چین میں ايغور مسلم آبادی کے قبرستانوں کی مسماری جاری
9 اکتوبر 2019
چین کے افراتفری کے شکار صوبے سنکیانگ میں ایغور آبادی کو کئی پہلوؤں سے حکومتی کریک ڈاؤن کا سامنا ہے۔ سنکیانگ کی ایغور آبادی مسلمان ہے اور اس صوبے میں علیحدگی پسندی کی تحریک بھی جاری ہے۔
اشتہار
کئی سرگرم ایغور کارکنوں کے مطابق چینی حکومت نے اب اس مسلم آبادی کے قبرستانوں کو مسمار کرنے کا سلسلہ بھی شروع کر دیا ہے۔ قبروں کے انہدام کے بعد وہاں دفن کیے گئے مردوں کی ہڈیاں بھی دکھائی دیتی ہیں۔ کئی اہم شخصیات کے مزارات بھی گرا دیے گئے ہیں۔ ایغور آبادی کے مطابق چینی حکومت اُن کی ثقافت کو مٹانے کے ساتھ ساتھ ان کے آباء کی نشانیوں کو ملیامیٹ کرنے کی بھی کوشش میں ہے۔
نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق کئی قبروں کو انتہائی لاپرواہی کے ساتھ ختم کیا گیا ہے۔ اس نیوز ایجنسی کے نمائندے نے تین مختلف مقامات پر منہدم کی گئی قبروں سے باہر پڑی ہوئی انسانی ہڈیاں دیکھی ہیں۔ کئی مزارات کو گرا دیا گیا اور وہاں منقش عمارات کی جگہ اب ملبے کے ڈھیر ہیں۔
مقامی حکومتی انتظامیہ کا موقف ہے کہ شہروں کے پھیلاؤ کے باعث انتہائی قدیمی قبروں کو ختم کیا گیا ہے۔ ایغور آبادی اس حکومتی موقف سے اتفاق نہیں کرتی بلکہ اسے ایغور نسل کے خلاف برسوں سے جاری حکومتی کریک ڈاؤن کا تسلسل قرار دیتی ہے۔
ایک ایغور کارکن صالح ہدیٰ یار کا کہنا ہے کہ یہ چینی حکومت کی ایک نئی مذموم کوشش ہے کہ ایغور آبادی کی اساس کو ہی ختم کر دیا جائے تا کہ یہ نسل اپنی ماضی سے جڑی پہچان سے محروم ہو جائے اور ایغور قوم بھی چینی نسل ہان کی آبادی جیسی ہو کر رہ جائے۔ ہدیٰ یار کے خاندان کے مرحومین کی قبروں کو بھی مسمار کر دیا گیا ہے۔
صالح ہدیٰ یار کا مزید کہنا ہے کہ چینی حکومت ایغور نسل کی تاریخی باقیات کو بھی مٹا دینا چاہتی ہے تا کہ اس قوم کے لوگوں کا ماضی، تاریخ، اور گزشتہ نسلوں سے ربط پوری طرح مٹ جائے۔ ہدیٰ یار کے مطابق ایسے اقدامات سے ایغور آبادی کو رنج تو پہنچایا جا سکتا ہے لیکن اس کے وقار، پہچان اور شناخت میں کوئی کمی نہیں کی جا سکتی۔
اندازوں کے مطابق اس وقت دس لاکھ کے لگ بھگ ایغور باشندے ایک طرح کے حراستی مراکز جیسے کیمپوں میں بند ہیں اور وہاں ان کی 'تربیت‘ کے نام پر ذہنی تطہیر کا عمل جاری ہے۔ چینی حکومت ان 'حراستی مراکز‘ کو 'تربیتی سینٹر‘ قرار دیتی ہے اور یہ بھی کہتی ہے کہ ان مراکز میں ایغور باشندوں کو انتہا پسندی سے محفوظ رکھنے کے خصوصی تربیتی پروگرام بھی جاری ہیں۔
چینی حکومت سنکیانگ میں پائی جانے والی انتشار کی صورت حال پر بین الاقوامی تنقید کو خاطر میں نہیں لا رہی اور ایغور آبادی کے ساتھ روا سلوک کو درست قرار دیتی ہے۔ ابھی رواں ہفتے کے دوران ہی سنکیانگ کی ایغور آبادی پر بیجنگ کے کریک ڈاؤن کے تناظر میں امریکا نے چین کے خلاف نئی پابندیوں کا اعلان بھی کیا تھا اور کم از کم اٹھائیس سرکاری اداروں اور کاروباری کمپنیوں کو بلیک لسٹ بھی کر دیا تھا۔
ع ح ⁄ م م (اے ایف پی)
چین کی ہوئی یا خُوذُو مسلم اقلیت
چین میں ایغور مسلم کمیونٹی کے علاوہ شمال مغربی چین میں خُوذُو مسلم اقلیت بھی آباد ہے۔ ان کی آبادی ایک کروڑ سے زائد ہے۔ یہ زیادہ تر ننگ شا، گانسُو اور چنگ ہائی علاقوں میں آباد ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
خوذو مسلمانوں کا شہر لِنشیا، چھوٹا مکہ
ہُوئی یا خُوذُو مسلمان اکثریتی شہر لِنشیا کو ’چھوٹا مکہ‘ کے نام سے چین میں شہرت حاصل ہے۔ اس شہر میں چھوٹی بڑی 80 مساجد واقع ہے۔ یہ شہر دریائے ڈاشیا کے کنارے پر آباد ہے۔ ایغور مسلم دانشور خُوذُو مسلم کمیونٹی کو چین کی ہان نسل کے مسلمان قرار دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
لِنشیا میں عورتیں سر پر سکارف پہنتی ہیں
خوذو مسلم خواتین خاصی متحرک اور فعال تصور کی جاتی ہیں۔ بڑی عمر کی عورتوں میں سفید اسکارف پہننا عام طور پر دیکھا گیا ہے۔ ان کا اسکارف چینی انداز کا ہوتا ہے۔ اب کئی نوجوان لڑکیوں میں ایسے جدید پہناوے پسند کیے جاتے ہیں، جن سے برہنگی ظاہر نہ ہو۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
لِنشیا: سبز گنبدوں والا شہر
گانسو صوبے کا شہر لِنشیا ڈھائی لاکھ سے زائد آبادی کا شہر ہے۔ اس کی اکثریتی آبادی چینی زبان بولنے والے خُوذُو مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ اس شہر کی مساجد ہر جمعے کے دن نمازیوں سے بھری ہوتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
نوجوان لڑکیوں کے لیے قرآنی تعلیم کا سلسلہ
خُوذُو مسلمان کمیونٹی اپنی مساجد میں خاص طور پر مذہبی کتاب قرآن کی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان مساجد میں نوعمر لڑکیوں کو بھی قرآن پڑھایا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Wong
خوذو مسلمان
چین میں دس بڑے نسلی گروپوں میں خوذو یا ہوئی مسلمان بھی شمار ہوتے ہیں۔ یہ زیادہ تر چین کے اقتصادی طور پر کمزو علاقے میں آباد ہیں۔ اس علاقے میں تعلیم بھی اتنی عام نہیں جتنی بقیہ چینی شہروں میں ہے۔ یہ ایغور نسل کے مسلمان نہیں تصور کیے جاتے۔ تصویر میں ایک قصبےوُوہژونگ کی مسجد میں شام کی نماز ادا کی جا رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Weiken
خواتین میں دینی شعار کا شوق
نوجوان لڑکیاں مختلف رنگوں کے اسکارف پہنتی ہیں۔ مساجد میں پہنچ پر قرآن کی تلاوت کرنا بھی خُوذُو یا ہُوئی خواتین کو پسند ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Reynolds
چینی صدر کا خُوذُو مسلمانوں کی مسجد کا دورہ
چین کے صدر شی جن پنگ نے سن 2016 میں نِنگ شا کے علاقے یِن چوان کی ایک مسجد کا دورہ کیا تھا۔ مسجد میں پہنچ کر انہوں نے مقامی ہُوئی مسلمانوں سے ملاقات کے ساتھ ساتھ اُن کے عمومی مسائل پر گفتگو کی۔ چینی صدر تین دن تک نِنگ شا میں مقیم رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA Press/J. Peng
نِنگ شا کا نیم خود مختار علاقہ
چین کے شمال مغرب میں واقع ننگ شا کے نیم خود مختار علاقے کا فضائی منظر۔ یہ علاقہ پہاڑوں میں گھِرا ہوا ہے اور چین کے پسماندہ علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس علاقے کی زمینیں بنجر ہیں اور قحط سالی بھی چلتی رہتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شرح بیروزگاری بھی معمول سے زیادہ رہی ہے۔ حالیہ کچھ عرصے میں بیجنگ حکومت نے اس علاقے پر توجہ مرکوز کی ہے اور اب واضح معاشی تبدیلیاں ظاہر ہونا شروع ہو گئی ہیں۔