہا ہے کہ ایغورعوام کو تفریق آمیز قید و بند اور اذیت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ چین کا یہ تفریق آمیز سلوک "انسانیت کے خلاف جرائم" کے مترادف ہے۔
اشتہار
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر نے بدھ کے روز جاری کردہ اپنی ایک انتہائی اہم رپورٹ میں کہا ہے کہ سنکیانگ میں ایغور اور مسلم گروپوں کے دیگر افراد کو سن 2017 سے 2019 تک اور ممکنہ طور پر اس کے بعد بھی ان کے بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان افراد کے ساتھ "اذیت یا غلط سلوک بشمول جبراً طبی علاج اور ناگفتہ بہ حالات میں قید میں رکھنے کے الزامات درست اور معتبر ہیں۔"
چین نے تاہم ان الزامات کو مغربی طاقتوں کی جانب سے "جھوٹ کا پلندہ" قرار دیتے ہوئے رپورٹ کو مسترد کر دیا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل، ہیومن رائٹس واچ اور دیگر گروپوں کی جانب سے ایک عرصے سے چین پر سنکیانگ خطے میں دس لاکھ سے زائدایغور افراد کو قید میں رکھنے کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کی طرف سے جاری اس نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ"حکومت، اقوام متحدہ کے بین حکومتی اداروں اور انسانی حقوق کے نظام نیز بین الاقوامی برادری کو اس صورت حال پر فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے۔"
اشتہار
بڑی دیر کی...
اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کا کافی عرصے سے انتظار تھا۔ یہ رپورٹ سنکیانگ میں آٹھ مختلف حراستی مراکز کے سابق قیدیوں اور وہاں کام کرنے والے دیگر افراد کے ساتھ انٹرویو پر مبنی ہے۔
بعض قیدیوں کا کہنا ہے کہ انہیں ایسے دستاویزات پر دستخط کرنے کے لیے مجبور کیا گیا کہ وہ اپنے ساتھ ہونے والے سلوک کے بارے میں کسی کو نہیں بتائیں گے۔ اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کا کہنا ہے کہ چینی حکام یہ معلومات آسانی سے دینے کے لیے آمادہ نہیں تھے۔
48 صفحات پر مشتمل رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایغوروں کو جرائم کے الزام میں حراستی مراکز، جنہیں چین"ووکیشنل سینٹر" کہتا ہے، سے اب روایتی جیلوں میں منتقل کیا جا رہا ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دہشت گردی، انتہاپسندی اور عوامی سلامتی کے متعلق غیر واضح اور وسیع تر تشریح کے تحت ملکی جرائم قانون کا استعمال بالخصوص تشویش کا موجب ہے کیونکہ ان کے تحت طویل مدتی سزائیں دی جا سکتی ہیں۔
چین میں ایغوروں کا دیس سکیورٹی اسٹیٹ میں تبدیل
چین کا کہنا ہے کہ اُسے اپنے مغربی علاقے سنکیانگ میں مسلمان انتہا پسندی کے ایک سنگین خطرے کا سامنا ہے۔ بیجنگ حکومت کا الزام ہے کہ ایغور مسلم اقلیت ہان چینی اکثریت کے ساتھ کشیدگی کو ہوا دے رہی ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
مغربی چینی علاقے سنکیانگ میں حفاظتی انتظامات سخت تر
چین کی قدیم شاہراہِ ریشم پر واقع شہر کاشغر میں دن میں تین بار الارم بجتا ہے اور دکاندار حکومت کی طرف سے دیے گئے لکڑی کے ڈنڈے تھامے فوراً اپنی دکانوں سے باہر نکل آتے ہیں۔ پولیس کی نگرانی میں منظم کی جانے والی ان انسدادِ دہشت گردی مشقوں کے دوران یہ دکاندار چاقو لہرانے والے فرضی حملہ آوروں کے خلاف لڑتے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
’وَن بیلٹ، وَن روڈ پروگرام‘
ایغور نسل کا ایک شہری صحرائے تکلامکان میں امام عاصم کے مقبرے کو جانے والے راستے پر جا رہا ہے۔ کاشغر نامی شہر کو، جو پہلے ایک تاریخی تجارتی چوکی ہوا کرتا تھا، صدر شی جن پنگ کے ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ نامی اُس اقتصادی پروگرام میں بھی مرکزی حیثیت حاصل ہے، جس کے ذریعے وہ چین کو ایشیا، مشرقِ وُسطیٰ اور اُس سے بھی آگے واقع خطّوں کے ساتھ جوڑ دینا چاہتے ہیں۔
چین کو ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ سمٹ میں خلل کا اندیشہ
خود مختار علاقے سنکیانگ ایغور میں ایک شخص اپنی بھیڑیں چرا رہا ہے۔ چین کے بدترین خدشات میں سے ایک یہ ہے کہ کوئی بہت بڑے پیمانے کا حملہ بیجنگ میں اُس ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ سمٹ کو نشانہ بنا سکتا ہے، جس میں کئی عالمی رہنماؤں کی شرکت متوقع ہے۔ علاقائی صدر مقام اُرمچی میں 2009ء میں ہونے والے نسلی ہنگاموں کے بعد سے سنکیانگ خونریز پُر تشدد واقعات کا مرکز بنا ہوا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
چین میں نسلی اقلیت
ایک خاتون صحرائے تکلامکان میں امام عاصم کے مقبرے کے قریب ایک قبر پر دعا مانگ رہی ہے۔ ایغور ترک زبان بولنے والی اقلیت ہے، جس کے زیادہ تر ارکان سنی مسلمان ہیں۔ ایغوروں کا شمار چین میں سرکاری طور پر تسلیم شُدہ پچپن اقلیتوں میں ہوتا ہے۔ اگرچہ ایغور مجموعی طور پر ایک قدرے معتدل اسلام پر عمل پیرا ہیں لیکن کچھ ایغور جا کر مشرقِ وُسطیٰ میں مسلمان ملیشیاؤں میں شامل ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
کمیونسٹ پارٹی کا دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنے کا عزم
چینی میڈیا کے مطابق کسی دہشت گردانہ حملے کا خطرہ بہت زیادہ ہے اور اسی لیے کمیونسٹ پارٹی نے بھی مسلمان انتہا پسندوں کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ مثلاً چینی حکام نے مسلمان کمیونٹی کے رسم و رواج پر کئی طرح کی پابندیاں لگا دی ہیں۔ ریاستی پراپیگنڈے کو ’رَد کرنا‘ غیر قانونی قرار دیا گیا حالانکہ یہ واضح نہیں ہو سکا کہ حکام اس ضابطے کو نافذ کیسے کریں گے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب
بہت سے مقامی باشندوں کے خیال میں انسدادِ دہشت گردی کی مشقیں ایک ظالمانہ سکیورٹی آپریشن کا حصہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ چند مہینوں سے سنکیانگ کے ایغور علاقوں میں یہ آپریشن تیز تر کر دیا گیا ہے اور اس کا مقصد سکیورٹی سے زیادہ بڑے پیمانے پر نگرانی کرنا ہے۔ کاشغر میں ایک دکاندار نے بتایا:’’ہماری کوئی نجی زندگی نہیں رہ گئی۔ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ آپ کیا کرنے والے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/T. Peter
مسلمانوں کی مخصوص روایات پر پابندی
مردوں پر لگائی گئی سب سے نمایاں پابندی یہ ہے کہ وہ اپنی ’داڑھیاں غیر معمولی طور پر نہ بڑھائیں‘۔ خواتین پر نقاب پہننے کی پابندی عائد کی گئی ہے۔ خاص طور پر ریلوے اسٹیشنوں اور ہوائی اڈوں جیسے عوامی مقامات میں برقعہ کرنے والی خواتین کا داخلہ ممنوع قرار دیا گیا ہے اور فوراً پولیس کو مطلع کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
سکیورٹی عملے کے چوکس ارکان
حکام نے ایسے لوگوں کے لیے انعام کا اعلان کر رکھا ہے، جو لمبی داڑھیوں والے نوجوانوں یا ایسی مذہبی روایات کی پاسداری کی اطلاع دیں گے، جس میں انتہا پسندی کا پہلو نکل سکتا ہو۔ اس طرح مخبری کا ایک باقاعدہ نظام تشکیل دیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کے علمبردار گروپ ایسے احکامات کو ہدفِ تنقید بنا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
معیشت یا سلامتی؟
حکومت سنکیانگ میں جبر کی پالیسیاں اختیار کرنے کے الزامات کو مسترد کرتی ہے اور اُن بھاری رقوم کا ذکر کرتی ہے، جو معدنی وسائل سے مالا مال اس خطّے کی اقتصادی ترقی کے لیے خرچ کی جا رہی ہیں۔ چین کی نسلی پالیسیوں کے ایک ماہر جیمز لائی بولڈ کے مطابق سنکیانگ میں سکیورٹی کے اقدامات لوگوں اور خیالات کے بہاؤ کو روکیں گے اور یوں ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ پروگرام کے خلاف جاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
9 تصاویر1 | 9
چین کی تردید
اقوام متحدہ نے یہ رپورٹ اس وقت جاری کی جب اقوام متحدہ انسانی حقوق کمیشن کی سربراہ میشیل بیچلیٹ کی چارسالہ مدت کار ختم ہونے میں صرف 13 منٹ باقی رہ گئے تھے۔ بیچلیٹ پر ماضی میں چین کے ساتھ نرم رویہ اختیار کرنے کے الزامات عائد ہوتے رہے ہیں۔ تاہم انہوں نے اس رپورٹ کو جاری نہ کرنے کی چین کی اپیل مسترد کردی۔
بیچلیٹ نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،"میں نے کہا تھا کہ میں اپنی مدت کار ختم ہونے سے قبل اسے شائع کر دوں گی اور میں نے ایسا کردیا۔" انہوں نے مزید کہا،"یہ معاملات سنگین ہیں اور میں نے چین میں اعلیٰ سطح پر قومی اور علاقائی عہدیداروں کے سامنے انہیں اٹھایا ہے۔"
اقوام متحدہ میں چین کے سفیر زانگ جن نے قبل ازیں بدھ کے روز کہا تھا کہ بیجنگ، مہینوں سے تیار پڑی، اس رپورٹ کو جاری کرنے کی مخالفت کرے گا۔ زانگ نے دعویٰ کیا تھا کہ "سنکیانگ کا مبینہ مسئلہ یکسر من گھڑت ہے اور اس کا مقصد چین کو بدنام کرنا ہے۔"
ترکی میں موجود ایغور مسلمان، چین بدر کیے جانے کے خوف میں
03:41
اقوام متحدہ سے جامع کارروائی کی اپیل
ہیومن رائٹس واچ کے چین امور کی ڈائریکٹر سوفی رچرڈسن کا کہنا تھا کہ"رپورٹ سے پتہ چل گیا کہ آخر چین کی حکومت اس رپورٹ کی اشاعت کو روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کیوں کررہی تھی۔"
انہوں نے کہا کہ"اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کونسل کو اس رپورٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے چینی حکومت کی جانب سے انسانیت کے خلاف جرائم کے حوالے سے جامع تفتیش شروع کرنی چاہئے اور اس کے لیے ذمہ داروں کو قصوروار ٹھہرانا چاہئے۔"
سنکیانگ میں تقریباً ایک کروڑ 20 لاکھ ایغور ہیں ان میں بیشتر مسلمان ہیں۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے غیرمسلموں کے ساتھ بھی تفریق آمیز سلوک کیا جاتا ہو۔ ماضی میں بعض ممالک سنکیانگ میں چین کے اقدامات کو نسل کشی قرار دے چکے ہیں۔