چین میں حکومت کی جانب سے جانوروں کی بہبود کی صورت حال میں بہتری اور کورونا وائرس جیسی کسی نئی وبا سے بچنے کی مہم کے برخلاف کتے کے گوشت کا فیسٹیول شروع ہو گیا ہے۔
اشتہار
چین میں وہ بدنام زمانہ فیسٹیول شروع ہو گیا ہے جس میں کتے کے گوشت کو پیش کیا جاتا ہے۔ یہ دس روزہ فیسٹیول جنوب مغربی چینی شہر یولِن میں جاری ہے، جس میں ہزاروں افراد شرکت کرتے ہیں۔ جانوروں کے حقوق کی تنظیموں کا تاہم کہنا ہے کہ یہ فیسٹیول کے دن گنے جا چکے ہیں اور مستقبل میں ایسے کسی فیسٹیول کی کوئی گنجائش نہیں نکلتی۔
چین میں حکومت کی جانب سے جنگلی جانوروں کی تجارت پر پابندی عائد کیے جانے کے ساتھ ساتھ پالتو جانوروں کو بھی تحفظ دیا گیا تھا۔ اس فیسٹیول پر نکتہ چین حلقے کا کہنا ہے کہ یہ آخری موقع ہے کہ یہ فیسٹیول منعقد ہو رہا ہے۔ جانوروں کے حقوق کے ایک تنظیم ہیومین سوسائٹی انٹرنیشنل سے وابستہ پیٹر لی کا کے مطابق، ''مجھے امید ہے کہ یہ شہر نہ صرف جانوروں کے لیے بہتری کے لیے تبدیل ہو گا بلکہ لوگوں کی صحت اور سلامتی کے لیے بھی۔‘‘
لی مزید کہتے ہیں، ''بڑی تعداد میں لوگوں کو جمع ہو کر کتے کا گوشت خریدنا اور کھانا اور وہ بھی اتنی پرہجوم مارکیٹس اور ریستورانوں میں، یہ فیسٹیول کے نام پر عوامی صحت کو خطرات سے دوچار کرنے والی بات ہے۔‘‘
واضح رہے کہ عالمی وبا کا باعث بننے والے نئے کورونا وائرس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ ممکنہ طور پر چینی شہر ووہان میں جانوروں کی ایک مارکیٹ کے ذریعے انسانوں میں منتقل ہوا۔ اس وائرس کی بابت سائنسدانوں کا اندازہ ہے کہ یہ غالباﹰ چمگاڈروں سے کسی اور جانور کے ذریعے انسانوں میں منتقل ہوا تھا۔
چین: کتوں کے گوشت کا متنازعہ میلہ
احتجاجی مظاہروں اور بین الاقوامی تنقید کے باوجود اس سال بھی جنوبی چین کے شہر ژولین میں کتوں کے گوشت کا سالانہ میلہ منعقد کیا گیا اور تقریباً دَس ہزار کتوں کو، جن میں سے زیادہ تر چرائے گئے پالتو کتے تھے، ہلاک کر دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ڈاگ میٹ ’فیسٹیول‘
چین کے خود مختار دیہی اور بڑی حد تک غریب علاقے گوانگ ژی ژوآنگ کے چھوٹے سے شہر ژولین میں ہر سال ’لیچی‘ اور ’ڈاگ مِیٹ فیسٹیول‘ کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس موقع پر ہزارہا کتوں کو ہلاک کر کے اُن کا گوشت کھایا جاتا ہے۔ اس سال یہ میلہ بائیس جون کو منعقد ہوا۔ اس تصویر میں لوگ کتے کی گوشت کی ڈِش پر ٹوٹے پڑ رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon
ثقافت یا کاروبار؟
مقامی افراد کے مطابق گرمیوں کے موسم میں اس خطّے میں کتے کا گوشت کھانے کی ایک روایت چلی آ رہی ہے۔ اس کے برعکس جانوروں کے حقوق کے علمبردار حلقوں کے مطابق اس سرگرمی کی کوئی ثقافتی اہمیت نہیں ہے بلکہ اس کی اختراع کے پیچھے صرف اور صرف کاروباری پہلو کارفرما ہے۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے رابطہ کرنے پر کئی مقامی ریستورانوں نے بتایا کہ اس سال اُن کا کاروبار بہت اچھا رہا۔
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon
احتجاجی مظاہرے
جانوروں کے حقوق کے علمبرداروں نے ژولین کے سٹی ہال کے سامنے مظاہرے کیے کیونکہ اُن کی نظر میں کتوں کو اس طرح سے مارنا اور اُن کا گوشت کھانا ایک بے رحمانہ عمل ہے۔ اُنہوں نے جو بینرز آویزاں کیے، اُن پر ’کتے کے گوشت کی غیر قانونی تجارت بند کرو‘ جیسے نعرے درج تھے تاہم نامعلوم افراد کے ایک گروپ نے، جو غالباً سادہ کپڑوں میں سرگرم پولیس اہلکاروں پر مشتمل تھا، دیکھتے ہی دیکھتے ان بینرز کو چھین کر پھاڑ دیا۔
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon
کتوں کو پچانے کی کوشش
جانوروں کے حقوق کے لیے سرگرم افراد کبھی کبھی کتوں کو کھانے کی پلیٹ میں پہنچنے سے بچانے کے لیے انہیں خرید لیتے ہیں۔ نیوز وَیب سائٹ 163.com کے مطابق کتوں سے پیار کرنے والے ژانگ سیاؤ ژُون نے شمالی چین میں اپنے شہر تیان جِن سے ژولین تک کا سفر کیا اور سات ہزار یوآن (1150 ڈالر) دے کر ایک سو کتے آزاد کروائے۔ اس تصویر میں دکھایا گیا ہے کہ کیسے آزاد کروائے گئے کتوں کو ایک عارضی ٹھکانے پر رکھا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon
قانونی کاروبار
ژولین کی حکومت نے اس میلے سے لاتعلق کا اظہار کرتے ہوئے نئی پابندیاں متعارف کروائی ہیں۔ ان پابندیوں کے تحت کھلے عام کتوں کو ہلاک کرنا، اُن کے مردہ جسموں کی نمائش کرنا یا اُن کا گوشت کھانے کے طور پر پیش کرنا منع ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ چین میں کتے کا گوشت کھانے کے خلاف کوئی قانون موجود نہیں ہے۔ اس تصویر میں ایک پھیری والا ایک مارکیٹ میں کتے کا گوشت فروخت کر رہا ہے۔
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon
لاکھوں میں
واشنگٹن میں قائم تنظیم ’ہیومین سوسائٹی‘ کے اندازوں کے مطابق ہر سال چین میں کوئی دَس ملین کتوں کو اُن کا گوشت حاصل کرنے کے لیے ہلاک کیا جاتا ہے جبکہ صرف ژولین میلے کے دوران ہی دَس ہزار کتے ہلاک کیے جاتے ہیں۔ کتوں کا زیادہ تر گوشت باقاعدہ طور پر بنائے گئے قانونی فارموں سے آتا ہے تاہم فوڈ سیفٹی انسپکٹروں سے بچنے کے لیے بہت سے خفیہ سلاٹر ہاؤسز بھی قائم ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon
کتوں پر ’تشدد‘ کا میلہ
اس سال کے ژولین فیسٹیول کو نہ صرف بہت سے چینی شہریوں نے وَیب پر ہدفِ تنقید بنایا بلکہ برطانوی کامیڈین رِکی گیرویس نے بھی ٹویٹر پر "StopYuLin2015" کے ہَیش ٹیگ پر بہت سے پیغامات روانہ کیے۔ ایک پیغام میں لکھا تھا:’’اسے ’ڈاگ ٹارچر فیسٹیول‘ کہا جانا چاہیے کیونکہ درحقیقت اس میں یہ یہی کچھ ہوتا ہے۔‘‘
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon
بدلتے خیالات
کتے کا گوشت چین کے محض کچھ حصوں میں کھایا جاتا ہے اور یہ وہاں کی کوئی عام ڈِش نہیں ہے۔ واشنگٹن کی ’ہیومین سوسائٹی‘ کے مطابق مقامی اور بین الاقوامی تنظیموں کا احتجاج رنگ لا رہا ہے۔ 2011ء میں چینی شہریوں کے ایک گروپ کے احتجاج پر شہر جِنگ ہُوا میں اسی طرح کا مجوزہ فیسٹیول روک دیا گیا تھا جبکہ گوانگ ژُو میں گزشتہ 51 برسوں سے قائم چلا آ رہا کتوں کے گوشت کا ایک ریستوراں بھی حال ہی میں بند کر دیا گیا۔
تصویر: Reuters/K. Kyung-Hoon
بات چین تک ہی محدود نہیں
کتوں کے گوشت کا مسئلہ صرف چین میں ہی متنازعہ نہیں بنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دیگر ایشیائی ملکوں مثلاً ویت نام میں بھی یہ گوشت رغبت سے کھایا جاتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ اس سے قوتِ باہ بڑھتی ہے۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران کتوں کے گوشت کی غیر قانونی تجارت کا دائرہ پھیلنا شروع ہوا ہے، جس کا حجم کئی ملین ڈالر خیال کیا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
9 تصاویر1 | 9
اپریل میں شینزہن وہ پہلا چینی شہر بن گیا تھا، جہاں کتوں کے گوشت پر پابندی عائد کی گئی ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ دیگر چینی شہر بھی اس کی تقلید کریں گے۔ چینی وزارت زراعت نے فیصلہ کیا ہے کہ کتوں کو لائیو اسٹاک کی بجائے پالتو جانوروں کے خانے میں ڈال دیا جائے، تاہم فی الحال یہ واضح نہیں کہ اس فیصلے سے یولِن میں کتوں کی تجارت کس طرح متاثر ہو گی۔
جانوروں کے حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ جس انداز سے پیش رفت ہو رہی ہے، کچھ وقت تو ضرور لگے گا، تاہم کتے کے گوشت کا یہ فیسٹیول بالآخر بند ہونا ہی ہے۔