چین میں اوباما کا طلبہ سے خطاب
16 نومبر 2009امریکی صدر باراک اوباما نے چینی طلبہ سے خطاب کرتے ہوئے آزادی اظہار اور انسانی حقوق کی وکالت کی۔ انہوں نےکہا کہ وہ انٹرنیٹ پر لگائی جانے والی سنسرشپ کے شدید مخالف ہیں۔ شنگھائی میں اوباما نے کہا معلومات تک رسائی میں جس قدر آزادی ہوگی، اتنا ہی زیادہ ایک دوسرے سے رابطہ آسان ہو گا۔ اوباما نے کہا کہ امریکہ کسی پر بھی کوئی نظام حکومت مسلط کرنے کی خواہش نہیں رکھتا اور نہ ہی ان کا یہ خیال ہے کہ جن اصولوں پر وہ قائم ہیں وہ صرف امریکی قوم کے لئے ہی ہیں۔ آزادی اظہار، مذہبی آزادی، معلومات تک رسائی اور سیاسی اجتماعات میں شرکت ہر شخص کا بنیادی حق ہے۔ جس پر امریکہ کاربند ہے۔
اوباما نے مزید کہا کہ یہ حقوق نسلی اور مذہبی اقلیتوں سمیت ہر کسی کو میسر ہونا چاہیئں، خواہ وہ امریکہ ہو، چین یا کوئی اور ملک۔ اوباما نے اپنے خطاب میں تنقیدی انداز نہیں اپنایا۔ اس کی ایک مثال یہ کہ تبت کے موضوع پر انہوں نے براہ راست بات نہیں کی۔ اوباما کی توجہ تجارتی تعلقات اور کرنسی سے متعلق پالیسیوں پر زیادہ مرکوز رہی۔ انہوں نے کہا امریکہ چاہتا ہے کہ چین اقتصادی اعتبار سے مظبوط ہو۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات تیزی سے مستحکم ہو رہے ہیں اور باہمی تجارت کا حجم 400 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔
باراک اوباما کے بقول 1979 ء میں امریکہ اور چین کے مابین تقریباً پانچ ارب ڈالر کی تجارت ہوا کرتی تھی۔ آج یہ حجم 400 ارب سے تجاوز کر گیا ہے۔ باہمی تجارت دونوں ممالک کے عوام پر کئی طرح سے اثر انداز ہو رہی ہے۔ امریکہ چین سے کمپیوٹر کے پرزہ جات درآمد کرتا ہے اور لباس بھی چین سے آتا ہے۔ دوسری جانب امریکہ چین کو مشینری فراہم کرتا ہے اور ان کی صنعت کر مزید مظبوط کر رہی ہے۔
امریکی صدر کے مطابق یہ تجارت بحرالکاہل کے دونوں اطراف ملازمتوں کے مزید مواقع پیدا کرسکتی ہے، جن سے لوگوں کا معیار زندگی بہتر ہوگا۔ اوباما نے کہا کہ چینی طلبہ کے لئے امریکی ویزوں کے اجراء میں آسانیاں پیدا کی جائیں گی۔ امریکی صدر کے دورہ چین کی سب سے اہم بات کل منگل کے روز چینی صدر ہو جن تاؤ سے ملاقات ہے۔ اس ملاقات میں جہاں کرنسی سے متعلق سیاست اور تجارت جیسے موضوعات زیر بحث آئیں گے، وہیں شمالی کوریا اور ایران کے جوہری پروگرام پربھی بات ہو گی۔
رپورٹ :عدنان اسحاق
ادارت: مقبول ملک