چین میں دہشت گردانہ حملہ، ملزمان کی تلاش جاری
4 مارچ 2014پورے چین میں سکیورٹی انتظامات انتہائی سخت کیے جا چکے ہیں، خاص طور پر اس لیے بھی کہ دارالحکومت بیجنگ میں اسی ہفتے نیشنل پیپلز کانگریس کا سالانہ اجلاس بھی شروع ہونے والا ہے۔ متعدد حملہ آوروں کی طرف سے یہ حملہ جنوب مغربی چین میں کُن مِنگ شہر کے ریلوے اسٹیشن پر ہفتہ یکم مارچ کی شام کو کیا گیا تھا لیکن اس کے اثرات دو ہزار کلو میٹر سے بھی زائد فاصلے پر واقع ملکی دارالحکومت بیجنگ تک میں محسوس کیے جا رہے ہیں۔
بیجنگ شہر کے اندرونی حصے تک میں ملکی سکیورٹی دستے کھلی فوجی جیپوں میں گشت کر رہے ہیں۔ نیشنل پیپلز کانگریس کہلانے والی ملکی پارلیمان کا جو اجلاس اسی ہفتے شروع ہو رہا ہے، اس کے لیے حفاظتی انتظامات پہلے ہی بہت سخت تھے، جنہیں اب مزید سخت بنا دیا گیا ہے۔
کُن مِنگ کے ریلوے اسٹیشن کی حدود میں مسافروں پر خونریز حملے میں کون سے عناصر ملوث ہیں، چینی قیادت کے مطابق اس بارے میں کوئی سوال پوچھنا بالکل غیر ضروری ہو گا۔ لُو سہنوا چینی کمیونسٹ پارٹی کے سیاسی مشاورتی کانفرنس کہلانے والے مشاورتی بورڈ کے ترجمان ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’’یہ خونریز دہشت گردانہ حملہ سنکیانگ کی علیحدگی پسند قوتوں نے کرایا ہے۔‘‘
چینی حکام نے اس حملے سے متعلق اب تک اس سے زیادہ کوئی تفصیلات نہیں بتائیں۔ صرف یہ بات طے ہے کہ گزشتہ ہفتے کی شام چھریوں سے حملہ کرنے والے ایسے چار حملہ آوروں کو پولیس نے موقع پر ہی گولی مار دی تھی، جن میں ایک خاتون بھی شامل تھی۔ ایک خاتون حملہ آور کو گرفتار بھی کر لیا گیا تھا۔
چینی حکام کے مطابق اس خونریز واقعے میں ملوث ملزمان اور مشتبہ افراد کی تلاش جاری ہے۔ اندازہ ہے کہ کُن مِنگ ریلوے اسٹیشن پر خونریزی کے ذمہ دار حملہ آوروں کی تعداد دس سے زیادہ تھی۔ انہوں نے 29 مسافروں کو قتل کیا اور ان میں سے چار خود بھی پولیس کے ہاتھوں مارے گئے تھے۔
کُن مِنگ چین کا کئی ملین کی آبادی والا شہر ہے۔ وہاں اس خونریزی کے بعد ذرائع ابلاغ کی طرف سے یہ مطالبے کیے جا رہے ہیں کہ ریاست کو اس دہشت گردی کا جواب آہنی ہاتھ سے دینا چاہیے۔ اس دوران کئی چینی اخبارات میں مغربی دنیا کے خلاف سنائی دینے والی آوازیں بھی اونچی ہو گئی ہیں۔
مثال کے طور پر ایک چینی اخبار نے اپنے تبصرے میں لکھا ہے کہ اگر مغربی دنیا چین پر اس کے نسلی اقلیتوں کے مسائل کی وجہ سے آئندہ بھی تنقید کرتی رہی، تو بیجنگ کو مستقبل میں دہشت گردی کے خلاف ایک مشکل جنگ کا سامنا کرنا ہو گا۔
اس سے مراد شمال مغربی چینی صوبے سنکیانگ میں بیجنگ کے ایغور نسل کی مسلم اقلیتی آبادی کے ساتھ برتاؤ کی وجہ سے اس پر کی جانے والی بین الاقوامی تنقید ہے۔ ایغور نسل کی مسلم آبادی کو شکایت ہے کہ سنکیناگ میں اسے ہان نسل کی اکثریتی آبادی کے ذریعے جبر اور امتیازی رویوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
اسی لیے انسانی حقوق کی کئی تنظیموں کو خدشہ ہے کہ کُن مِنگ کا حالیہ خونریز حملہ ایک ایسا المیہ ہے، جو سنکیانگ میں جبر و تشدد کے واقعات میں آئندہ مزید تیزی کا باعث بنے گا۔