چین منظم طریقے سے ایغور مسلمانوں کی آبادی کم کر رہا ہے،رپورٹ
7 جون 2021
ایک جرمن محقق کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق چین سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں اور دیگر نسلی اقلیتوں کی آبادی منظم طریقے سے کم کر رہا ہے۔ آئندہ بیس برسوں میں مسلمانوں کی آبادی ایک تہائی کم ہو جانے کا خدشہ ہے۔
اشتہار
چین نے ایک طرف تواپنی آبادی میں اضافے کے لیے تین بچے پیدا کرنے کی اجازت دے دی ہے تو دوسری طرف ایغور مسلمانوں اور سنکیانگ کی دیگر نسلی اقلیتوں کی آبادی کو کم کرنے کے لیے منصوبہ بند طریقے سے اقدامات کررہا ہے اور اگلے دو عشروں کے دوران ان کی آبادی 26 لاکھ سے 45 لاکھ کے درمیان تک کم کرنا چاہتا ہے۔
خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق جرمن محقق آدریا ن سینز کی یہ رپورٹ ایسے وقت آئی ہے جب بعض مغربی ممالک کی طرف سے سنکیانگ میں چین کے اقدامات، جو ان کے مطابق نسل کشی کے مترادف ہیں، کی تفتیش کے مطالبات بڑھتے جارہے ہیں۔ بیجنگ ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔
آدریان نے یہ رپورٹ ان چینی دانشوروں اور عہدیداروں کی تحقیقی رپورٹوں کی بنیاد پر تیار کی ہے جو سنکیانگ میں آبادی کے کنٹرول کی پالیسیوں پر کام کرتے ہیں۔ آدریان کے مطابق سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ سن 2017 سے سن 2019 کے درمیان سنکیانگ میں 48.7 فیصد کم بچے پیدا ہوئے ہیں اور بیجنگ حکومت نے جو منصوبے تیار کیے ہیں ان کی وجہ سے اگلے دو عشروں میں ایغور مسلمانوں اور سنکیانگ صوبے میں دیگر نسلی اقلیتوں کے یہاں 26 لاکھ سے 45 لاکھ تک کم بچے پیدا ہوں گے۔
حقوق انسانی کے گروپوں، محققین اور بعض مقامی افراد کا کہنا ہے کہ بیجنگ حکومت نے جو نئی پالیسیاں نافذ کی ہیں ان میں ایغور مسلمانوں اور دیگر نسلی اقلیتوں کی آبادی کو محدود کرنا، مزدوروں کو دوسرے علاقوں میں منتقل کر دینا اور تقریباً دس لاکھ ایغور اور دیگر نسلی اقلیتوں کو تربیتی کیمپوں میں رکھنا شامل ہیں۔
چین میں ایغوروں کا دیس سکیورٹی اسٹیٹ میں تبدیل
چین کا کہنا ہے کہ اُسے اپنے مغربی علاقے سنکیانگ میں مسلمان انتہا پسندی کے ایک سنگین خطرے کا سامنا ہے۔ بیجنگ حکومت کا الزام ہے کہ ایغور مسلم اقلیت ہان چینی اکثریت کے ساتھ کشیدگی کو ہوا دے رہی ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
مغربی چینی علاقے سنکیانگ میں حفاظتی انتظامات سخت تر
چین کی قدیم شاہراہِ ریشم پر واقع شہر کاشغر میں دن میں تین بار الارم بجتا ہے اور دکاندار حکومت کی طرف سے دیے گئے لکڑی کے ڈنڈے تھامے فوراً اپنی دکانوں سے باہر نکل آتے ہیں۔ پولیس کی نگرانی میں منظم کی جانے والی ان انسدادِ دہشت گردی مشقوں کے دوران یہ دکاندار چاقو لہرانے والے فرضی حملہ آوروں کے خلاف لڑتے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
’وَن بیلٹ، وَن روڈ پروگرام‘
ایغور نسل کا ایک شہری صحرائے تکلامکان میں امام عاصم کے مقبرے کو جانے والے راستے پر جا رہا ہے۔ کاشغر نامی شہر کو، جو پہلے ایک تاریخی تجارتی چوکی ہوا کرتا تھا، صدر شی جن پنگ کے ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ نامی اُس اقتصادی پروگرام میں بھی مرکزی حیثیت حاصل ہے، جس کے ذریعے وہ چین کو ایشیا، مشرقِ وُسطیٰ اور اُس سے بھی آگے واقع خطّوں کے ساتھ جوڑ دینا چاہتے ہیں۔
چین کو ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ سمٹ میں خلل کا اندیشہ
خود مختار علاقے سنکیانگ ایغور میں ایک شخص اپنی بھیڑیں چرا رہا ہے۔ چین کے بدترین خدشات میں سے ایک یہ ہے کہ کوئی بہت بڑے پیمانے کا حملہ بیجنگ میں اُس ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ سمٹ کو نشانہ بنا سکتا ہے، جس میں کئی عالمی رہنماؤں کی شرکت متوقع ہے۔ علاقائی صدر مقام اُرمچی میں 2009ء میں ہونے والے نسلی ہنگاموں کے بعد سے سنکیانگ خونریز پُر تشدد واقعات کا مرکز بنا ہوا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
چین میں نسلی اقلیت
ایک خاتون صحرائے تکلامکان میں امام عاصم کے مقبرے کے قریب ایک قبر پر دعا مانگ رہی ہے۔ ایغور ترک زبان بولنے والی اقلیت ہے، جس کے زیادہ تر ارکان سنی مسلمان ہیں۔ ایغوروں کا شمار چین میں سرکاری طور پر تسلیم شُدہ پچپن اقلیتوں میں ہوتا ہے۔ اگرچہ ایغور مجموعی طور پر ایک قدرے معتدل اسلام پر عمل پیرا ہیں لیکن کچھ ایغور جا کر مشرقِ وُسطیٰ میں مسلمان ملیشیاؤں میں شامل ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
کمیونسٹ پارٹی کا دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنے کا عزم
چینی میڈیا کے مطابق کسی دہشت گردانہ حملے کا خطرہ بہت زیادہ ہے اور اسی لیے کمیونسٹ پارٹی نے بھی مسلمان انتہا پسندوں کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ مثلاً چینی حکام نے مسلمان کمیونٹی کے رسم و رواج پر کئی طرح کی پابندیاں لگا دی ہیں۔ ریاستی پراپیگنڈے کو ’رَد کرنا‘ غیر قانونی قرار دیا گیا حالانکہ یہ واضح نہیں ہو سکا کہ حکام اس ضابطے کو نافذ کیسے کریں گے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب
بہت سے مقامی باشندوں کے خیال میں انسدادِ دہشت گردی کی مشقیں ایک ظالمانہ سکیورٹی آپریشن کا حصہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ چند مہینوں سے سنکیانگ کے ایغور علاقوں میں یہ آپریشن تیز تر کر دیا گیا ہے اور اس کا مقصد سکیورٹی سے زیادہ بڑے پیمانے پر نگرانی کرنا ہے۔ کاشغر میں ایک دکاندار نے بتایا:’’ہماری کوئی نجی زندگی نہیں رہ گئی۔ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ آپ کیا کرنے والے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/T. Peter
مسلمانوں کی مخصوص روایات پر پابندی
مردوں پر لگائی گئی سب سے نمایاں پابندی یہ ہے کہ وہ اپنی ’داڑھیاں غیر معمولی طور پر نہ بڑھائیں‘۔ خواتین پر نقاب پہننے کی پابندی عائد کی گئی ہے۔ خاص طور پر ریلوے اسٹیشنوں اور ہوائی اڈوں جیسے عوامی مقامات میں برقعہ کرنے والی خواتین کا داخلہ ممنوع قرار دیا گیا ہے اور فوراً پولیس کو مطلع کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
سکیورٹی عملے کے چوکس ارکان
حکام نے ایسے لوگوں کے لیے انعام کا اعلان کر رکھا ہے، جو لمبی داڑھیوں والے نوجوانوں یا ایسی مذہبی روایات کی پاسداری کی اطلاع دیں گے، جس میں انتہا پسندی کا پہلو نکل سکتا ہو۔ اس طرح مخبری کا ایک باقاعدہ نظام تشکیل دیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کے علمبردار گروپ ایسے احکامات کو ہدفِ تنقید بنا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
معیشت یا سلامتی؟
حکومت سنکیانگ میں جبر کی پالیسیاں اختیار کرنے کے الزامات کو مسترد کرتی ہے اور اُن بھاری رقوم کا ذکر کرتی ہے، جو معدنی وسائل سے مالا مال اس خطّے کی اقتصادی ترقی کے لیے خرچ کی جا رہی ہیں۔ چین کی نسلی پالیسیوں کے ایک ماہر جیمز لائی بولڈ کے مطابق سنکیانگ میں سکیورٹی کے اقدامات لوگوں اور خیالات کے بہاؤ کو روکیں گے اور یوں ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ پروگرام کے خلاف جاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
9 تصاویر1 | 9
چین کا طویل مدتی منصوبہ
آدریان نے روئٹر سے بات چیت کرتے ہوئے کہا”اس (تحقیق اور تجزیہ) سے ایغور آبادی کے متعلق چینی حکومت کے مقصد اور طویل مدتی منصوبے کا پتہ چلتا ہے۔"
اشتہار
گوکہ چین کی حکومت نے ایغور اور دیگرنسلی اقلیتوں کی آبادی کے تناسب کو کم کرنے کے حوالے سے کسی سرکاری ہدف یا منصوبے کو عام نہیں کیا ہے لیکن آبادی کے متعلق سرکاری اعداد و شمار، آبادی کے تناسب وغیرہ کے متعلق چینی ماہرین، دانشوروں اور عہدیداروں کے تجزیوں کی بنیاد پر جرمن محقق آدریان نے اندازہ لگا یا ہے کہ حکومتی پالیسی کی وجہ سے سنکیانگ میں اکثریتی ہان نسل کی موجودہ آبادی 8.4 فیصد سے بڑھ کر 25 فیصد ہو سکتی ہے۔
آدریان کہتے ہیں ”یہ اسی وقت ممکن ہے جب وہ ایسا کرتے رہیں جیسا کہ وہ اب تک کرتے آرہے ہیں یعنی ایغورمسلمانوں کی شرح پیدائش میں زبردست کمی کی جائے۔"
چین کی ہوئی یا خُوذُو مسلم اقلیت
چین میں ایغور مسلم کمیونٹی کے علاوہ شمال مغربی چین میں خُوذُو مسلم اقلیت بھی آباد ہے۔ ان کی آبادی ایک کروڑ سے زائد ہے۔ یہ زیادہ تر ننگ شا، گانسُو اور چنگ ہائی علاقوں میں آباد ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
خوذو مسلمانوں کا شہر لِنشیا، چھوٹا مکہ
ہُوئی یا خُوذُو مسلمان اکثریتی شہر لِنشیا کو ’چھوٹا مکہ‘ کے نام سے چین میں شہرت حاصل ہے۔ اس شہر میں چھوٹی بڑی 80 مساجد واقع ہے۔ یہ شہر دریائے ڈاشیا کے کنارے پر آباد ہے۔ ایغور مسلم دانشور خُوذُو مسلم کمیونٹی کو چین کی ہان نسل کے مسلمان قرار دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
لِنشیا میں عورتیں سر پر سکارف پہنتی ہیں
خوذو مسلم خواتین خاصی متحرک اور فعال تصور کی جاتی ہیں۔ بڑی عمر کی عورتوں میں سفید اسکارف پہننا عام طور پر دیکھا گیا ہے۔ ان کا اسکارف چینی انداز کا ہوتا ہے۔ اب کئی نوجوان لڑکیوں میں ایسے جدید پہناوے پسند کیے جاتے ہیں، جن سے برہنگی ظاہر نہ ہو۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
لِنشیا: سبز گنبدوں والا شہر
گانسو صوبے کا شہر لِنشیا ڈھائی لاکھ سے زائد آبادی کا شہر ہے۔ اس کی اکثریتی آبادی چینی زبان بولنے والے خُوذُو مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ اس شہر کی مساجد ہر جمعے کے دن نمازیوں سے بھری ہوتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
نوجوان لڑکیوں کے لیے قرآنی تعلیم کا سلسلہ
خُوذُو مسلمان کمیونٹی اپنی مساجد میں خاص طور پر مذہبی کتاب قرآن کی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان مساجد میں نوعمر لڑکیوں کو بھی قرآن پڑھایا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Wong
خوذو مسلمان
چین میں دس بڑے نسلی گروپوں میں خوذو یا ہوئی مسلمان بھی شمار ہوتے ہیں۔ یہ زیادہ تر چین کے اقتصادی طور پر کمزو علاقے میں آباد ہیں۔ اس علاقے میں تعلیم بھی اتنی عام نہیں جتنی بقیہ چینی شہروں میں ہے۔ یہ ایغور نسل کے مسلمان نہیں تصور کیے جاتے۔ تصویر میں ایک قصبےوُوہژونگ کی مسجد میں شام کی نماز ادا کی جا رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Weiken
خواتین میں دینی شعار کا شوق
نوجوان لڑکیاں مختلف رنگوں کے اسکارف پہنتی ہیں۔ مساجد میں پہنچ پر قرآن کی تلاوت کرنا بھی خُوذُو یا ہُوئی خواتین کو پسند ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Reynolds
چینی صدر کا خُوذُو مسلمانوں کی مسجد کا دورہ
چین کے صدر شی جن پنگ نے سن 2016 میں نِنگ شا کے علاقے یِن چوان کی ایک مسجد کا دورہ کیا تھا۔ مسجد میں پہنچ کر انہوں نے مقامی ہُوئی مسلمانوں سے ملاقات کے ساتھ ساتھ اُن کے عمومی مسائل پر گفتگو کی۔ چینی صدر تین دن تک نِنگ شا میں مقیم رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA Press/J. Peng
نِنگ شا کا نیم خود مختار علاقہ
چین کے شمال مغرب میں واقع ننگ شا کے نیم خود مختار علاقے کا فضائی منظر۔ یہ علاقہ پہاڑوں میں گھِرا ہوا ہے اور چین کے پسماندہ علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس علاقے کی زمینیں بنجر ہیں اور قحط سالی بھی چلتی رہتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شرح بیروزگاری بھی معمول سے زیادہ رہی ہے۔ حالیہ کچھ عرصے میں بیجنگ حکومت نے اس علاقے پر توجہ مرکوز کی ہے اور اب واضح معاشی تبدیلیاں ظاہر ہونا شروع ہو گئی ہیں۔
تصویر: picture alliance/Xinhua News Agency
8 تصاویر1 | 8
چین کی تردید
چین کا کہنا ہے کہ نسلی اقلیتوں کی شرح پیدائش میں گراوٹ کی وجہ خطے میں موجودہ پیدائش کوٹا کا مکمل نفاذ اور دیگر ترقیاتی اقدامات ہیں جن میں فی کس آمدنی میں اضافہ اور خاندانی منصوبہ بندی کی خدمات تک بڑے پیمانے پر لوگوں کی رسائی وغیرہ شامل ہیں۔
چین کی وزارت خارجہ نے روئٹر کو بھیجے گئے ایک جواب میں کہا”سنکیانگ میں 'نسل کشی‘ کی بات یکسر بکواس ہے۔ یہ امریکا اور مغربی ملکوں میں چین مخالف طاقتوں کے دیرینہ مقاصد کا اظہار اور 'سائنوفوبیا‘ کا شکار لوگوں کے پروپیگنڈے کا مظہر ہے۔"
چینی وزارت خارجہ نے آدریان کی رپورٹ کی ”گمراہ کن" قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ سن 2017 سے سن 2019 کے درمیان سنکیانگ میں شرح پیدائش کی کمی حقیقی صورت حال کی عکاسی نہیں کرتے ہیں اور ایغور اقلیتوں میں شرح پیدائش اکثریتی ہان آبادی سے اب بھی زیادہ ہے۔
ج ا/ ص ز (روئٹرز)
چین: ایغور مسلمان بچوں کی شرح پیدائش کم کرنے کی جبری کوشش