چین میں ماحولیاتی مسائل پر قابو پانے کی کوششیں
13 اپریل 2010چين اس وقت کوئلے کے بجائے بجائے قدرتی ذرائع سے بجلی پيدا کرنےکے منصوبوں کو عملی شکل دينے ميں لگا ہوا ہے اگر وہ ان منصوبوں میں واقعی کامياب ہو جاتا ہے، تب بھی اس کے اثرات کئی عشروں کے بعد ہی محسوس کئے جاسکيں گے۔ تاہم، چين کی انتہائی تيز رفتاراقتصادی اور صنعتی ترقی کے، ماحول پر پڑنے والے مضر اثرات ابھی سے ديکھے جارہے ہيں۔ اس سلسلے ميں پانی کو ايک مرکزی حيثيت حاصل ہے۔
چين کو اس وقت انسانی تاريخ کی بدترين خشک سالی کا سامنا ہے۔ يہی نہيں، شمال کے ريتيلے طوفانوں کے اثرات ہزاروں کلوميٹر جنوب ميں ہانگ کانگ تک ميں محسوس کئے جارہے ہيں۔ صحرا، مسلسل پھيلتا جارہا ہے۔ اس کی ايک مثال شمال مغربی صوبے گانسو ميں منچين کا علاقہ ہے۔ صوبے گانسو ميں سائنسی علوم کی اکيڈمی کے سن چنگ وائی کہتے ہيں کہ صحرا کے کنارے پر واقع کئی ديہاتوں کو اس لئے خالی کرانا پڑاہے کيونکہ وہاں کنويں اور چشمے ريت سے ڈھک چکے ہيں۔ ايک گاؤں ميں تو بہت سے مکانات بھی ريت ميں دب گئے ہيں۔ ان کا کہنا تھا کہ باتيں تو بہت کی جاتی ہيں ليکن کام کم ہورہا ہے۔ اس لئےکوئی ترقی نظر نہيں آتی۔ کسی ايک جگہ درحت لگانے سے صحرا کو روکا نہيں جاسکتا۔ يہ بہت سی جگہوں اور سياست کے بنيادی اصولوں کا معاملہ ہے۔
چنگ وائی اسے اچھا نہيں سمجھتے کہ منچين کو پورے چين کی ايک علامت کہا جارہا ہے۔ اُن کا مطالبہ ہے کہ پانی کو زيادہ ذمے داری سے استعمال کيا جائے۔ پانی کو زيادہ صاف بنايا اور کفايت شعاری سے کام ميں لايا جائے۔ منگوليا ميں ہُن شن داک کے صحرائی کنٹرول اسٹيشن کے وانگ جيان فينگ کا اس بارے میں کہنا ہے، ًچين کے بعض علاقوں ميں کاروباری اور صنعتی ادارے، ماحولياتی تباہی کی بنياد پرمنافع کما رہے ہيں۔ ہُن شن داک ريگستان، 200 کلوميٹر بيجنگ کی جانب پھيل چکا ہے۔ ان کے خيال ميں ريت کے طوفانوں کو روکنا ممکن نہيں ہے۔ زمين پر آبادی ميں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ ماحول اورفضا کو ايک سال ميں تباہ کيا جاسکتا ہے، ليکن اُسے دوبارہ سنبھلنے ميں 100 سال لگتے ہيں ً
جغرافيہ دان برنڈ ويُونےمن، ماہرين علم کے تبادلے کی جرمن سروس سے منسلک ہيں اور وہ ايک ريسرچ پراجيکٹ کے تحت کئی برسوں سے چين ميں ريگستان کے مسلسل پھيلنے کے مسئلے کا جائزہ لے رہے ہيں۔ انہوں نے کہا ًصحرائے گوبی کے نيچے پانی کے بہت بڑے ذخائر ہيں، ليکن اُنہيں مسلسل زيادہ زراعت کے لئے استعمال کيا جارہا ہے۔ يہاں، چاول يا کپاس کی کاشت کی جارہی ہے۔ يہ، صحرائی علاقے کے لحاظ سے ايک نہ سمجھ ميں آنے والی بات ہے، خاص طور پراس لئے، کہ يہ فصليں بہت بڑی ہيں۔ اس کاشت کے لئے بہت زيادہ پانی خرچ کياجارہا ہے۔ يہ پانی زير زمين آبی ذخيروں سے نکالا جارہا ہے اور ظاہر ہے کہ يہ آبی ذخائر کم ہوتے جارہے ہيںً
چينی حکومت، ماؤ زے تنگ کے 58 سالہ قبل کہے جانے والے الفاظ کا سہارا لے کر پانی کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے ایک بڑے تعميری منصوبے پر عمل کررہی ہے:شمال کے، کم پانی والے علاقے کو ہزاروں کلو ميٹر دور، جنوب سے مدد پہنچائی جائے گی۔ اس سلسلے ميں تين پائپ لائنيں بچھائی جارہی ہيں۔ اُن کے ذريعے پانی، پہلی بار سن 2014 ميں سپلائی کيا جائے گا۔ ليکن ويونے من کو اس بارے ميں شکوک ہيں وہ کہتے ہیں کہ اس منصوبے کو صحيح نہيں سمجھتا کيونکہ فراہمیء آب کے نظام کو قابل تجديد يا قدرتی ہونا چاہيے۔ ليکن اس منصوبے کے تحت پانی کوصرف ايک جگہ سے لے کر پائپوں کے ذريعے دوسری جگہوں تک پہنچايا جائے گا۔ ايک بہت طويل راستے اور اس وجہ سے، پانی کے بخارات بن کر اُڑجانے کے سبب، يہ ايک خسارے کا سودہ ہو گا۔ ميں يہ تصور نہيں کرسکتا کہ لمبی مدت کے اعتبار سے يہ واقعی کامياب ثابت ہو سکے گا۔ يہ، عارضی اقدامات ہيں جن سے، وقتی طور پر بعض علاقوں ميں ضرورت پوری ہو سکتی ہے، ليکن دوسری طرف بعض دوسرے علاقوں ميں پانی کم پڑ سکتا ہے۔
تاہم ويونے من کا مزیدکہنا ہے کہ اس وقت چين ميں ايک مغربی ملک کے سائنسدان کے بنيادی اعتراضات پر دھيان ديے جانے کا کو ئی امکان نظر نہيں آتا۔ يہ انسانوں کی ضرورت کو صرف وقتی طور پر پورا کرنا ہے، ليکن آخر کتنے عرصے کے لئے؟ يہ ايک ايسا مسئلہ ہے جس کا چين ميں احساس توکر ليا گيا ہے ليکن اس کے حل پر حقيقتاً سنجيدگی سے توجہ نہيں دی جارہی ہے۔
رپورٹ : شہاب احمد صدیقی
ادارت : عدنان اسحاق