انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر چین پر نئی امریکی پابندیاں
23 مئی 2020
امریکا نے کہا ہے کہ چین میں ایغور مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے باعث 33 چینی کمپنیوں اور حکومتی اداروں پر پابندیاں عائد کی جا رہی ہیں۔
اشتہار
یہ امریکی فیصلہ ایسے وقت سامنے آیا ہے جب چین نے ہانگ کانگ میں جمہوریت نواز تحریک ختم کرنے کے لیے نئے قوانین متعارف کرانے کا اعلان کیا ہے۔
جمعے کے روز امریکی ڈیپارٹمنٹ آف کامرس نے اعلان کیا ہے کہ سنکیانگ کے علاقے میں ایغور مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے حقوق پامال کرنے والی چین کی 33 کمپنیوں اور حکومتی اداروں پر پابندی عائد کی جا رہی ہے۔
امریکا کے مطابق چینی عوامی سکیورٹی کی وزارت کے 'انسٹی ٹیوٹ آف فارنزک سائنس‘ اور 'آکسو ہوافو ٹیکسٹائل‘ پر 'انسانی حقوق کی خلاف ورزی اور پامالی‘ میں ملوث ہونے کے باعث پابندی عائد کی جا رہی ہے۔ ان کے علاوہ چینی صوبے سنکیانگ میں حکومتی نگرانی میں معاونت کرنے والی دیگر سات کمپنیوں پر امریکا میں اپنا سامان برآمد کرنے پر پابندیاں لگائی گئی ہیں۔
امریکی وزارت کامرس کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا، ''یہ نو ادارے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں معاونت کرنے کے مرتکب ہوئے۔ چین نے سنیکانگ ایغور خودمختار علاقے میں بسنے والے ایغور اور دیگر مسلم اقلیتی گروہوں کے خلاف جبر، اجتماعی قید، جبری مشقت اور ہائی ٹیک نگرانی کی مہم شروع کر رکھی ہے، جس کے لیے یہ کمپنیاں اور ادارے مدد فراہم کر رہے ہیں۔‘‘
چین کی ہوئی یا خُوذُو مسلم اقلیت
چین میں ایغور مسلم کمیونٹی کے علاوہ شمال مغربی چین میں خُوذُو مسلم اقلیت بھی آباد ہے۔ ان کی آبادی ایک کروڑ سے زائد ہے۔ یہ زیادہ تر ننگ شا، گانسُو اور چنگ ہائی علاقوں میں آباد ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
خوذو مسلمانوں کا شہر لِنشیا، چھوٹا مکہ
ہُوئی یا خُوذُو مسلمان اکثریتی شہر لِنشیا کو ’چھوٹا مکہ‘ کے نام سے چین میں شہرت حاصل ہے۔ اس شہر میں چھوٹی بڑی 80 مساجد واقع ہے۔ یہ شہر دریائے ڈاشیا کے کنارے پر آباد ہے۔ ایغور مسلم دانشور خُوذُو مسلم کمیونٹی کو چین کی ہان نسل کے مسلمان قرار دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
لِنشیا میں عورتیں سر پر سکارف پہنتی ہیں
خوذو مسلم خواتین خاصی متحرک اور فعال تصور کی جاتی ہیں۔ بڑی عمر کی عورتوں میں سفید اسکارف پہننا عام طور پر دیکھا گیا ہے۔ ان کا اسکارف چینی انداز کا ہوتا ہے۔ اب کئی نوجوان لڑکیوں میں ایسے جدید پہناوے پسند کیے جاتے ہیں، جن سے برہنگی ظاہر نہ ہو۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
لِنشیا: سبز گنبدوں والا شہر
گانسو صوبے کا شہر لِنشیا ڈھائی لاکھ سے زائد آبادی کا شہر ہے۔ اس کی اکثریتی آبادی چینی زبان بولنے والے خُوذُو مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ اس شہر کی مساجد ہر جمعے کے دن نمازیوں سے بھری ہوتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
نوجوان لڑکیوں کے لیے قرآنی تعلیم کا سلسلہ
خُوذُو مسلمان کمیونٹی اپنی مساجد میں خاص طور پر مذہبی کتاب قرآن کی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان مساجد میں نوعمر لڑکیوں کو بھی قرآن پڑھایا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Wong
خوذو مسلمان
چین میں دس بڑے نسلی گروپوں میں خوذو یا ہوئی مسلمان بھی شمار ہوتے ہیں۔ یہ زیادہ تر چین کے اقتصادی طور پر کمزو علاقے میں آباد ہیں۔ اس علاقے میں تعلیم بھی اتنی عام نہیں جتنی بقیہ چینی شہروں میں ہے۔ یہ ایغور نسل کے مسلمان نہیں تصور کیے جاتے۔ تصویر میں ایک قصبےوُوہژونگ کی مسجد میں شام کی نماز ادا کی جا رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Weiken
خواتین میں دینی شعار کا شوق
نوجوان لڑکیاں مختلف رنگوں کے اسکارف پہنتی ہیں۔ مساجد میں پہنچ پر قرآن کی تلاوت کرنا بھی خُوذُو یا ہُوئی خواتین کو پسند ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Reynolds
چینی صدر کا خُوذُو مسلمانوں کی مسجد کا دورہ
چین کے صدر شی جن پنگ نے سن 2016 میں نِنگ شا کے علاقے یِن چوان کی ایک مسجد کا دورہ کیا تھا۔ مسجد میں پہنچ کر انہوں نے مقامی ہُوئی مسلمانوں سے ملاقات کے ساتھ ساتھ اُن کے عمومی مسائل پر گفتگو کی۔ چینی صدر تین دن تک نِنگ شا میں مقیم رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA Press/J. Peng
نِنگ شا کا نیم خود مختار علاقہ
چین کے شمال مغرب میں واقع ننگ شا کے نیم خود مختار علاقے کا فضائی منظر۔ یہ علاقہ پہاڑوں میں گھِرا ہوا ہے اور چین کے پسماندہ علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس علاقے کی زمینیں بنجر ہیں اور قحط سالی بھی چلتی رہتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شرح بیروزگاری بھی معمول سے زیادہ رہی ہے۔ حالیہ کچھ عرصے میں بیجنگ حکومت نے اس علاقے پر توجہ مرکوز کی ہے اور اب واضح معاشی تبدیلیاں ظاہر ہونا شروع ہو گئی ہیں۔
تصویر: picture alliance/Xinhua News Agency
8 تصاویر1 | 8
ان کے علاوہ قریب دو درجن دیگر کمپنیوں کو بھی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ ان میں سے زیادہ تر کمپنیاں چینی فوج کے لیے سامان فراہم کرتی ہیں۔
پابندیوں کی نئی فہرست میں خاص طور پر ایسی کمپنیوں کو شامل کیا گیا ہے جو مصنوعی ذہانت اور چہروں کی شناخت کی ٹیکنالوجی سے متعلق ہیں۔
ہانگ کانگ میں نئے سکیورٹی قوانین
امریکا کی جانب سے چین کے خلاف تازہ اقدامات ایسے وقت سامنے آئے ہیں جب چین نے اپنے خصوصی انتظامی اختیارات کے حامل علاقے ہانگ کانگ میں نیشنل سکیورٹی قوانین کے اطلاق کی جانب بڑھ رہا ہے۔
جمعے کے روز چینی نیشنل پیپلز کانگریس کے اجلاس کے پہلے دن چینی وزیر اعظم نے ہانگ کانگ میں نئے سکیورٹی قوانین متعارف کرانے کا منصوبہ پیش کیا تھا، جس پر ہانگ کانگ کے آزادی پسند رہنماؤں اور عوام میں غم و غصے کی واضح لہر نوٹ کی گئی تھی۔
مجوزہ قانون کے مطابق چین کے خصوصی انتظامی اختیارات کے حامل علاقے ہانگ کانگ میں ریاستی غداری، تخریبی و انقلابی سرگرمیوں اور بغاوت اور جلسے جلوسوں میں شرکت کے لیے اکسانے والوں پر پابندی عائد کر دی جائے گی۔
ایغوروں کے حق میں مظاہرہ، ہانگ کانگ پولیس کا طاقت کا استعمال
01:54
ہانگ کانگ کے بیجنگ نواز سیاستدانوں نے کہا ہے کہ چین کی طرف سے مجوزہ قومی سکیورٹی قانون سازی کی وجہ سے ہانگ کانگ میں بزنس سیکٹر کو ترقی ملے گی۔
تاہم امریکا سمیت کئی ممالک اس مجوزہ قانون کی شدید مذمت کر رہے ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے تو اس منصوبے کو ’تباہ کن‘ قرار دے دیا۔
برطانیہ، آسٹریلیا اور کینیڈا کے وزرائے خارجہ نے بھی ایک مشترکہ بیان جاری کرتے ہوئے چین کے اس مجوزہ قانون ’شدید تحفظات‘ کا اظہار کیا ہے۔