چین میں شادی شدہ جوڑوں کو اب تین بچوں کی پیدائش کی اجازت
31 مئی 2021
دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک چین میں کم تر شرح پیدائش اور آبادی کے بوڑھا ہوتے جانے کے سبب شادی شدہ جوڑوں کو اب تین بچوں تک کی پیدائش کی اجازت دے دی گئی ہے۔ چین میں ’ون چائلڈ پالیسی‘ تقریباﹰ چار عشروں تک نافذ رہی۔
اشتہار
عوامی جمہوریہ چین میں حال ہی میں سامنے آنے والے گزشتہ مردم شماری کے نتائج کے مطابق ملکی آبادی میں بزرگ شہریوں کا تناسب تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے اور نوجوان شہریوں میں بچے پیدا کرنے کا رجحان بھی بہت کم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سرکاری میڈیا نے آج پیر اکتیس مئی کے روز بتایا کہ اب حکومت نے ماضی کی 'ون چائلڈ پالیسی‘ میں مزید نرمی کا فیصلہ کیا ہے اور عام جوڑوں کو اب تین بچوں تک کی پیدائش کی قانونی اجازت دے دی گئی ہے۔
دنیا کی سخت ترین فیملی پلاننگ پالیسی
تقریباﹰ چار عشروں تک نافذ رہنے والی 'صرف ایک بچے کی پیدائش کی سرکاری پالیسی‘ اس لیے کافی متنازعہ تھی کہ بیجنگ حکومت نے اس پر عمل درآمد کے لیے سخت ترین ضوابط متعارف کر رکھے تھے۔ یہ ضابطے دنیا میں اپنی نوعیت کے سخت ترین فیملی پلاننگ ضوابط تصور کیے جاتے تھے۔
2016ء میں حکومت نے پہلی مرتبہ اس پالیسی میں نرمی کی اور شادی شدہ جوڑوں کو دو بچوں تک کی پیدائش کی اجازت دے دی گئی تھی۔ اب لیکن ان ضوابط میں مزید نرمی کرتے ہوئے عام جوڑوں کو تین بچوں تک کی پیدائش کی اجازت دے دی گئی ہے۔
بیجنگ سے ملنے والی مختلف خبر رساں اداروں کی رپورٹوں کے مطابق چینی حکومت نے اب عام شہریوں کو زیادہ بچے پیدا کرنے کی قانونی اجازت دینے کا فیصلہ اس لیے کیا ہے کہ آئندہ برسوں اور عشروں میں کم تر شرح پیدائش اور معاشرے میں بزرگ شہریوں کے تناسب میں بہت زیادہ اضافے کے نتیجے میں افراد قوت میں کمی اور ممکنہ اقتصادی جمود سے بچا جا سکے۔
بیجنگ حکومت نے یہ فیصلہ اس لیے بھی کیا کہ چین کے قومی دفتر شماریات کے گزشتہ ماہ جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق سال 2020ء میں پورے ملک میں صرف 12 ملین بچے پیدا ہوئے تھے اور نومولود بچوں کی یہ مجموعی سالانہ تعداد ریکارڈ حد تک کم تھی۔
اشتہار
موجودہ شرح سے آبادی میں واضح کمی کا خطرہ
چین کے سرکاری خبر رساں ادارے شنہوا نے پیر کے روز بتایا کیہ ملکی صدر شی جن پنگ کی صدارت میں ملک میں حکمران کمیونسٹ پارٹی کی اعلیٰ اختیاراتی پولٹ بیورو کی قیادت کے ایک اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ ملکی آبادی کے بوڑھا ہوتے جانے کا حل یہ ہے کہ عام شادی شدہ جوڑوں کو فی کس تین بچوں تک کی پیدائش کی اجازت دے دی جائے۔
چینی صدر شی جن پنگ نے زور دیا ہے کہ چین اور تائیوان کا ’پرامن اتحاد‘ ہونا چاہیے، جس پر تائیوان کی طرف سے شدید ردعمل ظاہر کیا گیا ہے۔ تائیوان کا معاملہ ہے کیا؟ آئیے ان تصاویر کے ذریعے اسے ذرا سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
تصویر: AFP/AFP/Getty Images
قبضے اور آزادی کی کشمکش
دوسری عالمی جنگ کے بعد ماؤزے تنگ نے کیمونسٹ پارٹی آف چائنا کے پرچم تلے سیاسی حریف چیانگ کائی شیک سے اقتدار چھیننے کی کوشش کی۔ کومنتانگ پارٹی کے سربراہ کائی شیک اس لڑائی میں ناکام ہوئے اور ایک چھوٹے سے جزیرے تائیوان پر فرار ہو گئے۔ تب تائیوان کا جزیرہ اطراف کے مابین پراپیگنڈے کا مرکز بن گیا۔ کیمونسٹ پارٹی تائیوان کو ’آزاد‘ کرانا چاہتی تھی جبکہ کومنتانگ ’مین لینڈ چین پر دوبارہ قبضہ‘ کرنا چاہتی تھی۔
تصویر: AFP/Getty Images
ہم وطنوں کے لیے پیغامات
پچاس کی دہائی میں کیمونسٹ پارٹی آف چائنا نے تائیوان میں سکونت پذیر چینی ہم وطنوں کو چار پیغامات ارسال کیے۔ یہی پیغامات دراصل چین کی تائیوان سے متعلق ریاستی پالیسی کی بنیاد قرار دیے جاتے ہیں۔ تب بیجنگ نے تائیوان کو خبردار کیا تھا کہ وہ ’سامراجی طاقت‘ امریکا سے گٹھ جوڑ نہ کرے۔ اس دور میں اطراف کے ایک دوسرے پر توپ خانے سے حملے بھی جاری رہے۔
تصویر: Imago/Zuma/Keystone
اقوام متحدہ میں تائی پے کی جگہ بیجنگ
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے سن 1971 میں تسلیم کر لیا کہ عوامی جمہوریہ چین کی حکومت ہی اس ملک کی جائز نمائندہ حکومت ہے۔ یوں جمہوریہ چین ROC (تائیوان) کو اقوام متحدہ کے تمام اداروں سے بےدخل کر دیا گیا۔ اس تصویر میں جمہوریہ چین کہلانے والے تائیوان کے اس دور کے وزیر خارجہ چاؤ شو کائی اور سفیر لیو چی کی پریشانی اور مایوسی نمایاں ہے۔
تصویر: Imago/ZUMA/Keystone
تائیوان کی نئی پالیسی
چین کی طرف سے تائیوان کو آخری پیغام یکم جنوری سن 1979 کو ارسال کیا گیا تھا۔ تب کیمونسٹ پارٹی کے رہنما دینگ سیاؤپنگ نے جنگی کارروائیوں کو ترک کر دیا تھا اور تائیوان کے ساتھ باہمی تعلقات میں بہتری کا اعلان کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ تائیوان کے ساتھ پرامن اتحاد کی کوشش کریں گے۔ تاہم تائیوان کی طرف سے عالمی سطح پر چین کی نمائندگی کے حق کو چیلنج نہیں کیا گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/UPI
’ون چائنا‘ پالیسی
چین اور امریکا کی قربت کے باعث بیجنگ حکومت کی تائیوان سے متعلق پالیسی میں جدت پیدا ہوئی۔ یکم جنوری سن 1979 کو ہی چین اور امریکا کے سفارتی تعلقات بحال ہوئے۔ تب امریکی صدر جمی کارٹر نے تسلیم کر لیا کہ پورے چین کی نمائندہ اور جائز حکومت بیجنگ میں ہی ہے۔ تب تائیوان میں امریکی سفارتخانے کو ایک ثقافتی مرکز کی حیثیت دے دی گئی تھی۔
تصویر: AFP/AFP/Getty Images
ایک چین دو نظام
امریکی صدر جمی کارٹر سے ملاقات سے قبل ہی چینی رہنما دینگ سیاؤپنگ نے ’ایک ملک اور دو نظام‘ کی پالیسی متعارف کرائی، جس میں تائیوان کو اجازت دی گئی کہ وہ اپنا سوشل سسٹم برقرار رکھے اور چین کے ساتھ اتحاد کے بعد بھی بے شک اس پر عمل پیرا رہے۔ تاہم اس وقت کے تائیوانی صدر چیانگ چینگ کاؤ فوری طور پر اس تجویز سے متفق نہ ہوئے۔ لیکن پھر سن 1987 میں انہوں نے ’بہتر نظام کے لیے ایک چین‘ کے اصول کی حمایت کر دی۔
تصویر: picture-alliance/Everett Collection
آزادی کی تحریک
سن 1986 میں تائیوان کی پہلی اپوزیشن سیاسی جماعت ڈیموکریٹک پروگریسیو پارٹی DPP معرض وجود میں آئی۔ سن 1991 میں اس اپوزیشن پارٹی نے تائیوان کی آزادی کا نعرہ بلند کیا۔ اس پارٹی کے منشور میں شامل تھا کہ تائیوان ایک خود مختار ریاست ہے، جو چین کا حصہ نہیں ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Yeh
’سن بانوے کا اتفاق‘
سن 1992 میں تائی پے اور بیجنگ کے مابین ہانگ کانگ میں ایک غیر رسمی ملاقات میں باہمی تعلقات کے حوالے سے ایک سیاسی معاہدہ طے پایا۔ ’سن بانوے کے اتفاق رائے‘ کے نام سے مشہور اس معاہدے کے تحت اطراف نے ایک چین کی پالیسی پر اتفاق تو کر لیا لیکن اس تناظر میں دونوں کی تشریحات میں فرق نمایاں رہا۔ اس کے ایک سال بعد دونوں کے اعلیٰ ترین مذاکراتی نمائندوں وانگ (دائیں) اور کو نے سنگاپور میں ایک اور ملاقات کی تھی۔
تصویر: Imago/Xinhua
باہمی تعلقات
تائیوان کے اولین جمہوری صدر اور KMT کے رہنما لی ٹینگ ہوئی نے سن 1995 میں ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تائیوان سے باہر کسی بھی ملک سے باہمی تعلقات کی نوعیت ایسی ہو گی جیسی کہ دو ریاستوں کے مابین ہوتی ہے۔ ان کا یہ بیان بیجنگ سے آزادی کے اعلان سے انتہائی قریب تصور کیا گیا تھا۔
تصویر: Academia Historica Taiwan
تائیوان میں اپوزیشن کی جیت
تائیوان کی اپوزیشن ڈیموکریٹک پروگریسیو پارٹی DPP نے سن 2000 کے صدارتی الیکشن میں کامیابی حاصل کر لی۔ تب تائیوان میں ہی پیدا ہونے والے شین شوئی بیَان صدر کے عہدے پر فائز ہوئے، جن کا مین لینڈ چین کے ساتھ کبھی کوئی تعلق نہیں رہا تھا۔ یوں تائیوان میں کومنتانگ پارٹی کی پچپن سالہ حکومت کا خاتمہ ہوا۔ اس سیاسی تبدیلی کا مطلب یہ لیا گیا کہ اب تائیوان کا چین سے کچھ لینا دینا نہیں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/Jerome Favre
’ایک چین‘ کی مختلف تشریحات
سن 2000 کے الیکشن میں ناکامی کے بعد کومنتانگ پارٹی نے ’سن بانوے کے اتفاق رائے‘ کے حوالے سے اپنے نظریات میں ترمیم کر لی۔ اسی سبب ’ون چائنا پالیسی کی مختلف تشریحات‘ سے متعلق یہ معاہدہ تائیوان میں آج بھی زیربحث ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ سن انیس سو بانوے میں ہونے والے مذاکرات میں کوئی باضابطہ سرکاری موقف واضح نہیں کیا گیا تھا۔
تصویر: Imago/ZumaPress
کیمونسٹ پارٹی اور کومنتانگ پارٹی کے رابطے
بیجنگ حکومت ’سن بانوے کے اتفاق رائے‘ کو تائیوان کے ساتھ تعلقات کی سیاسی اساس قرار دیتی ہے۔ چین میں کیمونسٹ پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد اطراف کے مابین ہوئی پہلی سمٹ میں چینی صدر ہو جن تاؤ (دائیں) اور لیان زہان نے ’سن بانوے کے اتفاق رائے‘ کی بھرپور حمایت کی اور ’ون چائنا پالیسی‘ کو بنیادی اصول تسلیم کر لیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Reynolds
’سمت درست ہے‘
تائیوان میں سن 2008 کے صدارتی الیکشن میں کامیابی کے بعد کومنتانگ پارٹی دوبارہ اقتدار میں آ گئی۔ سن 2009 میں تائیوانی صدر ما ینگ جیو نے ڈی ڈبلیو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ تائیوان امن اور سکیورٹی کی ضمانت ہونا چاہیے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ تائی پے اس مقصد کے حصول کے انتہائی قریب پہنچ چکا ہے اور بنیادی طور پر ’ہماری سمت درست ہے‘۔
تصویر: GIO
تائیوان کے لیے سب سے بڑا چیلنج
سن 2016 کے صدارتی الیکشن میں سائی انگ وین کو کامیابی ملی تو تائیوان (جمہوریہ چین) میں آزادی کی تحریک میں ایک نیا جوش پیدا ہوا۔ سائی انگ وین ’سن بانوے کے اتفاق‘ کو متنازعہ قرار دیتی ہیں۔ ان کے خیال میں دراصل یہ ڈیل تائیوان میں چینی مداخلت کا باعث ہے۔ سائی انگ وین نے چینی صدر کی طرف سے تائیوان کے چین ساتھ اتحاد کے بیان پر بھی بہت سخت ردعمل ظاہر کیا ہے۔
تصویر: ROC
14 تصاویر1 | 14
پولٹ بیورو نے یہ فیصلہ اس لیے بھی کیا کہ چین میں عام شہریوں میں اوسط شرح افزائش صرف 1.3 ہے اور اس شرح سے ملکی آبادی میں استحکام کی منزل کا حصول یقینی بنانا ناممکن ہے۔
اس وقت مجموعی آبادی 1.41 بلین
چین میں مردم شماری ہر دس سال بعد ہوتی ہے اور 2020ء کی مردم شماری کے نتائج کے مطابق ملکی آبادی 1.41 بلین یا ایک ارب اکتالیس کروڑ بنتی تھی۔
مگر اس حوالے سے تشویش کی بات یہ تھی کہ گزشتہ برس قومی آبادی میں جو اضافہ ہوا، وہ 1960 کی دہائی کے بعد سے آج تک کا سب سے کم سالانہ اضافہ تھا۔
چین کی ہوئی یا خُوذُو مسلم اقلیت
چین میں ایغور مسلم کمیونٹی کے علاوہ شمال مغربی چین میں خُوذُو مسلم اقلیت بھی آباد ہے۔ ان کی آبادی ایک کروڑ سے زائد ہے۔ یہ زیادہ تر ننگ شا، گانسُو اور چنگ ہائی علاقوں میں آباد ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
خوذو مسلمانوں کا شہر لِنشیا، چھوٹا مکہ
ہُوئی یا خُوذُو مسلمان اکثریتی شہر لِنشیا کو ’چھوٹا مکہ‘ کے نام سے چین میں شہرت حاصل ہے۔ اس شہر میں چھوٹی بڑی 80 مساجد واقع ہے۔ یہ شہر دریائے ڈاشیا کے کنارے پر آباد ہے۔ ایغور مسلم دانشور خُوذُو مسلم کمیونٹی کو چین کی ہان نسل کے مسلمان قرار دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
لِنشیا میں عورتیں سر پر سکارف پہنتی ہیں
خوذو مسلم خواتین خاصی متحرک اور فعال تصور کی جاتی ہیں۔ بڑی عمر کی عورتوں میں سفید اسکارف پہننا عام طور پر دیکھا گیا ہے۔ ان کا اسکارف چینی انداز کا ہوتا ہے۔ اب کئی نوجوان لڑکیوں میں ایسے جدید پہناوے پسند کیے جاتے ہیں، جن سے برہنگی ظاہر نہ ہو۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
لِنشیا: سبز گنبدوں والا شہر
گانسو صوبے کا شہر لِنشیا ڈھائی لاکھ سے زائد آبادی کا شہر ہے۔ اس کی اکثریتی آبادی چینی زبان بولنے والے خُوذُو مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ اس شہر کی مساجد ہر جمعے کے دن نمازیوں سے بھری ہوتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
نوجوان لڑکیوں کے لیے قرآنی تعلیم کا سلسلہ
خُوذُو مسلمان کمیونٹی اپنی مساجد میں خاص طور پر مذہبی کتاب قرآن کی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان مساجد میں نوعمر لڑکیوں کو بھی قرآن پڑھایا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Wong
خوذو مسلمان
چین میں دس بڑے نسلی گروپوں میں خوذو یا ہوئی مسلمان بھی شمار ہوتے ہیں۔ یہ زیادہ تر چین کے اقتصادی طور پر کمزو علاقے میں آباد ہیں۔ اس علاقے میں تعلیم بھی اتنی عام نہیں جتنی بقیہ چینی شہروں میں ہے۔ یہ ایغور نسل کے مسلمان نہیں تصور کیے جاتے۔ تصویر میں ایک قصبےوُوہژونگ کی مسجد میں شام کی نماز ادا کی جا رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Weiken
خواتین میں دینی شعار کا شوق
نوجوان لڑکیاں مختلف رنگوں کے اسکارف پہنتی ہیں۔ مساجد میں پہنچ پر قرآن کی تلاوت کرنا بھی خُوذُو یا ہُوئی خواتین کو پسند ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Reynolds
چینی صدر کا خُوذُو مسلمانوں کی مسجد کا دورہ
چین کے صدر شی جن پنگ نے سن 2016 میں نِنگ شا کے علاقے یِن چوان کی ایک مسجد کا دورہ کیا تھا۔ مسجد میں پہنچ کر انہوں نے مقامی ہُوئی مسلمانوں سے ملاقات کے ساتھ ساتھ اُن کے عمومی مسائل پر گفتگو کی۔ چینی صدر تین دن تک نِنگ شا میں مقیم رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA Press/J. Peng
نِنگ شا کا نیم خود مختار علاقہ
چین کے شمال مغرب میں واقع ننگ شا کے نیم خود مختار علاقے کا فضائی منظر۔ یہ علاقہ پہاڑوں میں گھِرا ہوا ہے اور چین کے پسماندہ علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس علاقے کی زمینیں بنجر ہیں اور قحط سالی بھی چلتی رہتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شرح بیروزگاری بھی معمول سے زیادہ رہی ہے۔ حالیہ کچھ عرصے میں بیجنگ حکومت نے اس علاقے پر توجہ مرکوز کی ہے اور اب واضح معاشی تبدیلیاں ظاہر ہونا شروع ہو گئی ہیں۔
تصویر: picture alliance/Xinhua News Agency
8 تصاویر1 | 8
2050ء تک پینشنرز کی تعداد ایک تہائی
آبادی سے متعلقہ امور کے چینی ماہرین کے مطابق اگر ملکی آبادی میں اضافے کی کامیاب کوششیں اب بھی نا کی گئیں، تو آئندہ چند عشروں میں روزگار کی ملکی منڈی میں کارکنوں کی کمی بڑھ کر بیسیوں ملین تک پہنچ جائے گی۔
اسی پیش رفت کا دوسرا منفی پہلو یہ ہو گا کہ 2050ء تک ممکنہ طور پر چین کی مجموعی آبادی میں پینش یافتہ بزرگ شہریوں کا تناسب بڑھ کر ایک تہائی تک ہو جائے گا۔ تب ریاست کو ان کروڑوں بزرگ شہریوں کو پینشنیں بھی ادا کرنا ہوں گی اور ان کی طبی دیکھ بھال کا انتظام بھی کرنا ہو گا۔
ماہرین کے مطابق مستقبل کے ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے معاشرے کو جو افرادی قوت درکار ہو گی، اسی کو یقینی بنانے کے لیے اب حکومت نے عام جوڑوں کو تین بچے پیدا کرنے کی قانونی اجازت دی ہے۔
م م / ک م (روئٹرز، اے پی، اے ایف پی)
اگلے بیس برسوں میں مسلمان مائیں سب سے زیادہ بچے جنم دیں گی
دنیا بھر میں اس وقت سب سے زیادہ بچے مسیحی مائیں جنم دیتی ہیں۔ لیکن امریکی ریسرچ سینٹر ’پیو‘ کے ایک تازہ ترین آبادیاتی جائزے کے مطابق آئندہ دو عشروں میں مسلمان خواتین سب سے زیادہ بچے پیدا کریں گی۔
تصویر: Reuters/Muhammad Hamed
مسیحی مائیں دوسرے نمبر پر
پیو ریسرچ سینٹر کے مطابق مسیحی باشندوں کی آبادی میں کمی کی ایک وجہ یورپ کے بعض ممالک میں شرحِ اموات کا شرحِ پیدائش سے زیادہ ہونا ہے۔ اس کی ایک مثال جرمنی ہے۔
تصویر: imago/imagebroker
مسلم آبادی میں اضافہ
پیو ریسرچ سینٹر کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق اگر عالمی آبادی میں تبدیلی کا یہ رجحان اسی طرح جاری رہا تو رواں صدی کے آخر تک دنیا بھر میں مسلمانوں کی تعداد مسیحی عقیدے کے حامل انسانوں کی مجموعی تعداد سے زیادہ ہو جائے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Johnson
مسلم اور مسیحی آبادیوں میں شرحِ پیدائش میں فرق
پیو ریسرچ سینٹر کے اعداد و شمار کے مطابق ان دونوں مذاہب کی آبادیوں میں شرح پیدائش کے لحاظ سے سن 2055 اور سن 2060 کے دوران 60 لاکھ تک کا فرق دیکھنے میں آ سکتا ہے۔ سن 2060 تک مسلمان دنیا کی مجموعی آبادی کا 31 فیصد جبکہ مسیحی 32 فیصد ہوں گے۔
تصویر: Ahmad Al-Rubaye/AFP/Getty Images
سب سے بڑی مذہبی برادری
پیو ریسرچ سینٹر کا یہ جائزہ اس کے سن 2015 میں شائع کیے گئے ایک تحقیقی جائزے ہی کی طرز پر ہے۔ سن 2015 میں اس مرکز نے کہا تھا کہ آنے والے عشروں میں مسلم آبادی دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے بڑھنے والی بڑی مذہبی برادری بن جائے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/Y. Nagori
سب سے زیادہ بچے
سن 2010 سے سن 2015 کے درمیان دنیا بھر میں جتنے بچے پیدا ہوئے، اُن میں سے 31 فیصد بچوں نے مسلمان گھرانوں میں جنم لیا تھا۔ دو سال قبل پیو سینٹر کے ایک جائزے میں بتایا گیا تھا کہ سن 2050 تک مسلمانوں اور مسیحیوں تعداد تقریباﹰ برابر ہو جائے گی۔
تصویر: Ahmad Al-Rubaye/AFP/Getty Images
دیگر مذاہب آبادی کی دوڑ میں پیچھے
ہندوؤں اور یہودیوں سمیت دیگر مذاہب کے پیروکار انسانوں کی کُل تعداد میں سن 2060 تک اضافہ تو ہو گا تاہم یہ عالمی آبادی میں تیزی سے پھیلنے والے مذاہب کے افراد کی تعداد میں اضافے کے تناسب سے کم ہو گا۔