1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین میں انٹرنیٹ کی بندش اور وی پی این کا استعمال

7 مارچ 2021

تحریم عظیم بتا رہی ہیں چین میں انٹرنیٹ کی بندش کی وجہ سے کس انداز کے مسائل پیدا ہوتے ہیں اور کس طرح عام موبائل ایپلیکشن چلانے کے لیے بھی وی پی این استعمال کرنا پڑتا ہے۔

DW Urdu Blogerin Tehreem Azeem
تصویر: privat

میں آج سے چھ سال قبل چینی وقت کے مطابق رات ڈیڑھ بجے پی آئی اے کی ایک پرواز کے ذریعے بیجنگ پہنچی تھی۔ طیارے سے نکلتے ہی پہلا احساس ملک سے دوری کا ہوا۔ سوچا گھر والوں کو اپنے بخیریت پہنچنے کی اطلاع ہی دے دوں۔ پاکستانی سِم کارڈ تو نا کارہ ہو چکا تھا پر ائیرپورٹ کا وائی فائی تو استعمال کیا جا سکتا تھا۔ بہت کوشش کی پر وائی فائی کنیکٹ ہو کر نہ دیا۔ کسٹمر سروس والوں سے رابطہ کیا تو انہوں نے بتایا کہ میں اپنے فون نمبر کی مدد سے ان کے نیٹ ورک پر لاگ ان کر کے مفت انٹرنیٹ استعمال کر سکتی ہوں پر میرے پاس تو سم کارڈ بھی نہیں تھا۔ میں نے تھوڑی سی انگریزی بولی تو اس نے مجھے چپ کروانے کے لیے میرے فون پر اپنے نمبر کی مدد سے لاگ ان کر دیا۔

چینی ایپس پر پابندی کتنی مؤثر؟

انٹرویو: چینی ریاست کو اپنا ڈیٹا نہ کبھی دیا اور نہ دیں گے، ہواوے چیف

میرے فون پر انٹرنیٹ تو چل دیا پر گھنٹی کوئی نہ بجی۔ نہ فیس بک کا کوئی نوٹیفکیشن، نہ ٹویٹر کا اور نہ ہی کسی اور ایپ کا۔ بس واٹس ایپ پر دو چار پیغامات آئے ہوئے تھے، وہ دیکھے، گھر خیریت کا پیغام بھیجا اور بس۔ فیس بک ایپ کھولی تو چھ گھنٹے پہلے والی اپ ڈیٹ موجود تھی۔ ٹائم لائن ری فریش کی تو 'انٹرنیٹ کنیکشن ایرر' سامنے آ گیا۔ اس وقت احساس ہوا کہ میں واقعی چین پہنچ چکی ہوں۔ اس وقت میرے پاس ایک عام سے وی پی این کا مفت ورژن تھا۔ اسے کنیکٹ کرنے کی بہت کوشش کی، وہ کنیکٹ ہوتے ہی ڈس کنیکٹ ہو جاتا تھا۔

چینی حکومت ایک پروگرام ’گریٹ فائر وال آف چائنہ‘ کے تحت چین میں انٹرنیٹ کو کنٹرول کرتی ہے۔ میں جب چین آئی تب سکائپ اور واٹس ایپ بغیر وی پی این کے کام کرتے تھے، دو سال بعد وہ بھی بند کر دیے گئے۔ اب انہیں چلانے کے لیے بھی وی پی این کا استعمال کرنا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ تمام سوشل میڈیا نیٹ ورکس جیسے کہ فیس بک، ٹویٹر، انسٹاگرام، پنٹرسٹ بھی یہاں بلاک ہیں۔ گوگل اور اس سے منسلک دیگر پلیٹ فارم بھی وی پی این کے بغیر استعمال نہیں کیے جا سکتے۔

اچھی بات یہ ہے کہ چین نے ہر پلیٰٹ فارم بلاک کر کے اس کے مقابلے پر اپنا پلیٹ فارم بنایا ہوا ہے۔ یہاں فیس بک کی جگہ رین رین ہے، ٹویٹر کی جگہ ویبو، اور واٹس ایپ کی جگہ وی چیٹ۔ چین نے ڈیٹنگ ایپس بھی اپنی بنائی ہوئی ہیں جن میں مومو اور ٹن ٹن مشہور ترین ایپس ہیں۔ آن لائن خریداری کے لیے تائو بائو اور جے ڈی زیادہ تر استعمال ہوتی ہیں۔ ان ایپس پر سوئی سے لے کے گھر تک خریدے جا سکتے ہیں۔ کرونا کی عالمی وبا کے دوران ہم سب اپنی خریداری ان ایپس کے ذریعے ہی کرتے رہے۔

چین میں مغربی دنیا سے تعلق رکھنے والے کئی ایپلیکشن نہیں چلائے جا سکتےتصویر: Reuters/T. Wang

چین میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی ایپ وی چیٹ ہے۔ بنیادی طور پر تو یہ ٹیکسٹ اور کالنگ ایپ ہے لیکن اس میں بہت سے دیگر فنکشنز بھی ہیں۔ ایک آپشن مومنٹ کا ہے جہاں صارفین اپنی تصاویر، ویڈیوز یا سٹیٹس اپلوڈ کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ وی چیٹ کو اپنے بینک اکاؤنٹ کے ساتھ منسلک کر کے وی چیٹ پے سے بھی فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ چین میں کرنسی نوٹوں کا استعمال تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے اور اس کا سہرا وی چیٹ پے اور علی پے جیسی ایپس کو جاتا ہے۔ چین میں بڑے سے بڑے سوپر اسٹور سے لے کر چھوٹی سی چھوٹی دکان تک وی چیٹ پے اور علی پے کے ذریعے رقم وصول کی جاتی ہے۔

سڑک کنارے بیٹھے پھل فروش نے بھی ایک کونے میں اپنے وی چیٹ پے کا کیو آر کوڈ پرنٹ کر کے رکھا ہوتا ہے۔ خریدار اس کوڈ کو سکین کر کے رقم کی ادائیگی کر سکتے ہیں۔

چین میں رہتے ہوئے گھر والوں سے بغیر کسی رکاوٹ کے بات کرنا بھی ایک مسئلہ ہے۔ واٹس ایپ چلانے سے پہلے وی پی این چلانا پڑتا ہے اور اس کی وجہ سے کال کا معیار متاثر ہوتا ہے۔ زیادہ تر غیر ملکی اپنے گھر والوں کو بھی وی چیٹ پر رجسٹر کروا لیتے ہیں۔

وی چیٹ پر رجسٹریشن اتنی آسان نہیں جتنی کسی بھی دوسری ایپ پر ہوتی ہے۔ کسی بھی نئے صارف کی رجسٹریشن تب تک مکمل نہیں ہوتی جب تک وہ کسی دوسرے وی چیٹ صارف سے ویریفکیشن نہ کروا لے۔ جس اکاؤنٹ نے تصدیق کا عمل کرنا ہو اس کے لیے بھی وی چیٹ نے کچھ شرائط رکھی ہوئی ہیں۔ اول، وہ اکاؤنٹ کم از کم چھ ماہ سے استعمال ہو رہا ہو۔ دوم، اس پر وی چیٹ پے چل رہا ہو۔ سوم، اس اکاؤنٹ سے تیس دن میں کسی اور اکاؤنٹ کی رجسٹریشن نہ کی گئی ہو۔

چین میں کم از کم بڑے شہروں کی حد تک ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورکس یعنی وی پی این عام استعمال ہوتے ہیں۔ وی پی این کی مدد سے چین میں بلاک ہر ویب سائٹ یا ایپلیکیشن چلائی جا سکتی ہے۔ پاکستان میں زیادہ تر انٹرنیٹ صارفین مفت وی پی این استعمال کرتے ہیں جو محدود آپشنز فراہم کرتا ہے۔ چین میں ایسے وی پی این بمشکل کام کرتے ہیں۔ جن کا امریکی اور مغربی انٹرنیٹ پر زیادہ انحصار ہو انہیں کسی نہ کسی اچھے وی پی این کی سالانہ سبسکرپشن خریدنی ہی پڑتی ہے۔

چین میں کچھ عرصہ قیام کے بعد ملک واپس آنے پر سب سے پہلی خوشی بغیر کسی بندش کے انٹرنیٹ کے استعمال کی ہوتی ہے۔ فرض کریں، آپ کا جہاز لاہور ائیرپورٹ پر اترا ہے، مسافر اپنی سیٹ بیلٹ کھول رہے ہیں، آپ کے سم کارڈ نے سگنل پکڑ لیے ہیں، موبائل ڈیٹا چلنا شروع ہو گیا ہے اور ساتھ ہی ہر ایپ سے نوٹی فکیشن کی آوازیں آ رہی ہیں۔ آپ شاید اس خوشی کا اندازہ نہیں کر سکتے۔ یہ ہم جیسوں کی خوشی ہے جو انٹرنیٹ تک رسائی کے لیے روزانہ درجنوں پاپڑ بیلتے ہیں۔

 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں