1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
عقیدہچین

چین میں ’ہاؤس چرچز‘ کو نشانہ بنانے کا سلسلہ پھر شروع

جاوید اختر (مصنف: یُوچن لی، تائی پے)
24 اکتوبر 2025

چین نے ’ہاوس چرچز‘ یا غیر رجسٹرڈ گرجا گھروں کے خلاف کریک ڈاؤن میں درجنوں مسیحی پادریوں کو گرفتار کر لیا ہے۔ ناقدین کے مطابق یہ صدر شی جن پنگ کی مذہبی آزادی کے حوالے سے بڑھتی ہوئی عدم برداشت کو اجاگر کرتا ہے۔

چین کے ہنان صوبے میں ایک چرچ
چین میں مسیحیوں کو صرف اُن گرجا گھروں میں عبادت کرنے کی اجازت ہے جو کمیونسٹ پارٹی کے زیرِ کنٹرول مذہبی اداروں سے منسلک ہیںتصویر: Ng Han Guan/AP Photo/picture alliance

چین میں 'ہاوس چرچز‘ سے وابستہ مسیحیوں کو ایک بار پھر کریک ڈاؤن کا سامنا ہے، جو صدر شی جن پنگ کی مذہبی آزادی کے حوالے سے بڑھتی ہوئی عدم برداشت کو اجاگر کرتا ہے۔ 'ہاوس چرچز‘ یا گھریلو گرجا گھروں سے مراد ایسے غیر رجسٹرڈ چرچ ہیں جو حکومتی کنٹرول سے باہر رہ کر سرگرم ہیں۔

چینی قانون کے مطابق، مسیحیوں کو صرف انہی چرچز میں عبادت کرنے کی اجازت ہے جو کمیونسٹ پارٹی کے زیرِ کنٹرول مذہبی اداروں سے منسلک ہوں۔

اب تک صرف دو مسیحی گروہوں کو سرکاری طور پر تسلیم کیا گیا ہے: چائنیز پیٹریاٹک کیتھولک ایسوسی ایشن اور پروٹسٹنٹ تھری سیلف پیٹریاٹک موومنٹ۔

اسی ماہ کے اوائل میں، چین کے سب سے بڑے غیر سرکاری مسیحی گرجا گھروں میں سے ایک "زایون پروٹسٹنٹ چرچ" کے تقریباً 30 پادریوں اور اراکین کو سات صوبوں میں گرفتار کیا گیا، جن میں اس کے بانی جِن ایزرا منگری بھی شامل ہیں۔

امریکہ میں قائم مذہبی تنظیم "چائنا ایڈ" کے بانی چینی پادری باب فُو کے مطابق، ''کچھ (پولیس اہلکاروں) نے تالے اور دروازے توڑ دیے، جبکہ دیگر نے بجلی کاٹ دی اور خود کو الیکٹریشن ظاہر کیا اور دروازے پر دستک دینے کے بعد اندر گھس آئے۔‘‘

گرفتار ہونے والے بیشتر افراد پر ''آن لائن مذہبی مواد غیر قانونی طور پر پھیلانے‘‘ کے الزامات عائد کیے گئے ہیں، کیونکہ چرچ نے 2018 میں آن لائن عبادات شروع کی تھیں، اور اب تک یہ 40 شہروں میں کم از کم 10,000 پیروکاروں تک پھیل چکا ہے۔

حقوقِ انسانی کے گروپوں کا کہنا ہے کہ زایون چرچ کے تقریباً 30 ارکان کو گرفتار کیا گیا ہے — جن میں اس کے بانی جِن منگری بھی شامل ہیںتصویر: Ng Han Guan/AP Photo/picture alliance

مسیحیت پر قابو پانے کی کوشش

جرمنی کے مذہبی آزادی کے کمشنر تھامس راخل نے ایکس پر پوسٹ میں ''مذہبی آزادی کی خلاف ورزی‘‘ کی مذمت کی اور تمام گرفتار شدگان کی رہائی کا مطالبہ کیا۔

امریکی وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے بھی چین کے اقدامات پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ گرفتار شدگان کو فوری طور پر رہا کیا جائے اور تمام مذہبی افراد کو بلا خوف وخطر عبادت کی اجازت دی جائے۔

روبیو نے اپنے بیان میں کہا، یہ کریک ڈاؤن اس بات کا مزید ثبوت ہے کہ چینی کمیونسٹ پارٹی ان مسیحیوں سے دشمنی رکھتی ہے جو اپنی عبادت میں پارٹی کی مداخلت کو مسترد کرتے ہیں اور غیر رجسٹرڈ ہاؤس چرچز میں عبادت کو ترجیح دیتے ہیں۔‘‘

چینی وزارتِ خارجہ نے روبیو کی تنقید کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ بیجنگ مذہبی معاملات کو قانون کے مطابق منظم کرتا ہے اور شہریوں کی عقیدہ رکھنے اور معمول کی مذہبی سرگرمیوں کی آزادی کا احترام کرتا ہے۔

جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق وزارتِ خارجہ کی ترجمان لِن جیان نے کہا کہ امریکہ کو بیجنگ کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔

چائنا ایڈ کے باب فُو نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ زایون چرچ کے 23 اراکین اب بھی حراست میں ہیں، تاہم آٹھ افراد کو اپنے وکیلوں سے ملاقات کی اجازت دے دی گئی ہے۔ جو بیجنگ کی جانب سے ''بین الاقوامی دباؤ‘‘ کے نتیجے میں ایک غیر معمولی قدم ہے۔

فُو نے کہا چونکہ گرفتار شدگان کو سیاسی قیدی تصور کیا جاتا ہے اس لیے سی سی پی نے واقعی اس بار کچھ نرمی دکھائی ہے۔ تفتیشی مرحلے میں وکیلوں سے ملاقات کی اجازت ماضی میں ناقابلِ تصور بات تھی۔

پیو ریسرچ کے مطابق، چینی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک کی صرف 2 فیصد آبادی، یعنی تقریباً 2.9 سے 4.4 کروڑ افراد، مسیحی ہیںتصویر: Andy Wong/AP Photo/picture alliance

شی جن پنگ کا مسیحیت پر سخت کنٹرول

غیر منافع بخش تنظیم 'گلوبل کرسچین ریلیف‘ کے مطابق، مسیحیوں کی سب سے بڑی مظلوم آبادی چین میں رہتی ہے، جہاں 2012 میں شی کے اقتدار سنبھالنے کے بعد سے مذہبی آزادی تیزی سے سکڑتی جا رہی ہے۔

گزشتہ دہائی میں، شی نے مذہب کی "سینی سائزیشن" یعنی "چینی رنگ دینے" کی پالیسی کو فروغ دیا، جس کے تحت مذہبی گروہوں پر نظریاتی کنٹرول سخت کیا گیا اور چرچز اور صلیبوں کی مسماری کے احکامات دیے گئے۔

امریکہ میں جلا وطن چینی مسیحی مِیرو رین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حال ہی میں چین میں غیر رجسٹرڈ "ہاؤس چرچز" پر پولیس چھاپوں میں اضافہ ہوا ہے۔

رین نے کہا، ''میں نے گزشتہ چند سالوں میں کئی اراکین کو ایک کے بعد ایک گرفتار ہوتے دیکھا ہے، لیکن اس پیمانے پر کبھی نہیں۔ اس بار صورتحال مختلف محسوس ہو رہی ہے۔‘‘

رین چین کے جنوب مغربی شہر چنگدو میں واقع "ارلی رین کوویننٹ چرچ" کی رکن تھیں، جس کے پادری کو 2018 میں گرفتار کر کے نو سال قید کی سزا دی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ رجسٹریشن سسٹم دراصل حکومت کا ایک سیاسی آلہ ہے تاکہ وہ لوگوں کے عقائد پر زیادہ کنٹرول حاصل کر سکے۔

’’حکومت آپ کے خیالات پر قابو پانا چاہتی ہے اور یہ عقیدے کی سرحد سے تجاوز ہے۔‘‘

چینی پادری باب فُو نے بھی ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حکام غیر رجسٹرڈ چرچز کی عبادت اور اجتماع کو "سیاسی اور نظریاتی خطرہ" سمجھتے ہیں۔

انہوں نے کہا،(شی) خدا بننا چاہتا ہے، اگر آپ اس کی پرستش، تعظیم اور مکمل اطاعت نہیں کرتے تو وہ آپ کو معاشرے میں ناقابلِ برداشت سمجھتا ہے۔‘‘

چین: ایغور مسلمان بچوں کی شرح پیدائش کم کرنے کی جبری کوشش

02:50

This browser does not support the video element.

خوف اور استقامت

پیو ریسرچ کے مطابق، چینی سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک کی صرف 2 فیصد آبادی، یعنی تقریباً 2.9 سے 4.4 کروڑ افراد، مسیحی ہیں۔ لیکن ان اعداد و شمار میں ہاوس چرچز کے اراکین شامل نہیں۔

کئی مذہبی ماہرین کا اندازہ ہے کہ چین میں مجموعی طور پر کروڑوں مسیحی ہیں، جن میں غیر رجسٹرڈ چرچز کے پیروکار بھی شامل ہیں۔

باب فُو نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اگرچہ چرچ رہنماؤں کی اجتماعی گرفتاریوں نے خوف پیدا کیا ہے، لیکن طویل نگرانی کی زندگی نے بہت سے لوگوں کو ذہنی طور پر بدترین حالات کے لیے تیار کر دیا ہے۔

انہوں نے کہا، ''زیادہ تر ایمان رکھنے والے جانتے ہیں کہ یہ جلد یا بدیر ہونا ہی تھا… یہاں تک کہ چرچ کی قیادت کے اندر جانشینی کے منصوبے بھی پہلے سے تیار کر لیے گئے ہیں۔‘‘

اس کے باوجود، وہ پرامید رہتے ہیں، جن میں زائون چرچ کے بانی پادری جِن بھی شامل ہیں۔

فُو، جو جِن کے دوست ہیں، نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ گرفتار پادری کا یقین ہے کہ اگر وہ جیل گئے تو اس سے چین کے چرچ مزید مضبوط اور خوشحال ہوں گے۔

اگرچہ چینی حکومت نے اس کریک ڈاؤن میں تقریباً تمام اعلیٰ سطحی چرچ رہنماؤں کو گرفتار کر لیا ہے، لیکن فُو کے مطابق عبادات اور اجتماع معمول کے مطابق جاری ہیں۔

انہوں نے کہا، ''میرا یقین ہے کہ تاریخ ایک بار پھر ثابت کرے گی کہ دباؤ کے ذریعے مسیحیت کی مخالفت آخرکار ناکام ہو گی۔‘‘

ادارت: صلاح الدین زین

جاوید اختر جاوید اختر دنیا کی پہلی اردو نیوز ایجنسی ’یو این آئی اردو‘ میں پچیس سال تک کام کر چکے ہیں۔
ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں