اقوام متحدہ کے مطابق چین میں دس لاکھ سے زائد ایغور باشندوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ صوبہ سنکیانگ ایک بہت بڑے’ کیمپ‘ میں بدل چکا ہے۔
اشتہار
اقوام متحدہ کے ان دعوؤں کو بیجنگ حکومت تاہم مسترد کرتی ہے۔ جمعے کو اقوام متحدہ کی نسل پرستی کے خاتمے کی کمیٹی کا ایک دو روزہ اجلاس شروع ہوا ہے، جس میں چین میں انسانی حقوق کی صورتحال پر بحث کی جا رہی ہے۔ اس اجلاس کے پہلے روز خاص طور پر ایغور نسل کو درپیش حالات پر تشویش کا اظہار کیا گیا۔
جنیوا میں اس کمیٹی کی خاتون نائب چیئرمین گے میکڈوگل نے بتایا کہ مستند رپورٹوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ چینی حکومت کے مذہبی شدت پسندی ختم کرنے کے طریقہ کار کی وجہ سے ایغوروں کے نیم خود مختار خطے میں بہت بڑی تبدیلی آ چکی ہے۔
ان کے بقول یہ اب ایک بہت بڑے کیمپ میں بدل چکا ہے اور اسے ایک ایسا علاقہ کہا جا سکتا ہے، جہاں کسی کو کوئی حق حاصل نہیں۔
انہوں نے یہ دعوی بھی کیا،’’تقریباً دو ملین ایغوروں کو سنکیانگ میں زبردستی سیاسی اور مذہبی کیمپوں میں بند کر دیا گیا ہے‘‘۔ ذرائع کے مطابق گزشتہ برس چین میں ہونے والی کل گرفتاریوں میں سے ستائیس فیصد اسی خطے سے کی گئی تھیں۔ چین میں ایغوروں اور دیگر مسلم برادریوں سے ایسا رویہ اختیار کیا جاتا ہے کہ جیسے وہ ملک دشمن ہوں۔
جنیوا میں موجود پچاس رکنی چینی وفد کی جانب سے میکڈوگل کے ان الزامات پر کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔ اس اجلاس سے قبل اقوام متحدہ میں چینی سفیر نے کہا تھا کہ ان کی حکومت ملک میں آباد مختلف نسلی گروہوں کے مابین مساوات اور ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
چین کی ہوئی یا خُوذُو مسلم اقلیت
چین میں ایغور مسلم کمیونٹی کے علاوہ شمال مغربی چین میں خُوذُو مسلم اقلیت بھی آباد ہے۔ ان کی آبادی ایک کروڑ سے زائد ہے۔ یہ زیادہ تر ننگ شا، گانسُو اور چنگ ہائی علاقوں میں آباد ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
خوذو مسلمانوں کا شہر لِنشیا، چھوٹا مکہ
ہُوئی یا خُوذُو مسلمان اکثریتی شہر لِنشیا کو ’چھوٹا مکہ‘ کے نام سے چین میں شہرت حاصل ہے۔ اس شہر میں چھوٹی بڑی 80 مساجد واقع ہے۔ یہ شہر دریائے ڈاشیا کے کنارے پر آباد ہے۔ ایغور مسلم دانشور خُوذُو مسلم کمیونٹی کو چین کی ہان نسل کے مسلمان قرار دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
لِنشیا میں عورتیں سر پر سکارف پہنتی ہیں
خوذو مسلم خواتین خاصی متحرک اور فعال تصور کی جاتی ہیں۔ بڑی عمر کی عورتوں میں سفید اسکارف پہننا عام طور پر دیکھا گیا ہے۔ ان کا اسکارف چینی انداز کا ہوتا ہے۔ اب کئی نوجوان لڑکیوں میں ایسے جدید پہناوے پسند کیے جاتے ہیں، جن سے برہنگی ظاہر نہ ہو۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
لِنشیا: سبز گنبدوں والا شہر
گانسو صوبے کا شہر لِنشیا ڈھائی لاکھ سے زائد آبادی کا شہر ہے۔ اس کی اکثریتی آبادی چینی زبان بولنے والے خُوذُو مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ اس شہر کی مساجد ہر جمعے کے دن نمازیوں سے بھری ہوتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
نوجوان لڑکیوں کے لیے قرآنی تعلیم کا سلسلہ
خُوذُو مسلمان کمیونٹی اپنی مساجد میں خاص طور پر مذہبی کتاب قرآن کی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان مساجد میں نوعمر لڑکیوں کو بھی قرآن پڑھایا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Wong
خوذو مسلمان
چین میں دس بڑے نسلی گروپوں میں خوذو یا ہوئی مسلمان بھی شمار ہوتے ہیں۔ یہ زیادہ تر چین کے اقتصادی طور پر کمزو علاقے میں آباد ہیں۔ اس علاقے میں تعلیم بھی اتنی عام نہیں جتنی بقیہ چینی شہروں میں ہے۔ یہ ایغور نسل کے مسلمان نہیں تصور کیے جاتے۔ تصویر میں ایک قصبےوُوہژونگ کی مسجد میں شام کی نماز ادا کی جا رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Weiken
خواتین میں دینی شعار کا شوق
نوجوان لڑکیاں مختلف رنگوں کے اسکارف پہنتی ہیں۔ مساجد میں پہنچ پر قرآن کی تلاوت کرنا بھی خُوذُو یا ہُوئی خواتین کو پسند ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Reynolds
چینی صدر کا خُوذُو مسلمانوں کی مسجد کا دورہ
چین کے صدر شی جن پنگ نے سن 2016 میں نِنگ شا کے علاقے یِن چوان کی ایک مسجد کا دورہ کیا تھا۔ مسجد میں پہنچ کر انہوں نے مقامی ہُوئی مسلمانوں سے ملاقات کے ساتھ ساتھ اُن کے عمومی مسائل پر گفتگو کی۔ چینی صدر تین دن تک نِنگ شا میں مقیم رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA Press/J. Peng
نِنگ شا کا نیم خود مختار علاقہ
چین کے شمال مغرب میں واقع ننگ شا کے نیم خود مختار علاقے کا فضائی منظر۔ یہ علاقہ پہاڑوں میں گھِرا ہوا ہے اور چین کے پسماندہ علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس علاقے کی زمینیں بنجر ہیں اور قحط سالی بھی چلتی رہتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شرح بیروزگاری بھی معمول سے زیادہ رہی ہے۔ حالیہ کچھ عرصے میں بیجنگ حکومت نے اس علاقے پر توجہ مرکوز کی ہے اور اب واضح معاشی تبدیلیاں ظاہر ہونا شروع ہو گئی ہیں۔
تصویر: picture alliance/Xinhua News Agency
8 تصاویر1 | 8
چین میں بیس ملین سے زائد مسلمان آباد ہیں، جن میں سب سے بڑی تعداد ہُوئی اور ایغوروں کی ہے۔ ایغوروں نے مغربی چین کے سنکیانگ کو اپنا مسکن بنایا ہوا ہے۔ گزشتہ برسوں کے دوران اس خطے میں بد امنی کے متعدد واقعات رونما ہوئے ہیں، جن میں 2009ء کی خونریزی نمایاں ہے۔
جولائی 2009ء میں ایغور مسلمانوں اور ہان نسل کے چینی باشندوں کے درمیان فسادات پھوٹ پڑے تھے۔ اسے خطے میں نسلی بنیادوں پر ہونے والی تاریخی ہنگامہ آرائی قرار دیا گیا اور اس دوران تقریبا 200 افراد ہلاک ہوئے تھے۔