1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین میں پریس کی آزادی مسلسل زوال پذیر، رپورٹ

31 جنوری 2022

ایک نئے سروے کے مطابق چین میں سرمائی اولمپکس سے قبل وہاں کام کرنے والے غیر ملکی صحافیوں کو "غیر معمولی دشواریوں" کا سامنا ہے۔ سنکیانگ خطے کے صحافیوں کا بھی کہنا ہے کہ انہیں پہلے سے زیادہ ہراساں کیا جا رہا ہے۔

ایک چینی سیکورٹی اہلکار فوٹوگرافر کو گریٹ ہال کی تصویر اتارنے سے روکنے کی کوشش کرتا ہوا
ایک چینی سیکورٹی اہلکار فوٹوگرافر کو گریٹ ہال کی تصویر اتارنے سے روکنے کی کوشش کرتا ہواتصویر: Roman Pilipey/AP/picture alliance

غیر ملکی صحافیوں کی تنظیم فارن کارسپونڈنٹس کلب آف چائنا (ایف سی سی سی) نے پریس کی آزادی کے حوالے سے پیر کے روز ایک رپورٹ جاری کی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین میں میڈیا کی آزادی جس تیزی سے زوال پذیر ہے اس پر ایف سی سی سی انتہائی پریشان ہے۔

رپورٹ میں کیا کہا گیا ہے؟

ایف سی سی سی کے سروے میں 100 سے زائد غیر ملکی صحافیوں نے حصہ لیا۔ ان میں سے 99 فیصد کا کہنا تھا کہ ان کا احساس ہے کہ چین میں میڈیا اہلکاروں کے لیے کام کرنے کے حالات بین الاقوامی میعارات پر پورا نہیں اترتے۔

سروے میں حصہ لینے والوں میں سے تقریباً نصف کا کہنا تھا کہ انہیں بہت کم اسٹاف کے ساتھ کام کرنا پڑ رہا ہے۔ چونکہ چینی حکام ویزا کی منظوری میں کافی تاخیر کر رہے ہیں اس لیے دیگر صحافیوں کو بیجنگ لانا ان کے لیے ممکن نہیں ہو پا رہا ہے۔

سروے میں حصہ لینے والوں میں 88 فیصد، جنہوں نے سن 2021 کے دوران چین کے شمال مشرقی صوبے سنکیانگ کا سفر کیا تھا، کا کہنا تھا کہ اس دوران ان پر نگاہ رکھی گئی، جبکہ 34 فیصد صحافیوں کا کہنا تھا کہ ان سے تصاویر اور ویڈیوز حذف کرنے کے لیے کہا گیا۔

خیال رہے کہ بین الاقوامی مذمت کے باوجود سنکیانگ میں چین کے ایغور نسلی اقلیتوں کے خلاف سیکورٹی فورسز کی کارروائی اب بھی جاری ہے۔

ایف سی سی سی کا کہنا ہے کہ حکومت کی حمایت یافتہ آن لائن ہراسانی کی وجہ سے صحافیوں کے لیے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں ادا کرنا اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔

صرف دس فیصد صحافیوں کا کہنا تھا کہ انہیں اولمپکس کے افتتاح سے قبل منعقد ہونے والے پروگراموں میں شرکت کی اجازت ملیتصویر: Tobias Schwarz/AFP/Getty Images

اولمپکس کوریج پر سخت کنٹرول

ایسے میں جبکہ بیجنگ سرمائی اولمپکس کے آغاز میں چند روز باقی رہ گئے ہیں، سروے میں حصہ لینے والے 127 صحافیوں میں سے 60 فیصد نے منتظمین کے ذریعہ کھیلوں کے بارے میں ناکافی اطلاعات فراہم کرنے کی نکتہ چینی کی۔

تیئس فیصد کا کہنا تھا کہ وہ اولمپکس کمیٹی کے ذمہ دار حکام سے رابطہ کرنے میں بھی ناکام رہے ہیں جبکہ 32 فیصد کا کہنا تھا کہ انہیں ان کھیلوں کی رپورٹنگ کرنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی ہے جس کی اجازت دیگر میڈیا کو ہے۔

سروے میں شامل صرف دس فیصد کا کہنا تھا کہ انہیں اولمپکس کے افتتاح سے قبل منعقد ہونے والے پروگراموں میں شرکت کی اجازت ملی۔ ایف سی سی سی کا کہنا ہے کہ نامہ نگاروں کو تقریبات منعقد ہوجانے کے بعد پریس بیانات کے ذریعہ ہی کچھ تفصیلات مل پارہی ہیں۔

ایف سی سی سی نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ چین میں ایک عرصے سے میڈیا کی آزادی زوال پذیر ہے۔

ایف سی سی سی کے مطابق بیشتر میڈیا تنظیمیں چین سے باہر کے غیر ملکی صحافیوں کو اولمپکس کھیلوں کو کور کرنے کے لیے بھیجنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں، جس کے لیے انہیں ببل قرنطینہ میں رہنا ہوگا۔ سروے میں شامل ہونے والے 90 فیصد افراد کا کہنا تھا کہ اولمپکس ببل قرنطینہ میں رہنے کا ان کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

ہانگ کانگ اب غیر ملکی صحافیوں کے لیے پسندیدہ مقام نہیں رہ گیا ہے تصویر: Mary James/SOPA Images/ZUMA Wire/picture alliance

ہانگ کانگ صحافیوں کے لیے پسندیدہ متبال نہیں رہا

ایف سی سی سی کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جن غیر ملکی صحافیوں کے لیے چین میں رہنا مشکل ہو گیا ہے وہ اب تائی پے، سنگاپور، سڈنی اور لندن سے اپنا کام کر رہے ہیں۔

ایف سی سی سی کا کہنا ہے کہ ہانگ کانگ اب غیر ملکی صحافیوں کے لیے پسندیدہ مقام نہیں رہ گیا ہے کیونکہ چین نے غیر ملکی صحافیوں کو وہاں سے نکالنا اور گرفتار کرنا جبکہ مقامی صحافیوں کو جیلوں میں ڈالنا شروع کر دیا ہے۔

دسمبر 2021 میں جمہوریت نواز نیوزویب سائٹ اسٹینڈ نیوز کو پولیس کی طرف سے چھاپے ماری کے بعد اپنا کام بند کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑا۔ اس کے موجودہ اور سابق عملے کو گرفتار بھی کر لیا گیا۔

گزشتہ برس جون میں پولیس نے جمہوریت نواز اخبار ایپل ڈیلی کے دفاتر پر چھاپے مارے تھے اور اخبار کے عہدیداروں کو "ایک بیرونی ملک سے ساز باز" کے الزام میں گرفتار کرلیا تھا۔

ج ا / ص ز (اے ایف پی، ڈی پی اے)

چین: ایغور مسلمان بچوں کی شرح پیدائش کم کرنے کی جبری کوشش

02:50

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں