چین میں دس لاکھ مسلمانوں کے حراستی کیمپوں کی حیثیت اب قانونی
11 اکتوبر 2018
چینی صوبے سنکیانگ کی علاقائی حکومت نے لاکھوں مسلمانوں کے لیے قائم کردہ حراستی کیمپوں کو قانونی حیثیت دے دی ہے۔ وہاں قریب ایک ملین اقلیتی مسلمان ایسے حراستی کیمپوں میں بند ہیں، جنہیں ’تربیتی مراکز‘ کا نام دیا جاتا ہے۔
اشتہار
اس بارے میں اگرچہ سرکاری طور پر چینی حکام کی طرف سے کوئی اعداد و شمار جاری نہیں کیے گئے تاہم ماہرین کا خیال ہے کہ دنیا کے اس سب سے زیادہ آبادی والے ملک کے شمال مغرب میں واقع صوبے سنکیانگ میں، جہاں ایغور نسل کی قومی مسلم اقلیت سے تعلق رکھنے والے افراد اکثریت میں ہیں، قریب ایک ملین تک مسلمانوں کو ایسے حراستی کیمپوں میں رکھا جا رہا ہے۔
سنکیانگ میں صوبائی حکومت نے اب ایسی قانون سازی کر دی ہے، جس کے تحت مسلمانوں کے ان حراستی کیمپوں کو باقاعدہ قانونی حیثیت دے دی گئی ہے۔ چینی حکمرانوں کے مطابق بدھ دس اکتوبر کو کی جانے والی قانونی ترامیم کے تحت ملک میں مذہبی انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے اب ان مسلمانوں کو ایسے ’تعلیمی اور تربیتی مراکز‘ میں رکھنا ممکن ہو گیا ہے۔
کئی مختلف غیر سرکاری تنظیموں اور انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کی رپورٹوں کے مطابق یہ نام نہاد ’ٹریننگ سینٹرز‘ عملاﹰ ایسے حراستی مراکز ہیں، جہاں گزشتہ ایک سال کے دوران قریب ایک ملین اقلیتی مسلم باشندوں کو منتقل کیا جا چکا ہے۔
چین میں ایغوروں کا دیس سکیورٹی اسٹیٹ میں تبدیل
چین کا کہنا ہے کہ اُسے اپنے مغربی علاقے سنکیانگ میں مسلمان انتہا پسندی کے ایک سنگین خطرے کا سامنا ہے۔ بیجنگ حکومت کا الزام ہے کہ ایغور مسلم اقلیت ہان چینی اکثریت کے ساتھ کشیدگی کو ہوا دے رہی ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
مغربی چینی علاقے سنکیانگ میں حفاظتی انتظامات سخت تر
چین کی قدیم شاہراہِ ریشم پر واقع شہر کاشغر میں دن میں تین بار الارم بجتا ہے اور دکاندار حکومت کی طرف سے دیے گئے لکڑی کے ڈنڈے تھامے فوراً اپنی دکانوں سے باہر نکل آتے ہیں۔ پولیس کی نگرانی میں منظم کی جانے والی ان انسدادِ دہشت گردی مشقوں کے دوران یہ دکاندار چاقو لہرانے والے فرضی حملہ آوروں کے خلاف لڑتے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
’وَن بیلٹ، وَن روڈ پروگرام‘
ایغور نسل کا ایک شہری صحرائے تکلامکان میں امام عاصم کے مقبرے کو جانے والے راستے پر جا رہا ہے۔ کاشغر نامی شہر کو، جو پہلے ایک تاریخی تجارتی چوکی ہوا کرتا تھا، صدر شی جن پنگ کے ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ نامی اُس اقتصادی پروگرام میں بھی مرکزی حیثیت حاصل ہے، جس کے ذریعے وہ چین کو ایشیا، مشرقِ وُسطیٰ اور اُس سے بھی آگے واقع خطّوں کے ساتھ جوڑ دینا چاہتے ہیں۔
چین کو ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ سمٹ میں خلل کا اندیشہ
خود مختار علاقے سنکیانگ ایغور میں ایک شخص اپنی بھیڑیں چرا رہا ہے۔ چین کے بدترین خدشات میں سے ایک یہ ہے کہ کوئی بہت بڑے پیمانے کا حملہ بیجنگ میں اُس ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ سمٹ کو نشانہ بنا سکتا ہے، جس میں کئی عالمی رہنماؤں کی شرکت متوقع ہے۔ علاقائی صدر مقام اُرمچی میں 2009ء میں ہونے والے نسلی ہنگاموں کے بعد سے سنکیانگ خونریز پُر تشدد واقعات کا مرکز بنا ہوا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
چین میں نسلی اقلیت
ایک خاتون صحرائے تکلامکان میں امام عاصم کے مقبرے کے قریب ایک قبر پر دعا مانگ رہی ہے۔ ایغور ترک زبان بولنے والی اقلیت ہے، جس کے زیادہ تر ارکان سنی مسلمان ہیں۔ ایغوروں کا شمار چین میں سرکاری طور پر تسلیم شُدہ پچپن اقلیتوں میں ہوتا ہے۔ اگرچہ ایغور مجموعی طور پر ایک قدرے معتدل اسلام پر عمل پیرا ہیں لیکن کچھ ایغور جا کر مشرقِ وُسطیٰ میں مسلمان ملیشیاؤں میں شامل ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
کمیونسٹ پارٹی کا دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنے کا عزم
چینی میڈیا کے مطابق کسی دہشت گردانہ حملے کا خطرہ بہت زیادہ ہے اور اسی لیے کمیونسٹ پارٹی نے بھی مسلمان انتہا پسندوں کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ مثلاً چینی حکام نے مسلمان کمیونٹی کے رسم و رواج پر کئی طرح کی پابندیاں لگا دی ہیں۔ ریاستی پراپیگنڈے کو ’رَد کرنا‘ غیر قانونی قرار دیا گیا حالانکہ یہ واضح نہیں ہو سکا کہ حکام اس ضابطے کو نافذ کیسے کریں گے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب
بہت سے مقامی باشندوں کے خیال میں انسدادِ دہشت گردی کی مشقیں ایک ظالمانہ سکیورٹی آپریشن کا حصہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ چند مہینوں سے سنکیانگ کے ایغور علاقوں میں یہ آپریشن تیز تر کر دیا گیا ہے اور اس کا مقصد سکیورٹی سے زیادہ بڑے پیمانے پر نگرانی کرنا ہے۔ کاشغر میں ایک دکاندار نے بتایا:’’ہماری کوئی نجی زندگی نہیں رہ گئی۔ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ آپ کیا کرنے والے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/T. Peter
مسلمانوں کی مخصوص روایات پر پابندی
مردوں پر لگائی گئی سب سے نمایاں پابندی یہ ہے کہ وہ اپنی ’داڑھیاں غیر معمولی طور پر نہ بڑھائیں‘۔ خواتین پر نقاب پہننے کی پابندی عائد کی گئی ہے۔ خاص طور پر ریلوے اسٹیشنوں اور ہوائی اڈوں جیسے عوامی مقامات میں برقعہ کرنے والی خواتین کا داخلہ ممنوع قرار دیا گیا ہے اور فوراً پولیس کو مطلع کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
سکیورٹی عملے کے چوکس ارکان
حکام نے ایسے لوگوں کے لیے انعام کا اعلان کر رکھا ہے، جو لمبی داڑھیوں والے نوجوانوں یا ایسی مذہبی روایات کی پاسداری کی اطلاع دیں گے، جس میں انتہا پسندی کا پہلو نکل سکتا ہو۔ اس طرح مخبری کا ایک باقاعدہ نظام تشکیل دیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کے علمبردار گروپ ایسے احکامات کو ہدفِ تنقید بنا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
معیشت یا سلامتی؟
حکومت سنکیانگ میں جبر کی پالیسیاں اختیار کرنے کے الزامات کو مسترد کرتی ہے اور اُن بھاری رقوم کا ذکر کرتی ہے، جو معدنی وسائل سے مالا مال اس خطّے کی اقتصادی ترقی کے لیے خرچ کی جا رہی ہیں۔ چین کی نسلی پالیسیوں کے ایک ماہر جیمز لائی بولڈ کے مطابق سنکیانگ میں سکیورٹی کے اقدامات لوگوں اور خیالات کے بہاؤ کو روکیں گے اور یوں ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ پروگرام کے خلاف جاتے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
9 تصاویر1 | 9
’نظریاتی تعلیم اور نفسیاتی بحالی‘
یہ قانون سازی جس سرکاری مسودے کی بنیاد پر کی گئی ہے، اس کے مطابق چین کے مختلف صوبوں کی علاقائی حکومتیں ’’ایسے پیشہ ورانہ تعلیمی تربیتی مراکز قائم کر سکتی ہیں، جہاں ایسے افراد کی تعلیم کے ذریعے اصلاح کی جا سکے، جو شدت پسندی اور مذہبی انتہا پسندی سے متاثر ہو چکے ہوں۔‘‘
لیکن حقیقت میں ایسے مراکز میں زیر حراست افراد کو بظاہر صرف مینڈیرین (چینی میں بولی جانے والی اکثریتی زبان) اور پیشہ ورانہ ہنر ہی نہیں سکھائے جاتے، بلکہ نئی قانونی ترامیم کے ذریعے یہ بھی ممکن ہو گیا ہے کہ ایسے افراد کو ’نظریاتی تعلیم، نفسیاتی بحالی اور رویوں میں اصلاح‘ جیسی سہولیات بھی مہیا کی جائیں۔
بیجنگ میں ملکی حکومت اس بات سے انکار کرتی ہے کہ یہ مراکز چینی مسلم اقلیت کے لیے قائم کردہ کوئی حراستی مراکز ہیں۔ تاہم ساتھ ہی حکام نے مختلف مواقع پر یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ بہت چھوٹے چھوٹے جرائم میں ملوث افراد کو بھی ایسے مراکز میں بھیجا گیا ہے۔
’اسلام کی جبری مذمت‘
ان کیمپوں میں کچھ عرصہ پہلے تک زیر حراست رکھے جانے والے کئی افراد نے تصدیق کی ہے کہ انہیں دوران حراست اس امر پر مجبور کیا گیا کہ وہ بطور ایک عقیدے کے اسلام کی مذمت کریں اور چینی کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ اپنی غیر مشروط وفاداری کا اظہار کریں۔
چین کی ہوئی یا خُوذُو مسلم اقلیت
چین میں ایغور مسلم کمیونٹی کے علاوہ شمال مغربی چین میں خُوذُو مسلم اقلیت بھی آباد ہے۔ ان کی آبادی ایک کروڑ سے زائد ہے۔ یہ زیادہ تر ننگ شا، گانسُو اور چنگ ہائی علاقوں میں آباد ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
خوذو مسلمانوں کا شہر لِنشیا، چھوٹا مکہ
ہُوئی یا خُوذُو مسلمان اکثریتی شہر لِنشیا کو ’چھوٹا مکہ‘ کے نام سے چین میں شہرت حاصل ہے۔ اس شہر میں چھوٹی بڑی 80 مساجد واقع ہے۔ یہ شہر دریائے ڈاشیا کے کنارے پر آباد ہے۔ ایغور مسلم دانشور خُوذُو مسلم کمیونٹی کو چین کی ہان نسل کے مسلمان قرار دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
لِنشیا میں عورتیں سر پر سکارف پہنتی ہیں
خوذو مسلم خواتین خاصی متحرک اور فعال تصور کی جاتی ہیں۔ بڑی عمر کی عورتوں میں سفید اسکارف پہننا عام طور پر دیکھا گیا ہے۔ ان کا اسکارف چینی انداز کا ہوتا ہے۔ اب کئی نوجوان لڑکیوں میں ایسے جدید پہناوے پسند کیے جاتے ہیں، جن سے برہنگی ظاہر نہ ہو۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
لِنشیا: سبز گنبدوں والا شہر
گانسو صوبے کا شہر لِنشیا ڈھائی لاکھ سے زائد آبادی کا شہر ہے۔ اس کی اکثریتی آبادی چینی زبان بولنے والے خُوذُو مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ اس شہر کی مساجد ہر جمعے کے دن نمازیوں سے بھری ہوتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
نوجوان لڑکیوں کے لیے قرآنی تعلیم کا سلسلہ
خُوذُو مسلمان کمیونٹی اپنی مساجد میں خاص طور پر مذہبی کتاب قرآن کی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان مساجد میں نوعمر لڑکیوں کو بھی قرآن پڑھایا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Wong
خوذو مسلمان
چین میں دس بڑے نسلی گروپوں میں خوذو یا ہوئی مسلمان بھی شمار ہوتے ہیں۔ یہ زیادہ تر چین کے اقتصادی طور پر کمزو علاقے میں آباد ہیں۔ اس علاقے میں تعلیم بھی اتنی عام نہیں جتنی بقیہ چینی شہروں میں ہے۔ یہ ایغور نسل کے مسلمان نہیں تصور کیے جاتے۔ تصویر میں ایک قصبےوُوہژونگ کی مسجد میں شام کی نماز ادا کی جا رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Weiken
خواتین میں دینی شعار کا شوق
نوجوان لڑکیاں مختلف رنگوں کے اسکارف پہنتی ہیں۔ مساجد میں پہنچ پر قرآن کی تلاوت کرنا بھی خُوذُو یا ہُوئی خواتین کو پسند ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Reynolds
چینی صدر کا خُوذُو مسلمانوں کی مسجد کا دورہ
چین کے صدر شی جن پنگ نے سن 2016 میں نِنگ شا کے علاقے یِن چوان کی ایک مسجد کا دورہ کیا تھا۔ مسجد میں پہنچ کر انہوں نے مقامی ہُوئی مسلمانوں سے ملاقات کے ساتھ ساتھ اُن کے عمومی مسائل پر گفتگو کی۔ چینی صدر تین دن تک نِنگ شا میں مقیم رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA Press/J. Peng
نِنگ شا کا نیم خود مختار علاقہ
چین کے شمال مغرب میں واقع ننگ شا کے نیم خود مختار علاقے کا فضائی منظر۔ یہ علاقہ پہاڑوں میں گھِرا ہوا ہے اور چین کے پسماندہ علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس علاقے کی زمینیں بنجر ہیں اور قحط سالی بھی چلتی رہتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شرح بیروزگاری بھی معمول سے زیادہ رہی ہے۔ حالیہ کچھ عرصے میں بیجنگ حکومت نے اس علاقے پر توجہ مرکوز کی ہے اور اب واضح معاشی تبدیلیاں ظاہر ہونا شروع ہو گئی ہیں۔
تصویر: picture alliance/Xinhua News Agency
8 تصاویر1 | 8
آسٹریلیا میں میلبورن کی لا ٹروب یونیورسٹی کے چینی حکومت کے ملکی نسلی اقلیتوں سے متعلق پالیسی امور کے ماہرجیمز لائبولڈ نے نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا، ’’سنکیانگ میں ایسے حراستی مراکز کے قیام کے کافی عرصے بعد اب جا کر کہیں کی جانے والی ان قانونی ترامیم کا مقصد یہ ہے کہ اس چینی صوبے میں ایغور، قزاق اور دیگر مسلم اقلیتی گروپوں کے افراد کے لاکھوں کی تعداد میں زیر حراست رکھے جانے کو جائز قرار دیا جا سکے۔‘‘
خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق اس سلسلے میں ایغور، قزاق اور دیگر چینی مسلم اقلیتوں کے ان افراد کے بیرون ملک مقیم بہت سے رشتہ داروں نے بھی تصدیق کی ہے کہ جب سے حکام نے ایسے حراستی کیمپ قائم کیے ہیں، یہ بیرون ملک مقیم چینی یا چینی نژاد باشندے چین میں اپنے رشتے داروں سے رابطے کرنے میں کامیاب نہیں ہو رہے۔
حلال مصنوعات اور نقاب پر بھی پابندی
چین کے اس صوبے میں، جو جغرافیائی حوالے سے پاکستان اور افغانستان کے بہت قریب ہے، حکام ماضی میں مسلمانوں کے استعمال میں آنے والی حلال مصنوعات کی خرید و فروخت اور خواتین کی طرف سے نقاب اور حجاب کے استعمال پر بھی پابندی لگا چکے ہیں۔
پاکستان کو ترقیاتی امداد دینے والے دس اہم ممالک
2010ء سے 2015ء کے دوران پاکستان کو ترقیاتی امداد فراہم کرنے والے دس اہم ترین ممالک کی جانب سے مجموعی طور پر 10,786 ملین امریکی ڈالرز کی امداد فراہم کی گئی۔ اہم ممالک اور ان کی فراہم کردہ امداد کی تفصیل یہاں پیش ہے۔
تصویر: O. Andersen/AFP/Getty Images
۱۔ امریکا
سن 2010 سے 2015 تک کے پانچ برسوں کے دوران پاکستان کو سب سے زیادہ ترقیاتی امداد امریکا نے دی۔ ترقیاتی منصوبوں کے لیے ان پانچ برسوں میں امریکا نے پاکستان کو 3935 ملین ڈالر فراہم کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/C.Kaster
۲۔ برطانیہ
برطانیہ پاکستان کو امداد فراہم کرنے والے دوسرا بڑا ملک ہے۔ برطانیہ نے انہی پانچ برسوں کے دوران پاکستان کو 2686 ملین ڈالر ترقیاتی امداد کی مد میں فراہم کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Dunham
۳۔ جاپان
تیسرے نمبر پر جاپان ہے جس نے سن 2010 سے 2015 تک کے پانچ برسوں کے دوران پاکستان کو 1303 ملین ڈالر امداد فراہم کی۔
تصویر: Farooq Ahsan
۴۔ یورپی یونین
یورپی یونین کے اداروں نے پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے مذکورہ عرصے کے دوران اس جنوبی ایشیائی ملک کو 867 ملین ڈالر امداد دی۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Katsarova
۵۔ جرمنی
جرمنی، پاکستان کو ترقیاتی امداد فراہم کرنے والا پانچواں اہم ترین ملک رہا اور OECD کے اعداد و شمار کے مطابق مذکورہ پانچ برسوں کے دوران جرمنی نے پاکستان کو قریب 544 ملین ڈالر امداد فراہم کی۔
تصویر: Imago/Müller-Stauffenberg
۶۔ متحدہ عرب امارات
اسی دورانیے میں متحدہ عرب امارات نے پاکستان کو 473 ملین ڈالر کی ترقیاتی امداد فراہم کی۔ یو اے ای پاکستان کو ترقیاتی کاموں کے لیے مالی امداد فراہم کرنے والے ممالک کی فہرست میں چھٹے نمبر پر رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
۷۔ آسٹریلیا
ساتویں نمبر پر آسٹریلیا رہا جس نے ان پانچ برسوں کے دوران پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 353 ملین ڈالر کی امداد فراہم کی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Bäsemann
۸۔ کینیڈا
سن 2010 سے 2015 تک کے پانچ برسوں کے دوران کینیڈا نے پاکستان کو 262 ملین ڈالر ترقیاتی امداد کی مد میں دیے۔
تصویر: Getty Images/V. Ridley
۹۔ ترکی
پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے امداد فراہم کرنے والے اہم ممالک کی فہرست میں ترکی نویں نمبر پر ہے جس نے انہی پانچ برسوں کے دوران پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 236 ملین ڈالر خرچ کیے۔
تصویر: Tanvir Shahzad
۱۰۔ ناروے
ناروے پاکستان کو ترقیاتی امداد فراہم کرنے والا دسواں اہم ملک رہا جس نے مذکورہ پانچ برسوں کے دوران پاکستان میں ترقیاتی منصوبوں کے لیے 126 ملین ڈالر فراہم کیے۔
تصویر: Picture-alliance/dpa/M. Jung
چین
چین ترقیاتی امداد فراہم کرنے والی تنظیم کا رکن نہیں ہے اور عام طور پر چینی امداد آسان شرائط پر فراہم کردہ قرضوں کی صورت میں ہوتی ہے۔ چین ’ایڈ ڈیٹا‘ کے مطابق ایسے قرضے بھی کسی حد تک ترقیاتی امداد میں شمار کیے جا سکتے ہیں۔ صرف سن 2014 میں چین نے پاکستان کو مختلف منصوبوں کے لیے 4600 ملین ڈالر فراہم کیے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Schiefelbein
سعودی عرب
چین کی طرح سعودی عرب بھی ترقیاتی منصوبوں میں معاونت کے لیے قرضے فراہم کرتا ہے۔ سعودی فنڈ فار ڈیویلپمنٹ کے اعداد و شمار کے مطابق سعودی عرب نے سن 1975 تا 2014 کے عرصے میں پاکستان کو 2384 ملین سعودی ریال (قریب 620 ملین ڈالر) دیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Akber
12 تصاویر1 | 12
چینی حکومتی اہلکاروں کے مطابق چین کے اس خطے میں کئی ایسے انتہا پسند موجود ہیں، جن کے مختلف دہشت گرد گروپوں سے رابطے ہیں۔ چینی حکام اب تک لیکن اپنے ان دعووں کے حق میں چند ایک بہت معمولی شواہد سے زیادہ حقائق سامنے لانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔
سنکیانگ میں ’ایغور مسلم اکثریت کا توڑ‘
نیوز ایجنسی اے ایف پی نے لکھا ہے کہ بیجنگ میں مرکزی حکومت اور سنکیانگ میں صوبائی حکومت کی گزشتہ کئی عشروں سے کوشش ہے کہ وہ سنکیانگ کی مسلم آبادی میں بتدریج سر اٹھانے والے علیحدگی پسندی کی اس تحریک کو کچل دیں، جس کی ایک بڑی وجہ وہاں مقامی باشندوں میں پائی جانے والی بددلی ہے۔
ایغور مسلمانوں میں اس بددلی کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ ماضی میں اس صوبے میں ایغور مسلم باشندوں کی اکثریت تھی لیکن پھر بیجنگ نے ایک باقاعدہ پالیسی کے تحت وہاں داخلی نقل مکانی کر کے آنے والے ایسے باشندوں کو آباد کرنا شروع کر دیا، جن کا تعلق ہان نسل کی آبادی سے ہے۔ مجموعی طور پر چین میں ہان نسل کے باشندوں ہی کی اکثریت ہے۔
م م / ع ا / اے پی، اے ایف پی، ڈی پی اے
چین میں نیا سال کتے کے نام
چین میں موسم بہار فیسٹیول سے پہلے ٹریفک نظام اپنی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ جمعے سے شروع ہونے والے نئے چینی سال کو رواں برس کتے کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ ہر چینی شہری کی کوشش ہے کہ وہ جلد از جلد اپنے گھر پہنچ جائے۔
تصویر: Reuters
ہنگامی صورتحال
یکم فروری سے چھ ہفتوں کے لیے چین میں نقل و حمل کے حوالے سے ہنگامی حالت نافذ کر دی گئی ہے۔ سن دو ہزار سترہ کے اعداد و شمار کے مطابق ایک ساتھ تقریبا تین بلین افراد نے نقل و حمل کے ذرائع استعمال کیے تھے۔ رواں برس نیا ریکارڈ قائم ہونے کی توقع ہے۔
تصویر: Reuters/China Daily
ہر طرف گاڑیاں ہی گاڑیاں
اگر گاڑی کے ذریعے اپنے آبائی گھر جایا جائے تو ہمسائے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ ذاتی گاڑی چین میں کامیابی اور امارت کی علامت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس موقع پر ہر کوئی اپنی ذاتی گاڑی پر سفر کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔
تصویر: picture alliance/Imaginechina/J. Haixin
مل کر سفر کریں
چین میں یہ نیا رجحان ہے کہ ایک ہی شہر جانے والے مسافر مل کر ایک گاڑی پر سفر کرتے ہیں۔ اس کے لیے ڈی ڈی نامی ایک ویب سائٹ ہے جہاں خود کو رجسٹر کروایا جا سکتا ہے۔ جس کی گاڑی میں جگہ ہو، وہ دوسرے مسافر کو کم پیسوں کے عوض ساتھ لے لیتا ہے۔
تصویر: picture alliance/Imaginechina/D. Qing
بسوں کے ذریعے طویل سفر
طویل سفر بسوں کے ذریعے سستا پڑتا ہے۔ یہ بس خوش قسمتی کی علامات سے سجائی گئی ہے۔ گولڈن رنگ والا یہ نشان رواں برس بھی خوش قسمتی کی علامت ہے۔
تصویر: picture alliance/Imaginechina/C. Feibo
تیز اور تیز ترین ٹرینیں
حالیہ چند برسوں میں چین نے انتہائی کامیابی کے ساتھ تیز رفتار ٹرینوں کا افتتاح کیا ہے۔ ملک بھر میں تقریبا دس ہزار سے زائد کلومیٹر کا فاصلہ اب تین سو کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے طے کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: picture alliance/Imaginechina/H. Jinkun
ٹکٹ حاصل کرنے کی جدوجہد
ٹکٹ کی مشینوں پر کم ہی لوگ دکھائی دیتے ہیں۔ اس موقع پر ٹکٹ حاصل کرنے کی اصل جنگ انٹرنیٹ پر جاری رہتی ہے۔ ان دنوں چینی ریلوے کی ویب سائٹ کو بعض اوقات ایک ہی دن میں 150 ارب سے زائد مرتبہ وزٹ کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture alliance/Imaginechina/Photox
ریلوے اسٹیشنوں پر ثقافتی شو
مسافروں کی تھکاوٹ دور کرنے اور انتظار کا وقت بہتر طور پر گزارنے کے لیے ریلوے اسٹیشنوں پر ہی ثقافتی شوز کا انعقاد کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture alliance/Imaginechina/L. Junxi
کتے کا سال
چین میں رواں سال کو کتے کے نام سے منسوب کیا گیا ہے۔ تاہم کتوں کو سامان کی تلاشی اور دھماکا خیز مواد کی تلاش کے لیے بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔