1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین میں آزاد تجارتی زون کا اعلان

مارکوس ریملے/ کشور مصطفیٰ27 ستمبر 2013

چین نے آخر کار اپنے پہلے فری ٹریڈ زون یا پہلے آزاد تجارتی زون کے منصوبے کا باقاعدہ علان کر دیا ہے۔ آج جمعے کو شنگھائی میں بیجنگ کی نئی حکومت کے اس پلان کو منظر عام پر لایا گیا ہے۔

تصویر: Getty Images/Afp/Adam Berry

اس سے نئی قیادت کی اُن کوششوں کا اظہار ہو رہا ہے جس کے تحت دنیا کی دوسری بڑی اقتصادی قوت ’چین‘ کی معیشت میں تبدیلی لانے پر زور دیا جا رہا ہے۔

ایک طویل عرصے کے انتظار کے بعد چین کی اسٹیٹ کونسل یا کابینہ کی طرف سے ایک معیشی اصلاحاتی منصوبے کا اعلان کیا گیا ہے۔ جس کے تحت بیجنگ حکومت غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے قوانین میں نرمی لانا چاہتی ہے۔ نیز آزاد تجارتی زون میں سرمائے کی سرحد پار آمد و رفت کو بھی سہل بنانےکا فیصلہ کیا گیا ہے۔ چین کے ’شنگھائی آزاد تجارتی زون‘ کا سرکاری طور پر اتوار کے روز افتتاح ہو گا۔

ایک 35 سالہ چینی باشندہ اپنی حکومت کے نئے فیصلے کے بارے میں خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے،" فری ٹریڈ زون ایک اچھی چیز ہے۔ یہ مواقع اور ترقی کی نشاندہی ہے۔ اس طرح ہم سستے داموں خریداری کر سکیں گے" ۔

چینی اسٹاک ایکسچینج مارکیٹتصویر: picture-alliance/dpa

چینی عوام آزاد تجارتی زون سے جو بھی توقعات وابستہ رکھے تاہم فری ٹریڈ زون کا مقصد چین کو ایک ٹیکس فری خریداری کا ملک بنانا نہیں ہے۔ اس ضمن میں بیجنگ حکومت نے اب تک کوئی واضح تفصیلات پیش نہیں کی ہیں۔ محض اکا دُکا بنیادی عوامل منظر عام پر لائے گئے ہیں۔ اس فری زون میں چار زمینی حصوں کی بات کی گئی ہے جن کا ایک دوسرے سے کوئی ربط نہیں بنتا۔ یہ زون 29 مربع کلو میٹر پر مشتمل ہے۔ ایک حصہ ملک کے مشرق میں واقع قصبہ پوڈونگ ہے، جو شہر کے مرکز سے کوئی ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر قائم ہے۔ اس کے علاوہ ایک بندرگاہ اور ایک بین الاقوامی ہوائی اڈہ بھی اس زون کا حصہ ہیں۔ اب تک کی اطلاعات کے مطابق اس زون میں کوئی رہائشی علاقہ شامل نہیں ہے۔ ایک اور علاقہ اس زون کا حصہ ہے جہاں بڑے بڑے گودام اور متعدد دفاتر کی عمارتیں کھڑی ہیں۔

شمسی توانائی کی تکینیک پر عائد ٹیکس چین کے اندر بھی متنازعہ ہےتصویر: picture-alliance/dpa

چین کے لیے یہ فری ٹریڈ زون ایک تجربہ گاہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ حکومت کی کوشش ہے کہ اس کی مدد سے چینی اقتصادیات کو تیزی سے ترقی دی جا سکے۔ اس کے علاوہ اس منصوبے کے بارے میں صرف اور صرف قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں۔ محصولات پر پابندی اور بیوروکریسی اس زون میں بڑی رکاوٹوں کا سبب بن سکتی ہے۔ شنگھائی کے ایک ماہر اقتصادیات خو ہائینگ اس بارے میں کہتے ہیں،"چین کا زیادہ تر سرمایہ سرکاری کمپنیوں کے کنٹرول میں ہوگا۔ صدر شی جن پنگ اتنے کم عقل نہیں ہیں کہ کرنسی پر کنٹرول کو ایک دم سے ختم کر دیں اور اس طرح بدعنوان سرکاری ملازمین کو اپنا سرمایہ غیر ملکوں میں منتقل کرنے کا موقع مل جائے۔ کسی بھی ملک کا سربراہ اتنے بڑے خطرات نہیں مول لے گا" ۔

دریں اثناء چین کے چند اخباروں میں چھپنے والی رپورٹوں سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ غالباً فری ٹریڈ زون کے کچھ علاقوں میں انٹرنیٹ پر لگی پابندی ختم کر دی جائے گی اور فیس بُک اور ٹوئٹر تک رسائی ممکن ہو جائے گی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں