چین کی ایک عدالت نے سویڈن کے ایک شہری اور پبلشر گوئی مِن ہائی کو مبینہ طور پر غیر قانونی انداز میں اہم معلومات کی بیرون ملک ترسیل کے الزام میں دس برس قید کی سزا سنا دی ہے۔
اشتہار
چین کی ننگ بو انٹرمیڈیٹ پیپلز عدالت کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق اس سویڈش ناشر کو دس سال کی سزائے قید سنائے جانے کے علاوہ پانچ سال کے لیے اس کے جملہ سیاسی حقوق بھی معطل کر دیے گئے ہیں۔
جرمنی میں وفاقی حکومت اور برسلز میں یورپی یونین کی قیادت دونوں نے ہی گوئی مِن ہائی کی گرفتاری اور انہیں سنائی گئی سزا پر کڑی تنقید کرتے ہوئے سویڈن کے اس شہری کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ گوئی مِن ہائی کے اہل خانہ اور حامیوں کا دعویٰ ہے کہ ان کی گرفتاری دراصل چین میں حکومت کے عوام کے خلاف جبری اقدامات کا حصہ ہے۔
گوئی مِن ہائی ہانگ کانگ کے ان پانچ ناشرین میں سے ایک ہیں، جنہیں چینی سیاسی قیادت کے بارے میں لکھی گئی تنقیدی کتابیں فروخت کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔چینی حکام نے انہیں 2018ء کے اوائل میں اس وقت گرفتارکیا تھا، جب وہ سویڈش سفارت کاروں کے ساتھ چین کے سفر پر تھے۔
گوئی مِن ہائی کو پانچ سال کے لیے ان کے 'سیاسی حقوق‘ سے بھی محروم کر دیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ چین کے کسی سرکاری ادارے کے سربراہ مقرر نہیں کیے جا سکتے اور نہ ہی کسی ریاستی ادارے میں کسی عہدے پر فائز ہو سکتے ہیں۔
سانحہ تیانمن اسکوائر کے تیس برس
چینی حکومت نے 1989ء میں جمہوریت کے حق میں نکالے جانے والے مظاہروں کو میڈیا کی نظروں سے اوجھل کرنے کی بھرپور کوشش کی تاہم AP کے فوٹو گرافر جیف وائڈنر چند دیگر صحافیوں کی طرح کچھ یادگار لمحات محفوظ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔
تصویر: Jeff Widener/AP
جمہوریت کی دیوی
چار جون کو سانحہ تیانمن اسکوائر کے تیس برس مکمل ہو گئے ہیں۔ اُسی مقام پر جہاں چار جون 1989ء کو جمہوریت نواز مظاہرین کی ایک ریلی پر کریک ڈاؤن کے نتیجے میں سینکڑوں افراد ہلاک ہو گئے تھے، وہیں فوجی دستوں نے 33 فٹ لمبے اس زیر تعیمر مسجمے کو بھی مسمار کر دیا تھا، جیسے ’جمہوریت کی دیوی‘ کا نام دیا گیا تھا۔
تصویر: Jeff Widener/AP
نغمہ سرا خاتون پولیس اہلکار
چینی سکیورٹی فورسز کے خونی کریک ڈاؤن سے قبل پُرتناؤ ماحول میں مقامی شہری فوجیوں اور پولیس اہلکاروں کو اکثر تحائف بھی پیش کرتے تھے۔ کبھی کبھار سکیورٹی اہلکار بھی مظاہرین کے ساتھ مل کر حب الوطنی پر مبنی گیت گنگنایا کرتے تھے۔ سانحہ تیانمن اسکوائر سے کچھ روز قبل ایک خاتون پولیس اہلکار مظاہرین کے ساتھ مل کر ایک ملی ترانہ گا رہی ہے۔
تصویر: Jeff Widener/AP
جدوجہد
چارجون 1989 کو سکیورٹی فورسز نے تیانمن اسکوائر پر قابض جمہوریت نواز مظاہرین کے خلاف عسکری کارروائی کرتے ہوئے اس مقام کا کنٹرول سنبھال لیا تھا۔ اس دوران سینکڑوں شہری مارے بھی گئے تھے۔ اس عسکری کارروائی سے ایک روز قبل پولیس اہلکار ایک خاتون کو گرفتار کرتے ہوئے۔ بعد ازاں اُسی رات فوج نے تیانمن اسکوائر پر جمع مظاہرین پر بلا تخصیص فائرنگ شروع کر دی تھی۔
تصویر: Jeff Widener/AP
چھینے ہوئے ہتھیار
تیانمن اسکوائر پر فوجی کارروائی سے کچھ دن قبل لی گئی ایک تصویر۔ جمہوریت نواز مظاہرین سکیورٹی اہلکاروں سے چھینے گئے ہتھیاروں کی نمائش کر رہے ہیں۔ ایک بس کی چھت پر رکھے گئے ان ہتھیاروں کو دیکھنے کے لیے ہزاروں مظاہرین وہاں جمع ہیں۔
تصویر: Jeff Widener/AP
جمہوریت کی خاطر جنگ
تین جون کی رات ’گریٹ ہال آف دی پیپل‘ کے مرکزی دروازے کے سامنے ایک بکتر بند فوجی گاڑی پر موجود مظاہرین۔ مظاہرین کی طرف سے تیانمن اسکوائر پر لگائی گئی رکاوٹوں کو اسی گاڑی نے روند ڈالا تھا۔ اس وقت کسی کو معلوم نہیں تھا کہ چینی فوجی مظاہرین پر براہ راست فائرنگ کرنے کی تیاری میں تھے۔
تصویر: Jeff Widener/AP
جلتی ہوئی بکتر بند گاڑی
تین جون کی رات کو ہی جمہوریت نواز مظاہرین نے تیانمن اسکوائر کے نواح میں واقع چنگ اَن ایونیو میں ایک فوجی گاڑی کو نذر آتش کر دیا تھا۔ فوٹو گرافر جیف وائڈنر کی طرف سے لی گئی یہ آخری تصویر تھی، جس کے بعد ان کے چہرے پر ایک پتھر آن لگا تھا اور وہ بے ہوش ہو گئے تھے۔
تصویر: Jeff Widener/AP
کریک ڈاؤن
چار جون کو پیپلز لبریشن آرمی کے فوجی بیجنگ ہوٹل کے بالکل سامنے واقع چنگ اَن ایونیو میں گشت کرتے ہوئے۔ اُس وقت تک طالب علموں کی طرف سے جمہوریت کے حق میں کیے جانے والے مظاہروں کو کچلا جا چکا تھا۔ اُسی دن فوج نے بیجنگ ہوٹل کی لابی میں کھڑے ہوئے سیاحوں پر بھی فائرنگ کی تھی۔
تصویر: Jeff Widener/AP
ٹینکوں کے سامنے کھڑا تنہا شخص
خونی کریک ڈاؤن کے ایک دن بعد ہی ہاتھوں میں شاپنگ بیگز تھامے ایک نامعلوم شخص نے چنگ اَن ایونیو میں ٹینکوں کو عارضی طور پر آگے بڑھنے سے روک دیا تھا۔ پچیس سال گزر جانے کے بعد بھی یہ شخص ایک معمہ بنا ہوا ہے اور اس کے بارے میں کوئی خبر نہیں کہ یہ کون تھا اور اب کہاں ہے۔ اس سانحے کے دوران لی جانے والی تصاویر میں یہ ایک انتہائی مقبول تصویر شمار کی جاتی ہے۔
تصویر: Jeff Widener/AP
ہیروز، جو ہلاک ہو گئے
پانچ جون 1989ء کو چنگ اَن ایونیو میں جمع ہونے والے افراد ایک روز قبل ہونے والے خونی کریک ڈاؤن کے نتیجے میں ہلاک ہو جانے والے مظاہرین کی تصاویر دکھا رہے ہیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے مطابق اس کریک ڈاؤن کے نتیجے میں کم ازکم تین سو افراد ہلاک ہوئے تھے۔
تصویر: Jeff Widener/AP
خاکروب
چار جون کے سانحے کے ایک روز بعد چنگ اَن ایونیو پر صفائی کا کام کیا جا رہا ہے۔ مظاہروں کے دوران وسیع پیمانے پر بسوں اور فوجی گاڑیوں کو نذر آتش کیا گیا تھا، جس کے نتیجے میں متعدد فوجی ہلاک یا زخمی بھی ہوئے تھے۔
تصویر: Jeff Widener/AP
ماؤ کی ’حفاظت‘
جمہوریت کے حق میں شروع ہونے والے مظاہروں کے بعد تیانمن اسکوائر پر فوجی اور ٹینک تعینات کر دیے گئے تھے۔
تصویر: Jeff Widener/AP
’شہرِ ممنوعہ‘
بیجنگ کے وسطی علاقے ’شہر ممنوعہ‘ میں لی گئی ایک تصویر، جس میں اے پی کے فوٹو گرافر جیف وائڈنر (بائیں) اور لِیو ہیونگ ِشنگ مسکراتے نظر آ رہے ہیں۔ یہ بھی بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح بے خبر تھے کہ کچھ دن بعد ہی چینی فورسز طاقت کے بل پر جمہوریت نواز مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے والی ہیں۔
تصویر: Jeff Widener/AP
12 تصاویر1 | 12
دوسر ی مرتبہ جیل میں
گوئی مِن ہائی اس سے پہلے بھی چین میں دو برس جیل کاٹ چکے ہیں۔انہیں 2015ء میں اس وقت بھی گرفتار کر لیا گیا تھا، جب وہ تھائی لینڈ میں چھٹیاں گزارنے کے دوران 'لاپتہ‘ ہوگئے تھے۔ بعد میں جب وہ چین میں منظر عام پر آئے، تو انہوں نے اپنے ایک جان لیوا حادثے اور کتابوں کی غیر قانونی اسمگلنگ میں ملوث ہونے کا اعتراف کر لیا تھا۔
چین اور تائیوان: بظاہر دو بہترین دشمن؟
چینی صدر شی جن پنگ نے زور دیا ہے کہ چین اور تائیوان کا ’پرامن اتحاد‘ ہونا چاہیے، جس پر تائیوان کی طرف سے شدید ردعمل ظاہر کیا گیا ہے۔ تائیوان کا معاملہ ہے کیا؟ آئیے ان تصاویر کے ذریعے اسے ذرا سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
تصویر: AFP/AFP/Getty Images
قبضے اور آزادی کی کشمکش
دوسری عالمی جنگ کے بعد ماؤزے تنگ نے کیمونسٹ پارٹی آف چائنا کے پرچم تلے سیاسی حریف چیانگ کائی شیک سے اقتدار چھیننے کی کوشش کی۔ کومنتانگ پارٹی کے سربراہ کائی شیک اس لڑائی میں ناکام ہوئے اور ایک چھوٹے سے جزیرے تائیوان پر فرار ہو گئے۔ تب تائیوان کا جزیرہ اطراف کے مابین پراپیگنڈے کا مرکز بن گیا۔ کیمونسٹ پارٹی تائیوان کو ’آزاد‘ کرانا چاہتی تھی جبکہ کومنتانگ ’مین لینڈ چین پر دوبارہ قبضہ‘ کرنا چاہتی تھی۔
تصویر: AFP/Getty Images
ہم وطنوں کے لیے پیغامات
پچاس کی دہائی میں کیمونسٹ پارٹی آف چائنا نے تائیوان میں سکونت پذیر چینی ہم وطنوں کو چار پیغامات ارسال کیے۔ یہی پیغامات دراصل چین کی تائیوان سے متعلق ریاستی پالیسی کی بنیاد قرار دیے جاتے ہیں۔ تب بیجنگ نے تائیوان کو خبردار کیا تھا کہ وہ ’سامراجی طاقت‘ امریکا سے گٹھ جوڑ نہ کرے۔ اس دور میں اطراف کے ایک دوسرے پر توپ خانے سے حملے بھی جاری رہے۔
تصویر: Imago/Zuma/Keystone
اقوام متحدہ میں تائی پے کی جگہ بیجنگ
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے سن 1971 میں تسلیم کر لیا کہ عوامی جمہوریہ چین کی حکومت ہی اس ملک کی جائز نمائندہ حکومت ہے۔ یوں جمہوریہ چین ROC (تائیوان) کو اقوام متحدہ کے تمام اداروں سے بےدخل کر دیا گیا۔ اس تصویر میں جمہوریہ چین کہلانے والے تائیوان کے اس دور کے وزیر خارجہ چاؤ شو کائی اور سفیر لیو چی کی پریشانی اور مایوسی نمایاں ہے۔
تصویر: Imago/ZUMA/Keystone
تائیوان کی نئی پالیسی
چین کی طرف سے تائیوان کو آخری پیغام یکم جنوری سن 1979 کو ارسال کیا گیا تھا۔ تب کیمونسٹ پارٹی کے رہنما دینگ سیاؤپنگ نے جنگی کارروائیوں کو ترک کر دیا تھا اور تائیوان کے ساتھ باہمی تعلقات میں بہتری کا اعلان کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ تائیوان کے ساتھ پرامن اتحاد کی کوشش کریں گے۔ تاہم تائیوان کی طرف سے عالمی سطح پر چین کی نمائندگی کے حق کو چیلنج نہیں کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/UPI
’ون چائنا‘ پالیسی
چین اور امریکا کی قربت کے باعث بیجنگ حکومت کی تائیوان سے متعلق پالیسی میں جدت پیدا ہوئی۔ یکم جنوری سن 1979 کو ہی چین اور امریکا کے سفارتی تعلقات بحال ہوئے۔ تب امریکی صدر جمی کارٹر نے تسلیم کر لیا کہ پورے چین کی نمائندہ اور جائز حکومت بیجنگ میں ہی ہے۔ تب تائیوان میں امریکی سفارتخانے کو ایک ثقافتی مرکز کی حیثیت دے دی گئی تھی۔
تصویر: AFP/AFP/Getty Images
ایک چین دو نظام
امریکی صدر جمی کارٹر سے ملاقات سے قبل ہی چینی رہنما دینگ سیاؤپنگ نے ’ایک ملک اور دو نظام‘ کی پالیسی متعارف کرائی، جس میں تائیوان کو اجازت دی گئی کہ وہ اپنا سوشل سسٹم برقرار رکھے اور چین کے ساتھ اتحاد کے بعد بھی بے شک اس پر عمل پیرا رہے۔ تاہم اس وقت کے تائیوانی صدر چیانگ چینگ کاؤ فوری طور پر اس تجویز سے متفق نہ ہوئے۔ لیکن پھر سن 1987 میں انہوں نے ’بہتر نظام کے لیے ایک چین‘ کے اصول کی حمایت کر دی۔
تصویر: picture-alliance/Everett Collection
آزادی کی تحریک
سن 1986 میں تائیوان کی پہلی اپوزیشن سیاسی جماعت ڈیموکریٹک پروگریسیو پارٹی DPP معرض وجود میں آئی۔ سن 1991 میں اس اپوزیشن پارٹی نے تائیوان کی آزادی کا نعرہ بلند کیا۔ اس پارٹی کے منشور میں شامل تھا کہ تائیوان ایک خود مختار ریاست ہے، جو چین کا حصہ نہیں ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Yeh
’سن بانوے کا اتفاق‘
سن 1992 میں تائی پے اور بیجنگ کے مابین ہانگ کانگ میں ایک غیر رسمی ملاقات میں باہمی تعلقات کے حوالے سے ایک سیاسی معاہدہ طے پایا۔ ’سن بانوے کے اتفاق رائے‘ کے نام سے مشہور اس معاہدے کے تحت اطراف نے ایک چین کی پالیسی پر اتفاق تو کر لیا لیکن اس تناظر میں دونوں کی تشریحات میں فرق نمایاں رہا۔ اس کے ایک سال بعد دونوں کے اعلیٰ ترین مذاکراتی نمائندوں وانگ (دائیں) اور کو نے سنگاپور میں ایک اور ملاقات کی تھی۔
تصویر: Imago/Xinhua
باہمی تعلقات
تائیوان کے اولین جمہوری صدر اور KMT کے رہنما لی ٹینگ ہوئی نے سن 1995 میں ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تائیوان سے باہر کسی بھی ملک سے باہمی تعلقات کی نوعیت ایسی ہو گی جیسی کہ دو ریاستوں کے مابین ہوتی ہے۔ ان کا یہ بیان بیجنگ سے آزادی کے اعلان سے انتہائی قریب تصور کیا گیا تھا۔
تصویر: Academia Historica Taiwan
تائیوان میں اپوزیشن کی جیت
تائیوان کی اپوزیشن ڈیموکریٹک پروگریسیو پارٹی DPP نے سن 2000 کے صدارتی الیکشن میں کامیابی حاصل کر لی۔ تب تائیوان میں ہی پیدا ہونے والے شین شوئی بیَان صدر کے عہدے پر فائز ہوئے، جن کا مین لینڈ چین کے ساتھ کبھی کوئی تعلق نہیں رہا تھا۔ یوں تائیوان میں کومنتانگ پارٹی کی پچپن سالہ حکومت کا خاتمہ ہوا۔ اس سیاسی تبدیلی کا مطلب یہ لیا گیا کہ اب تائیوان کا چین سے کچھ لینا دینا نہیں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/Jerome Favre
’ایک چین‘ کی مختلف تشریحات
سن 2000 کے الیکشن میں ناکامی کے بعد کومنتانگ پارٹی نے ’سن بانوے کے اتفاق رائے‘ کے حوالے سے اپنے نظریات میں ترمیم کر لی۔ اسی سبب ’ون چائنا پالیسی کی مختلف تشریحات‘ سے متعلق یہ معاہدہ تائیوان میں آج بھی زیربحث ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ سن انیس سو بانوے میں ہونے والے مذاکرات میں کوئی باضابطہ سرکاری موقف واضح نہیں کیا گیا تھا۔
تصویر: Imago/ZumaPress
کیمونسٹ پارٹی اور کومنتانگ پارٹی کے رابطے
بیجنگ حکومت ’سن بانوے کے اتفاق رائے‘ کو تائیوان کے ساتھ تعلقات کی سیاسی اساس قرار دیتی ہے۔ چین میں کیمونسٹ پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد اطراف کے مابین ہوئی پہلی سمٹ میں چینی صدر ہو جن تاؤ (دائیں) اور لیان زہان نے ’سن بانوے کے اتفاق رائے‘ کی بھرپور حمایت کی اور ’ون چائنا پالیسی‘ کو بنیادی اصول تسلیم کر لیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Reynolds
’سمت درست ہے‘
تائیوان میں سن 2008 کے صدارتی الیکشن میں کامیابی کے بعد کومنتانگ پارٹی دوبارہ اقتدار میں آ گئی۔ سن 2009 میں تائیوانی صدر ما ینگ جیو نے ڈی ڈبلیو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ تائیوان امن اور سکیورٹی کی ضمانت ہونا چاہیے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ تائی پے اس مقصد کے حصول کے انتہائی قریب پہنچ چکا ہے اور بنیادی طور پر ’ہماری سمت درست ہے‘۔
تصویر: GIO
تائیوان کے لیے سب سے بڑا چیلنج
سن 2016 کے صدارتی الیکشن میں سائی انگ وین کو کامیابی ملی تو تائیوان (جمہوریہ چین) میں آزادی کی تحریک میں ایک نیا جوش پیدا ہوا۔ سائی انگ وین ’سن بانوے کے اتفاق‘ کو متنازعہ قرار دیتی ہیں۔ ان کے خیال میں دراصل یہ ڈیل تائیوان میں چینی مداخلت کا باعث ہے۔ سائی انگ وین نے چینی صدر کی طرف سے تائیوان کے چین ساتھ اتحاد کے بیان پر بھی بہت سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔
تصویر: ROC
14 تصاویر1 | 14
سویڈن نے گوئی مِن ہائی کی رہائی کے لیے چین سے متعدد مرتبہ اپیل بھی کی تھی۔ گوئی کو اظہار رائے کی آزادی کے فروغ کے لیے سرگرم تنظیم پین انٹرنیشنل نے 2019ء میں ایک ایوارڈ بھی دیا تھا۔ تاہم چین نے انہیں یہ اعزاز دیے جانے کی مذمت کی تھی۔
سن 2015 میں گوئی مِن ہائی کے لاپتہ ہو جانے کے تین ہفتے بعد چین نے ایک ویڈیو جاری کی تھی، جس میں انہیں مبینہ طور پر اپنی ’غلطیوں کا اعتراف‘ کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ اس ویڈیو میں انہیں اپنے کیس کو سنسنی خیز بنانے اور قانون شکنی کے لیے اکسانے کے خاطر سویڈن کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ گوئی کے دوست اور شاعر بی لِنگ کا کہنا ہے کہ انہوں نے غالباً دباؤ میں آ کر یہ اعتراف کیے تھے۔
چین کی ایک عدالت نے منگل 25 فروری کو جاری کردہ اپنے ایک بیان میں کہا کہ گوئی مِن ہائی کی چینی شہریت 2018ء میں بحال کر دی گئی تھی۔
عدالت کے مطابق یہ بات لیکن واضح نہیں کہ آیا انہوں نے اپنی سویڈش شہریت ترک کر دی ہے یا نہیں۔ چین میں قانوناﹰ دوہری شہریت رکھنے کی اجازت نہیں ہے اور غیر ملکیوں کو چینی شہریت حاصل کرنے کے لیے اپنی غیر ملکی شہریت ترک کرنا پڑتی ہے۔ عدالت کی طرف سے یہ بھی کہا گہا کہ گوئی مِن ہائی سزائے قید کے اس فیصلے کے خلاف کوئی اپیل نہیں کریں گے۔
ج ا / م م (اے ایف پی، روئٹرز)
چین کی ہوئی یا خُوذُو مسلم اقلیت
چین میں ایغور مسلم کمیونٹی کے علاوہ شمال مغربی چین میں خُوذُو مسلم اقلیت بھی آباد ہے۔ ان کی آبادی ایک کروڑ سے زائد ہے۔ یہ زیادہ تر ننگ شا، گانسُو اور چنگ ہائی علاقوں میں آباد ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
خوذو مسلمانوں کا شہر لِنشیا، چھوٹا مکہ
ہُوئی یا خُوذُو مسلمان اکثریتی شہر لِنشیا کو ’چھوٹا مکہ‘ کے نام سے چین میں شہرت حاصل ہے۔ اس شہر میں چھوٹی بڑی 80 مساجد واقع ہے۔ یہ شہر دریائے ڈاشیا کے کنارے پر آباد ہے۔ ایغور مسلم دانشور خُوذُو مسلم کمیونٹی کو چین کی ہان نسل کے مسلمان قرار دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
لِنشیا میں عورتیں سر پر سکارف پہنتی ہیں
خوذو مسلم خواتین خاصی متحرک اور فعال تصور کی جاتی ہیں۔ بڑی عمر کی عورتوں میں سفید اسکارف پہننا عام طور پر دیکھا گیا ہے۔ ان کا اسکارف چینی انداز کا ہوتا ہے۔ اب کئی نوجوان لڑکیوں میں ایسے جدید پہناوے پسند کیے جاتے ہیں، جن سے برہنگی ظاہر نہ ہو۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
لِنشیا: سبز گنبدوں والا شہر
گانسو صوبے کا شہر لِنشیا ڈھائی لاکھ سے زائد آبادی کا شہر ہے۔ اس کی اکثریتی آبادی چینی زبان بولنے والے خُوذُو مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ اس شہر کی مساجد ہر جمعے کے دن نمازیوں سے بھری ہوتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
نوجوان لڑکیوں کے لیے قرآنی تعلیم کا سلسلہ
خُوذُو مسلمان کمیونٹی اپنی مساجد میں خاص طور پر مذہبی کتاب قرآن کی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان مساجد میں نوعمر لڑکیوں کو بھی قرآن پڑھایا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Wong
خوذو مسلمان
چین میں دس بڑے نسلی گروپوں میں خوذو یا ہوئی مسلمان بھی شمار ہوتے ہیں۔ یہ زیادہ تر چین کے اقتصادی طور پر کمزو علاقے میں آباد ہیں۔ اس علاقے میں تعلیم بھی اتنی عام نہیں جتنی بقیہ چینی شہروں میں ہے۔ یہ ایغور نسل کے مسلمان نہیں تصور کیے جاتے۔ تصویر میں ایک قصبےوُوہژونگ کی مسجد میں شام کی نماز ادا کی جا رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Weiken
خواتین میں دینی شعار کا شوق
نوجوان لڑکیاں مختلف رنگوں کے اسکارف پہنتی ہیں۔ مساجد میں پہنچ پر قرآن کی تلاوت کرنا بھی خُوذُو یا ہُوئی خواتین کو پسند ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Reynolds
چینی صدر کا خُوذُو مسلمانوں کی مسجد کا دورہ
چین کے صدر شی جن پنگ نے سن 2016 میں نِنگ شا کے علاقے یِن چوان کی ایک مسجد کا دورہ کیا تھا۔ مسجد میں پہنچ کر انہوں نے مقامی ہُوئی مسلمانوں سے ملاقات کے ساتھ ساتھ اُن کے عمومی مسائل پر گفتگو کی۔ چینی صدر تین دن تک نِنگ شا میں مقیم رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA Press/J. Peng
نِنگ شا کا نیم خود مختار علاقہ
چین کے شمال مغرب میں واقع ننگ شا کے نیم خود مختار علاقے کا فضائی منظر۔ یہ علاقہ پہاڑوں میں گھِرا ہوا ہے اور چین کے پسماندہ علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس علاقے کی زمینیں بنجر ہیں اور قحط سالی بھی چلتی رہتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شرح بیروزگاری بھی معمول سے زیادہ رہی ہے۔ حالیہ کچھ عرصے میں بیجنگ حکومت نے اس علاقے پر توجہ مرکوز کی ہے اور اب واضح معاشی تبدیلیاں ظاہر ہونا شروع ہو گئی ہیں۔