1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین میں مظاہرے ایغوروں سے یک جہتی سے دور

12 دسمبر 2022

چین میں آتشزدگی کے ایک واقعے میں متعدد ہلاکتوں کے بعد ملک بھر میں غیرمعمولی اور غیرعمومی مظاہرے شروع ہو گئے تھے، تاہم کم مظاہرین ہی جانتے ہیں کہ مرنے والے ایغور تھے۔

Deutschland I Proteste China I Berlin
تصویر: Xin Lin/DW

چینی صوبے سینکیانگ کے دارالحکومت اُرمچی میں چوبیس نومبر کو ایک رہائشی عمارت میں آتشزدگی کے واقعے میں دس افراد کی ہلاکت کے بعد چین بھر میں سوشل میڈیا اس غم و غصے سے عبارت تھا کہ کورونا وائرس سے متعلق سخت ضوابط کی وجہ سے ریسکیو کارروائیوں میں تاخیر ہوئی جس کا نتیجہ ہلاکتوں کی صورت میں نکلا۔

چین: غیر معمولی احتجاجی مظاہروں کے بعد کووڈ کی پابندیاں ختم

کیا چین سول نافرمانی کی تحریک کی طرف بڑھ رہا ہے؟

اس واقعے کے بعد ملک بھر میں حکومت مخالف مظاہروں کا آغاز ہو گیا تھا جو بدستور جاری ہے۔ تاہم ان مظاہروں میں شامل بہت کم لوگ یہ جانتے ہیں کہ مرنے والے ایغور تھے۔ چین میں ترک نسل ایغور برادری ایک طویل عرصے سے سخت ترین حکومتی کریک ڈاؤن کی شکار ہے، جس پر بین الاقوامی برداری کی جانب سے مسلسل تشویش ظاہر کی جاتی رہی ہے۔

چینی مظاہرین آتشزدگی کے اس واقعے میں ہلاک ہونے والے کو 'زیرو کووڈ پالیسی کے شہید‘ قرار دیتے ہیں اور ان کے مطالبات میں سرفہرست کورونا سے متعلق سخت حکومتی ضوابط کا خاتمہ اور زیادہ جمہوری حقوق ہیں۔

خبر رساں ادارے  اے ایف پی نے اس آتشزدگی میں ہلاک ہونے والے افراد کے لواحقین سے گفتگو کی۔ ان لواحقین کے مطابق تاہم یہ آتشزدگی کا یہ واقعے ان کے ساتھ ہونے والے سانحات کا فقط ایک تسلسل تھا۔ عبدالحافظ مائی مائی ٹم مِن ایغور نسل ہیں اس واقعے میں ان کی خالہ اور ان کے چار بچے جل کر ہلاک ہو گئے۔ سن دو ہزار سولہ سے سوئٹزرلینڈ میں رہنے والے عبدالحافظ مائی مائی ٹم مِن کے مطابق ان کی خالہ کے شوہر اور بیٹے کو چینی حکام نے سن دو ہزار سولہ اور دو ہزار سترہ میں گرفتار کیا تھا۔

مائی مائی ٹم مِن اور ان کے خاندان کے مطابق ان گرفتار شدگان کو خصوصی حراستی مراکز پہنچایا گیا جہاں ایک ملین سے زائد دیگر ایغورنسل مسلم باشندے قید ہیں۔ ''میری خالہ کئی برس تک اپنے ان پیاروں کی راہ دیکھتی رہیں اور پھر آتشزدگی کے اس واقعے نے ان کی اپنی زندگی کا چراغ بھی گل کر دیا۔‘‘

امریکی اور متعدد دیگر ممالک کی جانب سے ان حراستی مراکز میں شدید نوعیت کے تشددکے الزامات سامنے آتے رہے ہیں جب کہ رواں برس اگست میں اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بھی 'بااعتبار شواہد‘ کے تناظر میں مقید افراد کو عقوبت پہنچائے جانے کی تصدیق کی گئی تھی۔ بیجنگ حکومت ان مراکز کو 'رضاکارانہ ووکیشنل اسکول‘ قرار دیتی ہے اور اس کے مطابق ان کا مقصد شدت پسندی کا خاتمہ ہے۔

پورن دیکھیں اور احتجاج سے دور رہیں کیا چین کی یہ نئی پالیسی ہے؟

02:58

This browser does not support the video element.

اگست سے ارمچی کے زیادہ تر ایغور اکثریتی علاقوں میں کووڈ کے حوالے سے سخت ترین ضوابط رائج ہیں۔ مائی مائی ٹم من کہتے ہیں، ''شاید میری خالہ کے شوہر اور ان کے بیٹے وہاں موجود ہوتے تو طاقت کے ذریعے انہیں بچا لیتے، مگر شاید ایسا ممکن نہ ہوتا کیوں کہ دروازہ باہر سے بند تھا۔‘‘

دیگر رہائشی اور ہلاک شدگان کے رشتہ دار یہی دعویٰ کر رہے ہیں کہ کووڈ لاک ڈاؤن ضوابط کی وجہ سے ایمرجنسی کارروائیاں شدید سست روی کا شکار رہیں جس کا نتیجہ ہلاکتوں کی صورت میں نکلا۔ تاہم بیجنگ حکومت ان دعووں کو رد کرتی ہے۔

ع ت، ر ب (اے ایف پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں