چین میں ایغور نسل کے سابق مسلم حکومتی اہلکاروں کو سزائے موت
7 اپریل 2021
چین کے شمال مغربی صوبے سنکیانگ میں انصاف اور تعلیم کے محکموں کے ایغور نسل کے دو سابق سربراہان کو علیحدگی پسندانہ سرگرمیوں کے الزام میں سزائے موت سنا دی گئی ہے۔ انہیں سنائی گئی سزا پر دو سال تک عمل درآمد نہیں کیا جائے گا۔
اشتہار
چین پر الزام ہے کہ وہ اپنے صوبے سنکیانگ میں ایغور نسل کی مسلم اقلیت کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں کا مرتکب ہو رہا ہے لیکن بیجنگ حکومت ایسے الزامات کو مسترد کرتی ہے۔ سنکیانگ میں انصاف اور تعلیم کے محکموں کے ان دونوں سابق سربراہان کو سنائی جانے والی سزائے موت میں نرمی کا ایک پہلو بھی ہے، جسے چین میں قانونی زبان میں 'رحم دلی یا معافی‘ کہتے ہیں۔
نرمی کا پہلو یہ ہے کہ ان دونوں سابق اعلیٰ صوبائی عہدیداروں کو سنائی گئی سزائے موت پر عمل درآمد میں دو سال کی چھوٹ دے دی گئی ہے۔ کسی وقتی نرمی کے بغیر سنائی گئی سزائے موت پر عام طور پر جلد عمل درآمد کر دیا جاتا ہے، مگر نرمی یا وقتی رعایت کے ساتھ سنائی جانے والی سزائے موت بعد میں اکثر عمر قید میں بدل دی جاتی ہے۔
اشتہار
'دو چہروں والے سرکاری عہدیداروں کے خلاف مہم‘
چینی کے سرکاری خبر رساں ادارے شنہوا نے بدھ سات اپریل کے روز بتایا کہ ترکستانی نسل کے ان دونوں ایغور مسلم شہریوں کو یہ سزا 'علیحدگی پسندانہ سرگرمیوں‘ اور 'رشوت خوری‘ کے جرائم میں سنائی گئی ہے۔ سنکیانگ کے ان سابق اعلیٰ حکومتی عہدیداروں کے نام شیرزاد بہاؤالدین اور ستار سعود بتائے گئے ہیں۔ ان کے خلاف فیصلہ ایسے ایغور اقلیتی شہریوں کو 'قومی سلامتی کے لیے خطرات‘ کی بنیاد پر سنائی جانے والی سزاؤں کی تازہ ترین مثال ہے۔
بیجنگ حکومت ایسے شہریوں کے خلاف قانونی کارروائیوں کو اپنی 'دو چہروں والے سرکاری عہدیداروں کے خلاف مہم‘ کا نام دیتی ہے، کیونکہ ایسے حکام 'خطے (سنکیانگ) میں چینی حکمرانی کو نقصان پہنچانے کی کوششوں‘ کے مرتکب ہوتے ہیں۔
شیرزاد بہاؤالدین پر دہشت گرد گروہ سے ملی بھگت کا الزام
سنکیانگ کی علاقائی حکومت کی ویب سائٹ پر شائع کردہ تفصیلات کے مطابق صوبائی محکمہ انصاف کے سابق سربراہ شیرزاد بہاؤالدین کو سزائے موت اس لیے سنائی گئی کہ وہ 'ملک کو توڑنے کی کوشش‘ کے مرتکب ہوئے تھے۔ عدالتی فیصلے کے مطابق بہاؤالدین مشرقی ترکستان کی اسلامی تحریک یا ETIM نامی دہشت گرد گروپ کے ساتھ ملی بھگت کے مرتکب اس طرح ہوئے کہ انہوں نے 2003ء میں اس گروہ کے ایک سرکردہ رکن سے ملاقات کی تھی۔
اس کے علاوہ عدالت نے شیرزاد بہاؤالدین کو 'غیر ملکی طاقتوں کو معلومات کی غیر قانونی فراہمی‘ کا مجرم اور اپنی بیٹی کی شادی پر 'غیر قانونی مذہبی سرگرمیوں‘ کا مرتکب بھی قرار دیا۔
مشرقی ترکستان کی اسلامی تحریک نامی گروہ کو امریکا نے گزشتہ برس نومبر میں غیر ملکی دہشت گرد تنظیموں کی اپنی فہرست سے یہ کہہ کر خارج کر دیا تھا کہ ایسے کوئی قابل اعتبار شواہد موجود نہیں کہ ETIM کا وجود آج بھی باقی ہے۔
سنکیانگ میں صوبائی محکمہ تعلیم کے سابق سربراہ ستار سعود کو سنائی گئی سزائے موت اس 'الزام کے ثابت ہو جانے‘ کے باعث سنائی گئی کہ انہوں نے ایغور زبان میں شائع ہونے والی نصابی کتب میں 'نسلی اور لسانی علیحدگی پسندی، تشدد، دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی سے متعلق مواد‘ شامل کیا تھا۔
عدالت نے ان نصابی کتب کا تعلق سنکیانگ کے صوبائی دارالحکومت ارومچی میں 2009ء میں کیے گئے ان خونریز حملوں سے بھی جوڑا، جن میں کم از کم 200 افراد مارے گئے تھے۔
سنکیانگ کی صوبائی عدالت کے نائب سربراہ وانگ لانگ تاؤ کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے چینی نیوز ایجنسی شنہوا نے لکھا، ''ملزم ستار سعود نے ایغور زبان میں پرائمری اور ہائی اسکولوں کی نصابی کتب کی تیاری اور اشاعت سے متعلق اپنی ذمے داریوں کا غلط فائدہ اٹھاتے ہوئے ملک کو توڑنے کی کوشش کی۔ ان کوششوں کا آغاز 2002ء میں کیا گیا۔‘‘
عدالت کے مطابق، ’’ستار سعود نے دیگر حکام کو کئی ایسے افراد کے انتخاب کی ہدایت کی، جو علیحدگی پسندانہ نظریات کے حامل تھے اور جنہیں ستار سعود نے ان درسی کتابوں کی تیار کنندہ ٹیم میں شامل کرنے کا حکم دیا تھا۔‘‘
بیجنگ حکومت ان الزام کی مسلسل تردید کرتی ہے کہ وہ سنکیانگ میں ایغور اور دیگر مسلم نسلی اقلیتوں کی نسل کشی یا ان کے بنیادی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کی مرتکب ہو رہی ہے۔ چینی حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ محض ایسے اقدامات کر رہی ہے، جو 'پرتشدد انتہا پسندی کو روکنے‘ کے لیے ناگزیر ہیں۔
اس پس منظر میں چین کی طرف سے مختلف فیکٹریوں میں ایغور کارکنوں سے کرائی جانے والی جبری مشقت کے الزامات کی نفی بھی کی جاتی ہے اور بیجنگ ان امریکی پابندیوں کو بھی مسترد کرتا ہے، جو امریکا نے سنکیانگ میں 'جابرانہ اقدامات‘ کی وجہ سے مختلف چینی حکام پر لگا رکھی ہیں۔
چین میں ایغور مسلم کمیونٹی کے علاوہ شمال مغربی چین میں خُوذُو مسلم اقلیت بھی آباد ہے۔ ان کی آبادی ایک کروڑ سے زائد ہے۔ یہ زیادہ تر ننگ شا، گانسُو اور چنگ ہائی علاقوں میں آباد ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
خوذو مسلمانوں کا شہر لِنشیا، چھوٹا مکہ
ہُوئی یا خُوذُو مسلمان اکثریتی شہر لِنشیا کو ’چھوٹا مکہ‘ کے نام سے چین میں شہرت حاصل ہے۔ اس شہر میں چھوٹی بڑی 80 مساجد واقع ہے۔ یہ شہر دریائے ڈاشیا کے کنارے پر آباد ہے۔ ایغور مسلم دانشور خُوذُو مسلم کمیونٹی کو چین کی ہان نسل کے مسلمان قرار دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
لِنشیا میں عورتیں سر پر سکارف پہنتی ہیں
خوذو مسلم خواتین خاصی متحرک اور فعال تصور کی جاتی ہیں۔ بڑی عمر کی عورتوں میں سفید اسکارف پہننا عام طور پر دیکھا گیا ہے۔ ان کا اسکارف چینی انداز کا ہوتا ہے۔ اب کئی نوجوان لڑکیوں میں ایسے جدید پہناوے پسند کیے جاتے ہیں، جن سے برہنگی ظاہر نہ ہو۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
لِنشیا: سبز گنبدوں والا شہر
گانسو صوبے کا شہر لِنشیا ڈھائی لاکھ سے زائد آبادی کا شہر ہے۔ اس کی اکثریتی آبادی چینی زبان بولنے والے خُوذُو مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ اس شہر کی مساجد ہر جمعے کے دن نمازیوں سے بھری ہوتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
نوجوان لڑکیوں کے لیے قرآنی تعلیم کا سلسلہ
خُوذُو مسلمان کمیونٹی اپنی مساجد میں خاص طور پر مذہبی کتاب قرآن کی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان مساجد میں نوعمر لڑکیوں کو بھی قرآن پڑھایا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Wong
خوذو مسلمان
چین میں دس بڑے نسلی گروپوں میں خوذو یا ہوئی مسلمان بھی شمار ہوتے ہیں۔ یہ زیادہ تر چین کے اقتصادی طور پر کمزو علاقے میں آباد ہیں۔ اس علاقے میں تعلیم بھی اتنی عام نہیں جتنی بقیہ چینی شہروں میں ہے۔ یہ ایغور نسل کے مسلمان نہیں تصور کیے جاتے۔ تصویر میں ایک قصبےوُوہژونگ کی مسجد میں شام کی نماز ادا کی جا رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Weiken
خواتین میں دینی شعار کا شوق
نوجوان لڑکیاں مختلف رنگوں کے اسکارف پہنتی ہیں۔ مساجد میں پہنچ پر قرآن کی تلاوت کرنا بھی خُوذُو یا ہُوئی خواتین کو پسند ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Reynolds
چینی صدر کا خُوذُو مسلمانوں کی مسجد کا دورہ
چین کے صدر شی جن پنگ نے سن 2016 میں نِنگ شا کے علاقے یِن چوان کی ایک مسجد کا دورہ کیا تھا۔ مسجد میں پہنچ کر انہوں نے مقامی ہُوئی مسلمانوں سے ملاقات کے ساتھ ساتھ اُن کے عمومی مسائل پر گفتگو کی۔ چینی صدر تین دن تک نِنگ شا میں مقیم رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA Press/J. Peng
نِنگ شا کا نیم خود مختار علاقہ
چین کے شمال مغرب میں واقع ننگ شا کے نیم خود مختار علاقے کا فضائی منظر۔ یہ علاقہ پہاڑوں میں گھِرا ہوا ہے اور چین کے پسماندہ علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس علاقے کی زمینیں بنجر ہیں اور قحط سالی بھی چلتی رہتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شرح بیروزگاری بھی معمول سے زیادہ رہی ہے۔ حالیہ کچھ عرصے میں بیجنگ حکومت نے اس علاقے پر توجہ مرکوز کی ہے اور اب واضح معاشی تبدیلیاں ظاہر ہونا شروع ہو گئی ہیں۔
تصویر: picture alliance/Xinhua News Agency
8 تصاویر1 | 8
ایک ملین سے زائد ایغور حراستی مراکز میں
انسانی حقوق کے لیے سرگرم مختلف بین الاقوامی تنظیموں کے مطابق چین نے ایک ملین سے زائد ایغور اقلیتی مسلمانوں کو جیلوں کی طرح کے ایسے حراستی مراکز میں بند کر رکھا ہے، جنہیں حکومت 'دوبارہ تعلیم کے مراکز‘ قرار دیتی ہے۔ ایسے مراکز میں بند ایغور مسلمانوں کو اپنی مذہبی اور اسلامی ثقافتی روایات ترک کر دینے کی ترغیب دی جاتی ہے۔
اس کے علاوہ ان باشندوں کو وہاں چین کی مرکزی اور سب سے بڑی زبان مینڈیرین پڑھائی جاتی ہے اور ان سے ملک میں حکمران کمیونسٹ پارٹی اور صدر شی جن پنگ کے وفادار رہنے کا حلف بھی لیا جاتا ہے۔
چین مین اب تک ایغور نسل کے بہت سے ماہرین تعلیم کو بھی علیحدگی پسندی کے الزامات کے تحت گرفتار کیا جا چکا ہے۔
م م / ع ا (اے ایف پی، اے پی)
چین میں ایغوروں کا دیس سکیورٹی اسٹیٹ میں تبدیل
چین کا کہنا ہے کہ اُسے اپنے مغربی علاقے سنکیانگ میں مسلمان انتہا پسندی کے ایک سنگین خطرے کا سامنا ہے۔ بیجنگ حکومت کا الزام ہے کہ ایغور مسلم اقلیت ہان چینی اکثریت کے ساتھ کشیدگی کو ہوا دے رہی ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
مغربی چینی علاقے سنکیانگ میں حفاظتی انتظامات سخت تر
چین کی قدیم شاہراہِ ریشم پر واقع شہر کاشغر میں دن میں تین بار الارم بجتا ہے اور دکاندار حکومت کی طرف سے دیے گئے لکڑی کے ڈنڈے تھامے فوراً اپنی دکانوں سے باہر نکل آتے ہیں۔ پولیس کی نگرانی میں منظم کی جانے والی ان انسدادِ دہشت گردی مشقوں کے دوران یہ دکاندار چاقو لہرانے والے فرضی حملہ آوروں کے خلاف لڑتے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
’وَن بیلٹ، وَن روڈ پروگرام‘
ایغور نسل کا ایک شہری صحرائے تکلامکان میں امام عاصم کے مقبرے کو جانے والے راستے پر جا رہا ہے۔ کاشغر نامی شہر کو، جو پہلے ایک تاریخی تجارتی چوکی ہوا کرتا تھا، صدر شی جن پنگ کے ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ نامی اُس اقتصادی پروگرام میں بھی مرکزی حیثیت حاصل ہے، جس کے ذریعے وہ چین کو ایشیا، مشرقِ وُسطیٰ اور اُس سے بھی آگے واقع خطّوں کے ساتھ جوڑ دینا چاہتے ہیں۔
چین کو ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ سمٹ میں خلل کا اندیشہ
خود مختار علاقے سنکیانگ ایغور میں ایک شخص اپنی بھیڑیں چرا رہا ہے۔ چین کے بدترین خدشات میں سے ایک یہ ہے کہ کوئی بہت بڑے پیمانے کا حملہ بیجنگ میں اُس ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ سمٹ کو نشانہ بنا سکتا ہے، جس میں کئی عالمی رہنماؤں کی شرکت متوقع ہے۔ علاقائی صدر مقام اُرمچی میں 2009ء میں ہونے والے نسلی ہنگاموں کے بعد سے سنکیانگ خونریز پُر تشدد واقعات کا مرکز بنا ہوا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
چین میں نسلی اقلیت
ایک خاتون صحرائے تکلامکان میں امام عاصم کے مقبرے کے قریب ایک قبر پر دعا مانگ رہی ہے۔ ایغور ترک زبان بولنے والی اقلیت ہے، جس کے زیادہ تر ارکان سنی مسلمان ہیں۔ ایغوروں کا شمار چین میں سرکاری طور پر تسلیم شُدہ پچپن اقلیتوں میں ہوتا ہے۔ اگرچہ ایغور مجموعی طور پر ایک قدرے معتدل اسلام پر عمل پیرا ہیں لیکن کچھ ایغور جا کر مشرقِ وُسطیٰ میں مسلمان ملیشیاؤں میں شامل ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
کمیونسٹ پارٹی کا دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنے کا عزم
چینی میڈیا کے مطابق کسی دہشت گردانہ حملے کا خطرہ بہت زیادہ ہے اور اسی لیے کمیونسٹ پارٹی نے بھی مسلمان انتہا پسندوں کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ مثلاً چینی حکام نے مسلمان کمیونٹی کے رسم و رواج پر کئی طرح کی پابندیاں لگا دی ہیں۔ ریاستی پراپیگنڈے کو ’رَد کرنا‘ غیر قانونی قرار دیا گیا حالانکہ یہ واضح نہیں ہو سکا کہ حکام اس ضابطے کو نافذ کیسے کریں گے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب
بہت سے مقامی باشندوں کے خیال میں انسدادِ دہشت گردی کی مشقیں ایک ظالمانہ سکیورٹی آپریشن کا حصہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ چند مہینوں سے سنکیانگ کے ایغور علاقوں میں یہ آپریشن تیز تر کر دیا گیا ہے اور اس کا مقصد سکیورٹی سے زیادہ بڑے پیمانے پر نگرانی کرنا ہے۔ کاشغر میں ایک دکاندار نے بتایا:’’ہماری کوئی نجی زندگی نہیں رہ گئی۔ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ آپ کیا کرنے والے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/T. Peter
مسلمانوں کی مخصوص روایات پر پابندی
مردوں پر لگائی گئی سب سے نمایاں پابندی یہ ہے کہ وہ اپنی ’داڑھیاں غیر معمولی طور پر نہ بڑھائیں‘۔ خواتین پر نقاب پہننے کی پابندی عائد کی گئی ہے۔ خاص طور پر ریلوے اسٹیشنوں اور ہوائی اڈوں جیسے عوامی مقامات میں برقعہ کرنے والی خواتین کا داخلہ ممنوع قرار دیا گیا ہے اور فوراً پولیس کو مطلع کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
سکیورٹی عملے کے چوکس ارکان
حکام نے ایسے لوگوں کے لیے انعام کا اعلان کر رکھا ہے، جو لمبی داڑھیوں والے نوجوانوں یا ایسی مذہبی روایات کی پاسداری کی اطلاع دیں گے، جس میں انتہا پسندی کا پہلو نکل سکتا ہو۔ اس طرح مخبری کا ایک باقاعدہ نظام تشکیل دیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کے علمبردار گروپ ایسے احکامات کو ہدفِ تنقید بنا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
معیشت یا سلامتی؟
حکومت سنکیانگ میں جبر کی پالیسیاں اختیار کرنے کے الزامات کو مسترد کرتی ہے اور اُن بھاری رقوم کا ذکر کرتی ہے، جو معدنی وسائل سے مالا مال اس خطّے کی اقتصادی ترقی کے لیے خرچ کی جا رہی ہیں۔ چین کی نسلی پالیسیوں کے ایک ماہر جیمز لائی بولڈ کے مطابق سنکیانگ میں سکیورٹی کے اقدامات لوگوں اور خیالات کے بہاؤ کو روکیں گے اور یوں ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ پروگرام کے خلاف جاتے ہیں۔