چین میں نئے پراسرار وبائی مرض کا انکشاف، درجنوں شہری بیمار
31 دسمبر 2019
چینی حکام کے مطابق یہ بیماری وائرس کی وجہ سے پھیلنے والا ایسا وبائی مرض ہے، جو مریضوں کے پھیپھڑوں کو متاثر کرتا ہے۔ اب تک وسطی چین کے شہر وُوہان میں اس کے 27 مریضوں کی تشخیص ہو چکی ہے، جن میں سے سات کی حالت تشویش ناک ہے۔
اشتہار
بیجنگ میں وزارت صحت کے حکام کے مطابق نمونیا کی طرز کے اس مرض کا پھیلاؤ بہت تشویش ناک ہے اور اس وقت جائزہ اس امر کا لیا جا رہا ہے کہ آیا چین میں یہ مرض کوئی نئی اور بڑی وبا بن سکتا ہے۔
چین میں سن 2003ء میں بھی انتہائی تیز رفتاری سے پھیلنے والے ایک وائرس کی وجہ سے لگنے والی بیماری سارس یا SARS کی وبا بھی دیکھنے میں آئی تھی، جس کی وجہ سے سینکڑوں شہری ہلاک ہو گئے تھے۔
چینی اخبار 'پیپلز ڈیلی‘ کے مطابق حکام نے اس امر کی تردید کی ہے کہ یہ نئی وبا بھی سارس کی طرز کی پھیپھڑوں کی کوئی نئی وبائی بیماری ہے۔
دوسری طرف طبی ماہرین کے بقول ابھی تک اس نئے مرض کی وجوہات غیر واضح ہیں اور یہ بات بھی یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ یہ مرض سارس ہی کی کوئی قسم ہے۔
اب تک وُوہان میں صحت عامہ کے محکمے کی طرف سے صرف یہ بات یقین سے کہی گئی ہے کہ کئی ملین کی آبادی والے اس شہر میں اس مرض کا تعلق کسی نہ کسی طرح سے ایک ایسی مچھلی منڈی سے بنتا ہے، جہاں جانے والے افراد ہی اس مرض کا شکار ہوئے ہیں۔
ساتھ ہی یہ بھی کہا گہا ہے کہ اس مرض کے شکار دو درجن سے زائد تمام افراد کو طبی طور پر قرنطینہ میں رکھا جا رہا ہے اور ساتھ ہی ان کے قریبی رشتے داروں کی طبی حالت پر بھی نگاہ رکھی جا رہی ہے کہ کہیں ان میں سے کسی میں بھی تو اس مرض کے آثار پیدا نہیں ہو رہے۔
اس مرض کے ممکنہ وبائی پھیلاؤ کا جائزہ لینے کے لیے وُوہان بھیجے جانے والے اعلیٰ چینی طبی حکام کے مطابق اس مرض کے شکار تمام مریضوں کا تفصیلی طبی معائنہ کیا جا رہا ہے اور ابھی تک یہ بات بھی واضح نہیں کہ آیا یہ بیماری انسانون سے انسانوں کو منتقل ہو سکتی ہے یا اس وائرس سے مریضوں کا علاج کرنے والے طبی کارکن بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔
م م / ا ا (ڈی پی اے، اے ایف پی)
گنی کیڑوں کی بیماری: قریب الاختتام
سن 1986 میں 36 لاکھ افراد گنی کیڑوں کی بیماری میں مبتلا تھے۔ یہ بیماری ایشیا اور افریقہ کے اکیس ملکوں میں پائی جاتی تھی۔ اب یہ پیراسائٹ قسم کے کیڑوں سے پھیلنے والی بیماری دنیا بھر سے ختم ہونے کے قریب ہے۔
تصویر: Imago/ZUMA Press/W. Pope
دنیا سے ختم ہونے والی بیماری
گنی کیڑے پیراسائٹ قسم سے تعلق رکھتے ہیں۔ مؤثر آگہی کی مہم کی وجہ سے یہ بیماری دنیا بھر میں محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ سن 2018 کے ابتدائی تین ماہ کے دوران افریقی ملک چاڈ میں اس کے تین مریض سامنے آئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Bazemore
کارٹر سینٹر
سابق امریکی صدر جمی کارٹر کے قائم کردہ مرکز نے سن 1996 میں گنی کیڑوں سے پھیلنے والی بیماریوں کے خلاف انٹرنیشنل مہم شروع کی۔ اس مہم کی وجہ سے لاکھوں افراد کو اس مہلک بیماری میں مبتلا ہونے سے بچایا گیا۔ چیچک کے بعد گنی کیڑوں کی بیماری کا خاتمہ ایک اہم پیش رفت ہے۔ یہ واحد بیماری ہے، جس کے لیے کوئی ویکسین یا دوا تیار نہیں کی گئی۔
تصویر: Carter Center/Louise Gubb
آلودہ پانی کا استعمال
گنی کیڑوں کی بیماری کا جرثومہ یا پیراسائٹ اُسی وقت جنم لیتا ہے جب انسان بغیر فلٹر کے پانی پیتا ہے یا پھر کھڑے گندے پانی کا استعمال کیا جاتا ہے۔ گندے پانی میں گنی کیڑے کا لاروا پایا جاتا ہے جو پینے سے انسانی جسم میں داخل ہو کر بیماری کا باعث بنتا ہے۔ بدن میں داخل ہونے والا کیڑا نظام ہضم کا حصہ بنتے ہوئے کسی پھوڑے کے اندر سے باہر آنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس کی لمبائی 60 سے 100 سینٹی میٹر تک ہوتی ہے۔
تصویر: Imago/ZUMA Press/W. Pope
کیڑے کا نمودار ہونا
انسانی بدن میں داخل ہونے والے گنی ورم کا نر مر جاتا ہے اور مادہ تقریباً ایک سال بعد انسانی جسم کی ٹانگ یا پاؤں پر بننے والے ایک پھوڑے سے باہر نکلنے کی کوشش کرتی ہے۔ پھوڑا انتہائی شدید درد کا باعث ہوتا ہے۔ بیماری میں مبتلا شخص شدید درد والے پھوڑے کو پانی سے دھونے کی کوشش کرتا تھا اور اس باعث لاکھوں لاروے پانی میں چلے جاتے تھے۔
تصویر: picture-alliance/Arco Images/W. Dolder
شدید نقاہت پیدا کرنے والی بیماری
بنیادی طور پر گنی ورم بیماری کے لیے کوئی دوا یا مدافعتی ویکسین دستیاب نہیں ہے۔ اس کیڑے کو روزانہ کی بنیاد پر انسانی بدن سے باہر کھینچا جاتا ہے اور اس کے مکمل باہر نکالنے پر کئی ہفتے درکار ہوتے ہیں۔ اس عرصے میں مریض کو شدید نقاہت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کمزوری کی وجہ سے مریض کو کسی اور بیکٹیریا کی بیماری بھی لاحق ہو سکتی ہے۔ مریض بے بس ہو جاتا ہے۔
تصویر: Imago/ZUMA Press/W. Pope
کمیونٹی پروگراموں کا سلسلہ
گنی ورم کی بیماری پر کنٹرول بنیادی طور پر حفظانِ صحت کے اصولوں پر عمل کرنے سے پیدا ہوا۔ لوگوں کو صاف پانی پینے کی تلقین کی گئی۔ اس کے علاوہ اس بیماری میں مبتلا افراد کے ساتھ میل ملاپ رکھنے سے اجتناب کرنے پر بھی بیماری کے پھیلاؤ میں کمی واقع ہوئی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/J. Bazemore
Only 30 cases in 2017
سن 2017 میں صرف تیس مریض
سن 1986 میں جس بیماری کے چھتیس لاکھ مریض تھے اور اکتیس برس بعد ایسے مریضوں کی تعداد تیس ہو کر رہ گئی۔ اس بیماری کے خلاف آگہی دینے کی بین الاقوامی مہم سے اس پر کنٹرول پیدا ہوتا چلا گیا۔ سن 2017 میں افریقی ممالک چاڈ اور ایتھوپیا میں اس مرض کے صرف تیس مریض سامنے آئے۔
تصویر: picture-alliance/AP/M. Quesada
گنی ورم بیماری میں مبتلا کتے
سن 2012 میں پہلی مرتبہ کسی کتے میں گنی کیڑے کی بیماری پائی گئی۔ اس سے عالمی سطح پر شدید خدشات بھی پیدا ہوئے۔ چاڈ کے دیہاتی علاقوں کے گندے پانی کے جوہڑوں میں پائی جانے والی مچھلیوں کو کھانے سے کتوں میں یہ بیماری منتقل ہوئی۔ ان مچھلیوں میں گنی کیڑے کا لاروا پایا گیا۔ عام لوگوں کو اس مناسبت سے مفید مشورے دیے گئے اور اب یہ مسلئہ تقریباً ختم ہو کر رہ گیا ہے۔