چین میں بڑھتی ہوئی بےروزگاری
21 دسمبر 2008بڑھتی ہوئی بے روزگاری دنیا کےسبھی ملکوں کی حکومتوں کے لئے پریشانی باعث بن رہی ہے۔ دنیا کی چوتھی بڑی معیشت چین میں بھی بے روزگاری ایک اہم مسئلے کے طور پر سامنے آئی ہے۔
چین کے ایک اہم روزنامے پیپلز ڈیلی کے مطابق معیشی بحران کی وجہ سے چین کے لئے سماجی استحکام برقرارقائم رکھنا انتہائی مشکل ہوتا جارہا ہے۔برآمدی مصنوعات کی پیداوار کے حوالے سے اہم ساحلی شہروں میں بہت سی فیکٹریاں یا تو بند ہورہی ہیں یا وہ اپنےکارکنوں کی تعداد میں کمی کر رہی ہیں۔
چین میں پیشہ ورانہ تعلیم کی قومی تنظیم سے تعلق رکھنے والے چین گوانگ کنگ Chen Guangqing کے مطابق اب اس ملک میں بے روزگاری کی صورتحال 1990کی دہائی سے بھی زیادہ خراب ہوسکتی ہے۔
بین الاقوامی معیشی بحران کی وجہ سے چینی معیشت میں ترقی کی شرح آٹھ فیصد سے کم ہوجانے کا خدشہ ہے۔ جس کے بعد حکومتی عہدیداروں کا خیال ہے کہ ملک میں تعلیم یافتہ افراد کو ضرورت کے مطابق نوکریاں فراہم کرنا بہت مشکل ہو جائے گا۔
قومی تنظیم برائے پیشہ ورانہ تعلیم کے گوانگ کنگ Chen Guangqing کے مطابق چین میں گریجوایشن کرنے والے نئے طلباء میں تیزی سےبدلتی ہوئی معیشت میں نوکریاں حاصل کرنے کے لئے ضروری صلاحیت اور مہارت نہیں ہے۔ دوسری جانب یہ لوگ کم تر ذمہ داریوں والی عام ملازمتیں کرنے پر بھی تیار نہیں ہیں۔
چین کی سوشل سائنسز اکیڈمی CASS کے مطابق اگلے برس ساٹھ لاکھ چینی طلبہ افرادی قوت کی ملکی منڈی میں داخل ہونگے اور یہ تعداد گزشتہ سال کی نسبت پانچ لاکھ زائد ہے۔ ان طلبہ کو روزگار ڈھونڈنے میں یقینا پریشانی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
۔
CASSکے مطابق کم از کم40لاکھ مزدور اور کارکن اپنی نوکریاں ختم ہونے کے بعد شہری علاقوں میں جز وقتی نوکریاں ڈھونڈ رہے ہیں جس کی وجہ سے شہری علاقوں میں بے روزگاری کی شرح 9.4 فیصد تک پہنچ گئ ہے جو کہ حکومتی اعداد وشمار سے تقریبا دگنی ہے۔
ایک ارب تیس کروڑ کی آبادی والے ملک چین میں پہلے سے ہی مزدوروں کی ہڑتالیں ، احتجاج اورزمین کی ملکیت کے حوالے سے تنازعات روز کا معمول بنتے جارہے ہیں۔ خدشہ ہے کہ جلد ہی اپنی تعلیم مکمل کرکے نوکریاں تلاش کرنے والے طلباء ان مسائل میں اضافے کا باعث بنیں گے۔
چینی اخبار پیپلزڈیلی کے مطابق خراب معیشی صورتحال کی وجہ سے معاشی ترقی کو سنگین مسائل درپیش ہیں۔ جن سے نمٹنا اور پھرسماجی استحکام کو بھی برقرار رکھنا چین کے لئے آسان نہیں ہوگا۔