چین میں تشدد کا نیا واقعہ، سنکیانگ میں آٹھ افراد ہلاک
30 دسمبر 2013خبر رساں ادارے روئٹرز نے سرکاری ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ چاقوؤں سے لیس 9 حملہ آوروں نے پیر کے روز صبح چھ بج کر تیس منٹ پر کاشغر کے علاقے یارقند میں قائم ایک پولیس اسٹیشن پر حملہ کر دیا۔ حکومتی بیان میں بتایا گیا ہے کہ حملہ آوروں نے پہلے بارودی مواد پھینکا اور بعد ازاں کارروائی کرتے ہوئے پولیس کی گاڑیوں کو بھی نذر آتش کر دیا۔ پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے آٹھ حملہ آوروں کو ہلاک جبکہ ایک کو زخمی حالت میں گرفتار کر لیا۔ پولیس نے اس کارروائی کو دہشت گردی قرار دیتے ہوئے مزید تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔
چین کے شورش زدہ صوبے سنکیانگ سے بدامنی کے واقعات کی اطلاعات اکثر ہی آتی رہتی ہیں۔ بیجنگ حکومت ان واقعات کی ذمہ داری شدت پسند مسلم تنظیموں پر عائد کرتی ہے۔ سرکاری میڈیا کے مطابق اس صوبے میں اپریل سے اب تک مختلف پر تشدد واقعات کے نتیجے میں تقریباﹰ 91 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں متعدد پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔
رواں ماہ ہی کاشغر میں ایک احتجاجی ریلی کے دوران پولیس نے فائرنگ کرتے ہوئے چودہ افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ اس واقعے میں دو پولیس اہلکار بھی مارے گئے تھے۔ سرکاری میڈیا کے مطابق ایسے ہی ایک خونریز واقعے میں گزشتہ ماہ اس وقت 9 افراد مارے گئے تھے، جب مسلح افراد کے ایک گروہ نے کاشغر میں ہی واقع ایک پولیس اسٹیشن پر حملہ کر دیا تھا۔ بیجنگ حکومت نے ماضی میں ایسے واقعات کی ذمہ داری اسلام پسند جنگجوؤں پر عائد کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے ’مقدس جہاد‘ کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔
سنگین صورتحال
پیر کی صبح رونما ہونے والے واقعے پر تبصرہ کرتے ہوئے چینی وزارت خارجہ کے ترجمان چِن گانگ نے خبردار کرتے ہوئے کہا، ’’چینی حکومت قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ان شر پسند عناصر کے خلاف سخت کارروائی کرے گی۔‘‘ اس واقعے نے سنکیانگ میں علیحدگی پسندوں، انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کی وجہ سے پیدا ہونے والے ممکنہ خطرات کو نمایاں کر دیا ہے۔
سنکیانگ میں ایغور مسلمان اکثریت میں ہیں، جن میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ حکومت نے ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا ہوا ہے۔ وہاں کی مسلمان آبادی کے بقول ان کے کلچر، زبان اور مذہب پر پابندیاں عائد ہیں جبکہ چین کا دعویٰ ہے کہ حکومت نے مسلمانوں کو وسیع تر آزادی دے رکھی ہے۔
دوسری طرف انسانی حقوق کے کارکنان اور جلا وطن چینی باشندوں کا کہنا ہے کہ پولیس ایغور کمیونٹی کے خلاف اکثر اوقات ہی سخت کارروائی کرتی ہے۔ جلا وطن ایغور کمیونٹی کے مرکزی گروپ ’ورلڈ ایغور کانگریس‘ کے ترجمان Dilxat Raxit نے روئٹرز کو بتایا ہے کہ بین الاقوامی برداری کو چاہیے کہ وہ ایغوروں کے خلاف بیجنگ کی استحصالی پالیسیوں کے خلاف آواز بلند کرے۔
انسانی حقوق کے متعدد گروپوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ چینی حکومت توانائی سے مالا مال علاقے سنکیانگ پر اپنا کنٹرول مضبوط بنانے کے لیے سکیورٹی خدشات کو بڑھا چڑھا کر پیش کرتی ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ وسطی ایشیا، بھارت اور پاکستان کی سرحدوں سے متصل اس علاقے کی سیاسی و اقتصادی اسٹریٹیجک اہمیت بھی بہت زیادہ ہے۔