چین میں زلزلہ : پچاس ہزار افراد ہلاک
15 مئی 2008گزشتہ تین عشروں میں بد ترین زلزلے کے بعد چینی امدادی ٹیمیں زلزلے کے مرکز ، یعنی ان علاقوں تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیئں ہیں جہاں تباہی بہت زیادہ ہوئی ہے۔ سرکاری بیانات کے مطابق فوج ، درجنوں ہیلی کاپٹرز اور امدادی طیاروں کی مدد سے دور دراز پہاڑی علاقوں تک امدادی سامان پہنچانے اور لوگوں کو ملبے سے نکالنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
چینی حکومت نے کہا ہے کہ جاپان اور تایئوان کی خصوصی ٹیمیں بھی سیچوان پہنچ گیئں ہیں جو امدادی کاموں میں غیر معمولی کردار ادا کر رہی ہیں۔
اطلاعات کے مطابق آج بھی خراب موسم اور راستوں کے مسدود ہونے کے باعث امدادی ٹیموں کو کافی مشکلات کا سامنا رہا۔ تاہم سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق زلزلے سے بری طرح متاثر ہونے والے علاقے واچوان، دوجیان ، جوئی آن ، اور دیگر علاقوں میں تعینات پچاس ہزار فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کرتے ہوئے امدادی ٹیم کی تعداد اسی ہزار کر دی ہے۔
چینی نائب وزیر صحت نے کہا ہے کہ زلزلے سے متاثر ہونے والے دس ملین افراد میں سے پینسٹھ ہزار متاثرین کو طبی امداد پہنچائی جا چکی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ زخمی ہونے والوں میں تقریبا تیرہ ہزار افراد کی حالت نازک ہے۔
بین الاقوامی زرائع ابلاغ کا کہنا ہے کہ خیموں میں رہائش پذیر بہت سے متاثرین پینے کے صاف پانی، خوراک اور بنیادی طبی سہولتوں سے سے محروم ہیں ۔
بین الاقوامی ریڈ کراس تنظیم نے خیموں، ادویات، کمبلوں، کپڑوں اور خوراک اور پینے کے صاف پانی کی ہنگامی اپیل کی ہے۔ تنظیم کا کہنا ہے کہ اگر ان متاثرین کو فوری امداد نہیں ملتی تو مختلف موزی وبایئں بھوٹنے کے امکانات ہیں ۔
امداد کے منتظر متاثرین کی مدد میں جتی ہوئی حکومت کے لئے ایک خطرہ یہ بھی سامنے آیا ہے کہ اس زلزلے سے کئی ڈیموں کو بھی نقصان پہنچا ہے جس سے ڈیموں میں شگاف پڑ گئےہیں جس سے سیلاب کا خطرہ بھی پیدا ہو گیاہے۔
ابتدائی طور پر امدادی کاموں میں دیری کی ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ زلزلے کے فورا بعد چینی حکومت نے اپنی توجہ ڈیموں کی مرمت اور متبادل منصوبہ بندی کی طرف بھی لگائی۔
اطلاعات کے مطابق زلزلہ زدہ علاقے میں واقع چار سو چھوٹے چھوٹے ڈیموں کو تو نقصان پہنچا ہے لیکن مِن دریا پر واقع Zipingku نامی ایک بڑےڈیم میں بھی شگاف پر گئے ہیں ، یہ ڈیم زلزلے سے شدید ترین متاثر ہونے والے شہر دوجیان سے دس کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے۔