چینی حکام نے برطانیہ کے عالمی نشریاتی ادارے پر چین میں میڈیا گائیڈ لائنز کی خلاف ورزی کرنے کا الزام لگایا ہے۔ یہ پیش رفت برطانوی حکام کی جانب سے چین کے سرکاری ٹی وی نیٹ ورک کا لائسنس منسوخ کیے جانے کے بعد ہوئی ہے۔
اشتہار
چین میں نشریاتی نگراں ادارے نیشنل ریڈیو اینڈ ٹیلی ویژن ایڈمنسٹریشن نے جمعرات کو بی بی سی ورلڈ نیوز پر یہ کہتے ہوئے پابندی عائد کر دی کہ اس عالمی نشریاتی ادارے نے ملک کے نشریاتی ضابطوں کی ”سنگین خلاف ورزی" کی ہے۔
نیشنل ریڈیو اینڈ ٹیلی ویژن ایڈمنسٹریشن کی طرف سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ بی بی سی ورلڈ نیوز کی چین کے بارے میں رپورٹس میں نشریاتی گائیڈ لائنز کی سنگین خلاف ورزی کی گئی ہے جن میں 'خبروں کا سچا اور منصفانہ ہونا‘ اور 'چین کے قومی مفاد کی خلاف ورزی نہ کرنا‘ شامل ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ مذکورہ وجوہات کی بنا پر بی بی سی ورلڈ نیوز چین میں غیر ملکی نشریاتی اداروں کے لیے بنائی گئی شرائط پر پورا نہیں اترتا اور اگلے سال نشریات جاری رکھنے کے لیے دی گئی درخواست منظور نہیں کی جائے گی۔
انگلش زبان میں نشرہونے والا بی بی سی ورلڈ نیوز چین میں بیشتر ٹی وی چینل پیکیجز میں شامل نہیں ہے تاہم یہ بعض ہوٹلوں اور رہائشی مقامات پر دستیاب ہے۔ چین میں موجود روئٹرز کے دو نامہ نگاروں نے کہا کہ ان کی اسکرینز سے چینل غائب ہوگیا ہے۔
بی بی سی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ”ہم مایوس ہیں کہ چینی حکام نے یہ راستہ اختیار کیا ہے۔ بی بی سی دنیا کا سب سے با اعتبار بین الاقوامی نشریاتی ادارہ ہے اوربغیر کسی خوف یا لالچ کے دنیا بھر سے منصفانہ، غیر جانبدار کہانیاں رپورٹ کرتا ہے۔"
برطانیہ میں چینی ٹی وی پر پابندی
چین نے یہ قدم برطانوی حکام کی جانب سے چین کے سرکاری ٹی وی نیٹ ورک (سی جی ٹی این) کا لائسنس منسوخ کیے جانے کے بعد اٹھا یا ہے۔
برطانوی میڈیا ریگیولیٹر آفکوم نے چائنا گلوبل ٹیلی ویژن نیٹ ورکس (سی جی ٹی این) کا برطانیہ میں نشریات کا لائسنس اس ماہ کے اوائل میں منسوخ کر دیا تھا۔ آفکوم کا کہنا تھا کہ تحقیقات میں انکشاف ہوا ہے کہ یہ لائسنس غیر قانونی طور پر اسٹار چائنا میڈیا لمیٹڈ کے پاس تھا۔
آفکوم کے مطابق چونکہ اسٹار چائنا چینل کی ادارتی ذمہ دار ی اپنے اوپر نہیں لے رہا تھا اس لیے ”وہ لائسنس اپنے پاس رکھنے کے لیے قانونی شرائط پر پورا نہیں اترتا ہے۔" آفکوم کا مزید کہنا تھا کہ اسٹارچائنا نیوز چینل فراہم کرنے کے بجائے صرف ایک ڈسٹری بیوٹر کے طورپر کام کر رہا تھا۔
برطانوی حکام نے لائسنس کو ایک نئی کمپنی کو منتقل کرنے کی سی جی ٹی این کی تجویز بھی مسترد کر دی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسا کرنے کے باوجود اس کا کنٹرول چینی کمیونسٹ پارٹی کے ہاتھوں میں ہی رہے گا اور یہ برطانوی قانون کے خلاف ہے۔
برطانوی وزیرخارجہ ڈومنک راب نے بی بی سی ورلڈ نیوز پر پابندی عائد کرنے کے چین کے اقدام کو 'میڈیا کی آزادی پر ایک نا قابلِ قبول قدغن‘ قرار دیا ہے۔
ج ا/ ص ز (اے ایف پی، روئٹرز)
آزادی صحافت کی درجہ بندی: چھ پس ماندہ ترین ممالک
آئے دن صحافی اور بلاگرز پر حملے ہوتے ہیں اور انہیں ہراساں کیا جاتا ہے۔ رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے اس بار اس دن کے حوالے سے میڈیا کی آزادی کے دشمن سمجھے جانے والے دنیا کے چھ بدترین ممالک کی صورتحال پر روشنی ڈالی ہے۔
تصویر: Fotolia/picsfive
شام میں آزادی صحافت کو درپیش مسائل
صدر بشار الاسد کے خلاف شروع ہونے والی بغاوت سے اب تک متعدد صحافی اور بلاگرز یا تو مار دیے گئے ہیں یا تعاقب کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کئی سالوں سے شام کو پریس کی آزادی کا دشمن ملک کہتی آئی ہے۔ شام میں حکومت ہی نہیں بلکہ اسلامک اسٹیٹ کے جنگجو اور النصرہ فرنٹ، جو اسد کے خلاف لڑ رہے ہیں، بھی شامی حکومتی میڈیا کے صحافیوں پر حملے کرتے رہتے ہیں۔
تصویر: Abd Doumany/AFP/Getty Images
چین میں پریس کی آزادی کا فقدان
رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے مطابق چین صحافیوں اور بلاگرز کے لیے سب سے بڑی جیل کے مانند ہے۔ آمرانہ حکومت رائے کی آزادی کی سخت دشمن ہے۔ وہاں غیر ملکی صحافیوں پر دباؤ بھی روز بروز بڑھ رہا ہے۔ ملک کے کچھ حصے ان کے لیے بند ہیں۔ صحافیوں کی سرگرمیوں پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے اور انٹرویو دینے والوں اور معاونین کو اکثر و بیشتر حراست میں لے لیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schiefelbein
ویت نام، حکومت کے ناقدین کے خلاف جنگ
ویت نام میں آزاد میڈیا کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔ واحد حکمران جماعت کمیونسٹ پارٹی صحافیوں کو بتاتی ہے کہ انہیں کیا شائع کرنا چاہیے۔ ناشر، مدیر اور صحافیوں کا پارٹی ممبر ہونا لازمی ہے۔ بلا گرز حکام کی توجہ کا مرکز ہوتے ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی کی اجارہ داری کے خلاف لکھنے والے بلاگرز کو سنگین نتائج کا سامنا ہوتا ہے۔
تصویر: picture alliance/ZB/A. Burgi
ترکمانستان، خطرناک صورتحال
ترکمانستان کے صدر سرکاری میڈیا پر قابض ہیں۔ استثنا محض اخبار’ریسگال‘ کو حاصل ہے، تب بھی اس کا ہر ایڈیشن صدر کے حکم سے شائع ہوتا ہے۔ اس ملک میں میڈیا پر اجارہ داری کے خلاف ایک نیا قانون بھی جاری ہو گیا ہے، جس کے بعد سے ترکمانستان کے عوام کی غیر ملکی خبر ایجنسیوں تک رسائی ممکن ہو گئی ہے۔ انٹرنیٹ حکومت کے کنٹرول میں ہے اور زیادہ تر ویب سائٹس بلاک کر دی گئی ہیں۔
تصویر: Stringer/AFP/Getty Images
شمالی کوریا، آمر حاکم کی حکمرانی میں
’پریس کی صحافت‘ کی اصطلاح سے شمالی کوریا کا کوئی واستہ نہیں۔ اس ریاست میں آزاد رپورٹننگ صحافیوں کے لیے ناممکن ہے۔ ساری دنیا سے کٹے ہوئے آمر حکمران کم یونگ اُن اپنے میڈیا پر کڑی نظر رکھتے ہیں۔ یہاں محض حکومتی نشریاتی ادارہ ریڈیو اور ٹیلی وژن چینلز چلا رہا ہے، جس نے اپنی آزاد رائے کا اظہار کیا وہ اپنی فیملی سمیت سنگین مشکلات سے دو چار ہوا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Yonhap/Kcna
اریتریا، افریقہ کا شمالی کوریا
رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے افرقیہ کے آمر حکمرانی والے ملک اریتریا کو اپنی اس فہرست میں سب سے آخری نمبر پر رکھا ہے۔ اس تنظیم کے مطابق دنیا کے کسی دوسرے ملک میں صحافت کے ساتھ اتنا بُرا سلوک نہیں ہو رہا ہے، جتنا اس افریقی ریاست میں۔ بمشکل ہی اس بارے میں مقامی میڈیا کی کوئی رپورٹ سامنے آتی ہے۔ بہت سے صحافیوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا ہے۔