1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین میں صدر شی جن پنگ کے خلاف غیر معمولی مظاہرے

28 نومبر 2022

چین میں کووڈ پابندیوں کی وجہ سے حکومت مخالف مظاہرے سات شہروں تک پھیل گئے ہیں۔ اس کمیونسٹ ملک میں صدر شی جن پنگ کی پالیسیوں کے خلاف یہ مظاہرے غیر معمولی اہمیت کے حامل قرار دیے جا رہے ہیں۔

China | Coronavirus - Protest in Peking gegen die Null-Covid-Politik
تصویر: Koki Kataoka/Yomiuri Shimbun/AP Photo/picture alliance

بیجنگ، شنگھائی اور ووہان سمیت سات شہروں میں ہونے والے حکومت مخالف مظاہروں میں مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ صدر شی جن پنگ اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں۔ چین میں کووڈ پابندیوں کے خلاف عوامی ردعمل شدید ہوتا جا رہا ہے۔

صدر شی جن پنگ نے کووڈ کے پھیلاؤ کو روکنے کی خاطر انتہائی سخت پالیسی اختیار کر رکھی ہے، جس کے تحت لاک ڈاؤن اور لوگوں کو گھروں تک محدود بھی کر دیا گیا ہے۔ حکومت کی کووڈ پالیسی کے خلاف 'زیرو برداشت‘ کی وجہ سے لوگوں کی اقتصادی مشکلات میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

چینی حکمران کمیونسٹ پارٹی کا ملک پر کنٹرول انتہائی سخت ہے، جہاں شخصی اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام بھی عائد کیا جاتا ہے۔ اس صورتحال میں چینی حکومت کے خلاف اس طرح کے مظاہروں کو غیر معمولی قرار دیا جا رہا ہے۔

چین کے کمرشل دارالحکومت شنگھائی میں ہونے والے ایک مظاہرے میں لوگوں نے نعرے لگائے کہ صدر شی جن پنگ اور چینی کیمونسٹ پارٹی (سی سی پی) اقتدار سے الگ ہو جائیں۔

بیجنگ میں صدر شی جن پنگ مخالف بینر

چین: صدر شی جن پنگ کی اقتدار پر گرفت ہمیشہ کے لیے مضبوط

مظاہرے میں شریک شاؤن ژی آؤ نے بتایا، ''میں اپنے وطن سے محبت کرتا ہوں، اسی لیے میں یہاں آیا ہوں۔ لیکن اب میں اپنی حکومت سے محبت نہیں کرتا۔ میں آزادانہ طور پر حرکت کرنا چاہتا ہوں لیکن حکومت کی سخت کووڈ پالیسی کی وجہ سے ایسا ممکن نہیں رہا ہے۔ اس پالیسی میں کوئی حقیقت نہیں بلکہ یہ صرف ایک ڈرامہ ہے۔‘‘

احتجاجی ریلیوں کے دوران مظاہرین نے خالی صفحے اور بینزر بھی اٹھا رکھے تھے، جو دراصل چینی سنسر شپ کے خلاف ایک علامتی احتجاج ہے۔

چین: شی جن پنگ کی اقتدار کی سیاست

02:30

This browser does not support the video element.

شنگھائی میں گرفتاریاں

میڈیا رپورٹوں کے مطابق پیر کے دن شنگھائی میں پولیس نے دو مزید مظاہرین کو گرفتار کیا ہے۔ خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پولیس نے مظاہرین کو منتشر کرنے کی کوشش بھی کی۔ اتوار کے دن بھی پولیس نے متعدد مظاہرین کو گرفتار کیا۔

لوگوں کی طرف سے بنائی گئی مظاہروں کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر گردش کر رہی ہیں لیکن چین میں ایسی ویڈیوز اور خبروں کو سنسر کیا جا رہا ہے۔

ٹوئٹر کی طرح کا مائیکرو بلاگنگ چینی سوشل میڈیا پلیٹ فارم Weibo مکمل طور پر خاموش ہے۔ اس پلیٹ فارم پر چین کا خاص کنٹرول ہے اور اس پر حکومت مخالف کسی خبر کو نشر کرنا ناممکن قرار دیا جاتا ہے۔

ایسی طلاعات ہیں کہ شنگھائی کے مرکزی بازار میں پولیس نے مظاہرین پر 'پیپر سپرے‘ بھی کیا، جس کی وجہ سے مظاہرین وہاں سے فرار ہو گئے لیکن کچھ دیر بعد وہاں پھر سے لوگوں کو ہجوم پیدا ہو گیا۔

سنکیانگ میں غیر معمولی مظاہروں کے بعد لاک ڈاؤن میں نرمی

کووڈ لاک ڈاؤن کی وجہ سے چین کی معاشی ترقی کی رفتار سست ہو گئی

ان مناظر کو فلمانے والے ایک بین الاقوامی صحافی کو گرفتار بھی کر لیا گیا۔ ایڈورڈ لارنس کا تعلق برطانوی نشریاتی ادارے سے ہے، جنہیں کئی گھنٹے گرفتار رکھنے کے بعد رہا کیا گیا۔ ایسی ویڈیوز سامنے آئی ہیں، جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ چینی پولیس نے لارنس کو زدوکوب کا نشانہ بھی بنایا۔

بیجنگ میں اسٹوڈنٹس کا اجتماع

چینی دارالحکومت بیجنگ میں بھی لوگوں نے حکومت مخالف مظاہروں میں شرکت کی۔ ان میں کالج اور یونیورسٹی کے اسٹوڈنٹس بھی شامل تھے۔ تقریبا دو ہزار طلبہ و طالبات نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ کووڈ پالیسی میں تبدیلی لائے۔

ایسی اطلاعات ہیں کہ چین بھر میں پچاس یونیورسٹیوں کے اسٹوڈنٹس ان مظاہروں میں شریک ہیں۔

اُدھر ووہان میں کئی مقامات پر ہونے والے ایسے مظاہرے اس وقت پرتشدد رنگ اختیار کر گئے، جب پولیس نے مظاہرین کے خلاف طاقت کا ناجائز استعمال کیا اور انہیں مارا پیٹا۔

چین میں گزشتہ پانچ دنوں کے دوران کووڈ کے نئے کیسوں میں اضافہ نوٹ کیا گیا ہے۔ پیر کے دن مقامی سطح پر رپورٹ ہونے والے ایسے کیسوں کی تعداد چالیس ہزار سے زائد بتائی گئی ہے۔ ایک دن قبل نئے کیسوں کی تعداد انتالیس ہزار کے لگ بھگ تھی۔

چینی حکومت نے اپنی کووڈ پالیسی کا دفاع کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ عوامی صحت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا۔

ع ب/ ا ا ( خبر رساں ادارے)

چین کے 70 برس پر ایک نظر

02:03

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں