1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین میں اقتصادی اصلاحات کے تیس سال مکمل

ندیم گل18 دسمبر 2008

چین میں آج جمعرات کے روز اقتصادی اصلاحات کی 30 ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے۔ اس موقع پرصدر Hu Jintao نے گزشتہ تین دہائیوں سے جاری اصلاحات کے عمل کو مثبت قرار دیا ہے۔

چین میں کمیونسٹ پارٹی کو مارکسسٹ معیشت تبدیل کرنے میں اتنا ہی عرصہ لگا جتنا اس کے نفاذ میںتصویر: AP

انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ اس عرصے میں غربت میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے اور عوام کو معاشی آزادیاں بھی ملیں۔ چین میں کمیونسٹ پارٹی کو مارکسسٹ معیشت تبدیل کرنے میں اتنا ہی عرصہ لگا جتنا اس کے نفاذ میں اور آج وہاں اقتصادی اصلاحات کے 30 برس مکمل ہو گئے ہیں جسے ملکی تاریخ میں ایک اور سنگ میل قرار دیا جارہا ہے۔

صدرHu Jintao نے اپنے خصوصی خطاب میں کہا کہ اقتصادی اصلاحات متعارف کرائے جانے کے بعد سے ملک میں خاصی ترقی ہوئی ہےتصویر: AP

یہی وجہ ہے کہ آج بیجنگ کے گریٹ ہال آف دی پیپل میں ایک خصوصی تقریب کا اہتمام کیا گیا جہاں ملک کے اعلیٰ حکام کی کثیر تعداد جمع تھی۔ اس موقع پر صدرHu Jintao نے اپنے خصوصی خطاب میں کہا کہ اقتصادی اصلاحات متعارف کرائے جانے کے بعد سے ملک میں خاصی ترقی ہوئی ہے لیکن عالمی مالیاتی بحران کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورت حال کے تناظر میں چین کو معیشی ترقی اور سماجی استحکام پر مزید توجہ دینی ہوگی۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ مالیاتی بحران سے نمٹنے کے لئے کی جانی والی حکومتی کوششیں کامیاب ہو رہی ہیں۔

تاہم چینی صدر نے یہ بھی کہا:" ملک میں سیاسی اصلاحات متعارف نہیں کرائی جائیں گی اور مغربی انداز کی جمہوریت کا نفاذ نہیں ہوگا۔"

چین میں اقتصادی اصلاحات کے 30 برس مکمل ہو گئے ہیں جسے ملکی تاریخ میں ایک اور سنگ میل قرار دیا جارہا ہے۔تصویر: AP

چین میں مسلسل پانچ سال تک اقتصادی ترقی کی شرح تیز تر رہی جبکہ رواں سال کے دوران اس میں کمی ہوئی ہے۔ ماہرین آئندہ سال ترقی کی رفتار سست ہونے کا خدشہ بھی ظاہر کر رہے ہیںِ۔

چینی رہنما Deng Xiaoping نے 1978 میں اقتصادی اصلاحات متعارف کرائی تھیں جس کے بعد چین عالمی اقتصادی طاقت کے طور پر ابھرا۔ اس عرصہ میں چین نے امریکہ کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کئے اور ملک میں پہلی اسٹاک مارکیٹ کا قیام بھی عمل آیا۔

اقتصادی اصلاحات کا مقصد ملک کو فلاحی ریاست میں ڈھالنا تھا۔ یہ عمل آج بھی جاری ہے۔ حالانکہ گزشتہ تین دہائیوں میں اقتصادی ترقی کی رفتار انتہائی تیز رہی ہے جس کے نتیجے میں چین دُنیا کی چوتھی بڑی معیشت بن چکا ہے۔ تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت نے جدید فلاحی ریاست کے قیام پر کام میں تیزی نہیں دکھائی۔ یہی وجہ ہے کہ شہروں میں کام کرنے والے کروڑوں لوگ سوشلسٹ اور جدید فلاحی نظام کے بیچ پھنسے ہیں۔

سوشلسٹ نظام کے تحت سرکاری ادارے اپنے ملازمین کو مکمل تحفظ فراہم کرتے تھے۔ تاہم 1990 میں یہ سب اس وقت بدل گیا جب سرکاری کمپنیاں مالی بحران کا شکار ہوئیں اور شہروں میں رہنے والے بیشتر لوگ اپنی نوکریاں کھو بیٹھے۔ ان لوگوں کو اب پینشن یا پیشگی ریٹائرمنٹ اسکیم کے تحت مراعات دی جاتی ہیں۔

چینی حکومت نے غریبوں کے لئے بھی ایک الاؤنس مقرر کر رکھا ہے جس کے تحت ضرورت مندوں کو گزربسر کے لئے ضروری کم سے کم رقم دی جاتی ہے۔ تاہم بہت سے لوگوں کے لئے یہ حکومتی مدد ہتک آمیز ہے کیونکہ اس طرح ان کی شناخت انتہائی غریب افراد کے طور پر ہوتی ہے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں