چین کی حکومت اپنے ملک میں سے معاشرتی و معاشی خرابیوں کا تدارک چاہتی ہے۔ بیجنگ حکومت سماجی کریڈٹ سسٹم کے ذریعے لوگوں کے قابل بھروسہ ہونے کی شرح جاننا چاہتی ہے۔
اشتہار
سوشل کریڈٹ سسٹم کے تجربے سے ایسا امکان ہے کہ لوگوں کی نجی زندگی کا بھرم قائم نہ رہ سکے لیکن حکومت اس کی فی الحال پرواہ نہیں کرنا چاہتی۔ عام لوگوں کے لائق اعتماد ہونے کو جانچنا ہی حکومت کے اس تجرباتی نظام کی بنیاد ہے۔ حکومت یہ جاننا چاہتی ہے کہ اُس کے شہری کتنے اچھے ہیں؟
سوشل کریڈٹ سسٹم کو پہلے سے موجود افراد کے رجسٹریشن مرکز کے ساتھ نتھی کیا گیا ہے۔ اس نظام کے تحت اس کا بھی ریکارڈ رکھا جائے گا کہ ایک لڑکا یا لڑکی ایک سال میں کتنی مرتبہ اپنے بوڑھے والدین سے ملاقات کے لیے گئے ہیں۔ اگر وہ ملاقات نہیں کریں گو انہیں منفی پوائنٹس کا حقدار ٹھہرایا جائے گا جبکہ دوسری صورت میں ان کو مزید پوائنٹس دیے جائیں گے۔
اسی طرح سرخ اشارہ توڑنے یا غیرقانونی طور پر کاٹھ کباڑ یا کوڑا کرکٹ پھیلانے پر بھی منفی پوائنٹس دیے جائیں گے۔ عدالتی سمن کی تعمیل کرنے یا نہ کرنے پر بھی منفی یا مثبت پوائنٹس دیے جائیں گے۔ اس جامع اعتماد سازی کے نظام کے دوران پوائنٹس کے ساتھ ساتھ ایک فرد کا سماجی برتاؤ بھی ادارے کے سامنے رہے گا۔
بیجنگ حکومت نے اس نظام کو متعارف کرانے کا فیصلہ سن 2014 میں کیا تھا۔ اُس وقت سے چین میں جہاں کہیں کوئی معاشرتی کانفرنس یا اجلاس ہوتا ہے تو اُس میں’سوشل کریڈٹ‘ کی اصطلاح کثرت سے استعمال ہوتی ہے اور پھر اس کی گونج اجلاس یا کانفرنس کے بعد بھی سنی جاتی ہے۔
جرمن دارالحکومت برلن میں قائم میریکس انسٹیٹیوٹ برائے چائنا اسٹڈیر کا خیال ہے کہ چین میں متعارف کردہ نظام کے تحت زندگی کے ہر شعبے کو شامل کرنے کی کوشش حکومتی کی جانب سے جاری ہے۔ اس ادارے کا یہ بھی کہنا ہے کہ بیجنگ حکومت کو یقین ہے کہ یہ سوشل کریڈٹ سسٹم بتدریج کئی معاشی و معاشرتی خرابیوں کے مناسب حل کا باعث بھی بن سکتا ہے۔
میریکس کے مطابق چین کے کسی بھی حلقے کی جانب سے اس تجرباتی نظام پر کوئی تنقید سامنے نہیں آئی ہے کیونکہ وہ اس نظام کے حوالے سے مناسب آگہی نہیں رکھتے۔ اسی طرح سرکاری یا نجی سطح پر اس کی ضرورت کے حوالے سے کبھی کوئی بات نہیں کی گئی ہے۔
میریکس کی ریسرچ سے ظاہر ہوتا ہے کہ سوشل کریڈٹ سسٹم پر بات کرتے ہوئے اس کے تکنیکی مسائل پر ضرور غور کیا جاتا ہے اور خدشات سامنے آئے ہیں کہ اس کی کامیابی میں ٹیکنیکل پیچیدگیاں حائل ہیں اور اس میں سب سے اہم یہ ہے کہ نجی معلومات کو نجی کمپنیوں کے ہاتھ میں کتنی دیر رکھا جائے گا۔
چین کے حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پانچ جملے
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے چبھتے ہوئے بیانات کے لیے خاص شہرت رکھتے ہیں۔ ایسے ہی کچھ جملے انہوں نے چین کے لیے بھی کہے۔ ’چین نے امریکا کو تباہ کر دیا‘ کے بیان سے لے کر ’ آئی لو یو چائنہ‘ تک ٹرمپ کے تبصرے رنگا رنگ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Harnik
’ آئی لو یو چائنہ‘
سن دو ہزار سولہ میں امریکی صدر کا منصب سنبھالنے کے فوراﹰ بعد ہی ٹرمپ نے ایک امریکی نشریاتی ادارے کو بتایا تھا،’’ مجھے چین سے محبت ہے۔‘‘ لیکن جہاں تک بیجنگ حکومت سے متعلق اُن کے تبصروں کا تعلق ہے تو وہ کبھی مثبت نہیں رہے۔
تصویر: picture-alliance/AP/A. Harnik
’ چین ہمارے ملک کا ریپ کر رہا ہے‘
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا چین تعلقات کو بیان کرتے ہوئے ہمیشہ سخت زبان کا استعمال کیا ہے۔
اپنی صدارتی مہم کے دوران ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا تھا،’’ ہم چین کو اپنا ملک برباد کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے جو وہ کر رہا ہے۔‘‘
تصویر: Feng Li/AFP/GettyImages
’کوریا دراصل چین کا حصہ ہوا کرتا تھا‘
رواں برس اپریل میں چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ ملاقات کے بعد وال اسٹریٹ جرنل کو ایک انٹرویو میں صدر ٹرمپ نے کہا،’’ آپ جانتے ہیں کہ چین اور کوریا کی تاریخ ہزاروں سال اور کئی جنگوں پر محیط ہے۔ کوریا دراصل چین کا حصہ ہوا کرتا تھا۔‘‘
تصویر: picture-alliance/AP Photo/N. H. Guan
‘انہیں میکڈونلڈز لے جائیں‘
سن 2015 میں ایک ریلی سے خطاب میں ٹرمپ نے کہا،’’ اگر آپ سمارٹ ہوں تو چین سے جیت سکتے ہیں لیکن ہمارے لوگوں کو اس کا پتہ نہیں ہے۔ ہم چین کے سربراہان کو سرکاری ڈنر دیتے ہیں۔ ہم انہیں اسٹیٹ ڈنر کیوں دیں؟ میں کہتا ہوں کہ انہیں میکڈونلڈز لے جائیں اور بھر دوبارہ مذاکرات کی میز پر واپس آ جائیں۔‘‘
سن دو ہزار گیارہ میں چین کی سرکاری نیوز ایجنسی شنہوا کے ساتھ ایک مبینہ انٹرویو میں ٹرمپ نے کہا،’’ میں نے چین کے بارے میں سینکڑوں کتابیں پڑھ رکھی ہیں۔ میں نے چینی لوگوں کے ساتھ بہت روپیہ بنایا ہے۔ میں چینی ذہنیت کو اچھی طرح جانتا ہوں۔‘‘ تاہم بعض افراد کا ماننا ہے کہ یہ انٹرویو کبھی ہوا ہی نہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Harnik
’ گلوبل وارمنگ کا ذمہ دار چین ہے‘
سن 2012 میں ٹرمپ نے گلوبل وارمنگ کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ چین نے امریکا کے اقتصادی مفادات کو ضرب لگانے کے لیے یہ منصوبہ بنایا ہے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا،’’ گلوبل وارمنگ کی تخلیق چین کے ہاتھوں اور چینی عوام کے لیے ہوئی تاکہ امریکی مصنوعات کو عالمی منڈیوں میں بے وقعت کیا جا سکے۔‘‘