1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین میں گھریلو تشدد کے واقعات، حکومت کی شادی مہم پر تنقید

5 مارچ 2023

چینی حکومت کی جانب سے شادی کے فروغ کے لیے شروع کی گئی مہم سوشل میڈیا پر تنقید کا نشانہ بن رہی ہے۔ صارفین کا کہنا ہے کہ چین میں خواتین کو گھریلو تشدد سے ناکافی تحفظ حاصل ہے۔

Indien l Proteste gegen Vergewaltigungen
تصویر: picture alliance/AP Photo/A. Rahi

چین میں دو خواتین کے قتل کے بعد حکومت کی جانب سے شادی کے فروغ کے لیے شروع کی گئی مہم اب سوشل میڈیا پر تنقید کا نشانہ بن رہی ہے۔ ان دو واقعات کی روشنی میں کئی صارفین کا کہنا ہے کہ چین میں خواتین کو گھریلو تشدد سے ناکافی تحفظ حاصل ہے۔

یہاں جن دو واقعات کا ذکر کیا جا رہا ہے ان میں سے ایک چین کے وسط میں واقع صوبہ ہینان میں پیش آیا تھا۔ پیر کے روز حکام نے وہاں ایک شخص کو اپنی بیوی کو ایک گھریلو جھگڑے کے دوران چھری کے وار سے قتل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔ حکام کا کہنا تھا کہ 24 سالہ خاتون کا قتل گزشتہ ہفتے کیا گیا تھا۔

اسی ہفتے چین کے نیم خودمختار علاقے ہانگ کانگ میں 28 سالہ سوشلائٹ اور ماڈل ایبی چوئی کی لاش ملی۔ قاتل نے ایبی کے جسم کے ٹکڑے ٹکڑے کر دیے تھے۔ حکام نے ایبی چوئی کو قتل کرنے کے شبے پر ان کے سابقہ شوہر اور دو سسرالی رشتہ داروں کو گرفتار کر لیا ہے۔

چین: شوہر کے سرعام تشدد سے خاتون ہلاک

ان دو لرزہ خیز واقعات نے سوشل میڈیا پر ایک نئی بحث کا آغاز کر دیا ہے، جہاں کئی صارفین حکومت کی جانب سے شادی اور خاندان بڑھانے کی حوصلہ افزائی پر سوال اٹھا رہے ہیں۔

انہی میں سے ایک صارف نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ویبو پر لکھا، "اگر آپ شادی نہیں کرتیں تو آپ کا بوائے فرینڈ آپ کو پیٹتا ہے۔ اگر آپ شادی کر لیتی ہیں تو آپ کا شوہر آپ کو مارتا ہے۔ اگر آپ طلاق یافتہ ہیں تو آپ کا سابقہ شوہر آپ  پر تشدد کرتا ہے۔ اس دنیا کو کیا ہو گیا ہے؟"

چینی عورتیں بچے کیوں پیدا نہیں کرنا چاہتیں؟

01:33

This browser does not support the video element.

ایک اور صارف کی اس بارے میں رائے تھی، "شادی اور اولاد پیدا نہ کرنا بے شک سب سے زیادہ تحفظ (فراہم کرتا) ہے۔"

کچھ اور صارفین نے اس بات کی نشاندہی بھی کی کہ 2021ء میں متعارف کیے گئے ایک قانون کے تحت طلاق کی درخواستیں دائر کیے جانے کہ بعد 30 دن سے پہلے ان پر باقاعدہ کارروائی کا آغاز نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا کہنا تھا کہ اس قانون نے بدسلوکی کا شکار شادی شدہ افراد کے لیے طلاق لینا مشکل بنا دیا ہے۔

2010ء میں تقریباً دو ملین چینی جوڑوں کی طلاق

اسی دوران سوشل میڈیا پر شہریوں اور پولیس کے درمیان تصادم کی کچھ ویڈیوز بھی گردش کرتی رہیں، جن کے بارے میں کہا جا رہا ہے وہ ہینان صوبے میں گزشتہ ہفتے قتل کی جانے والی خاتون کے شہر سے ہیں۔ لیکن روئٹرز اپنے طور پر ان ویڈیوز میں دیکھے جانے والے مقامات کی تصدیق نہیں کر پایا ہے۔

خواتین کے تحفظ کے لیے چین میں گزشتہ برس اکتوبر میں صنفی تفریق اور جنسی ہراسانی کے خلاف ایک قانون بھی پاس کیا گیا تھا۔ لیکن ساتھ ہی اس قانون میں خواتین کے لیے خاندانی اقدار کا احترام کرنے پر بھی زور دیا گیا تھا۔ یہ قانون سازی ایسے وقت عمل میں آئی تھی جب ایکٹوسٹس نے حکومت کے خواتین کے روایتی کردار کی فروغ کے بیانات پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ کچھ لوگ کا کہنا تھا کہ حکومت کی یہ بیان بازی خواتین کے حقوق کے لیے ایک دھچکا ہے۔

م ا / ع ا(روئٹرز)

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں