افغانستان سے امریکی فوجی دستوں کے انخلا کے موقع پر چین نے اپنے شہریوں کو ایک ہنگامی چارٹرڈ فلائٹ کے ذریعے واپس اپنے وطن پہنچا دیا ہے۔ بیجنگ حکومت کے اس اقدام کو چینی سوشل میڈیا پر قومی فتح قرار دیا جارہا ہے۔
اشتہار
گزشتہ ہفتے دو جولائی جمعہ کے روز افغان دارالحکومت کابل سے چینی شہر ووہان کے لیے روانہ ہونے والی خصوصی پرواز کے ذریعے 210 چینی شہریوں کو وطن واپس پہنچادیا گیا ہے۔
قبل ازیں چینی دفتر خارجہ نے ایک سوشل میڈیا پوسٹ میں لکھا تھا کہ شورش زدہ ملک افغانستان میں موجود تمام چینی شہریوں کو سکیورٹی کے پیش نظر ملک چھوڑنے کی ہدایات جاری کردی گئی تھیں۔
چین کی شیامین ایئرلائن کے مطابق اِن مسافروں میں سے 22 افراد میں کورونا وائرس کی تشخیص ہوئی ہے۔ چینی دفتر خارجہ نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ افغانستان سے واپس وطن لوٹنے والے چینی شہریوں میں کچھ افراد کورونا انفیکشن کا شکار تھے۔
افغانستان کی سکیورٹی صورتحال پر چین کی تشویش
امریکی صدر جو بائیڈن پہلے ہی یہ اعلان کر چکے ہیں کہ 31 اگست تک افغانستان سے تمام امریکی فوجی دستے واپس لوٹ جائیں گے لیکن حالیہ چند ہفتوں کے دوران عسکریت پسند گروہ طالبان، افغانستان کے بڑے حصے پر قبضے کا دعویٰ بھی کر رہا ہے۔
بیجنگ حکومت نے اس حوالے سے واشنگٹن پر سخت تنقید کی تھی کہ وہ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا جلدبازی اور افراتفری کے طور پر دیکھ رہی ہے۔
چینی وزارت خارجہ کی ترجمان وانگ وین بین نے امریکا کو افغانستان کی صورتحال کا ذمہ قرار دیتے ہوئے کہا، ''امریکا اپنی ذمہ داری اور فرائض کو نظرانداز کر رہا ہے اور عجلت میں اپنے فوجیوں کو واپس لے کر جارہا ہے، امریکا افغان عوام اور خطے میں جنگ چھوڑ کر جا رہا ہے۔‘‘
علاوہ ازیں چینی وزیر خارجہ وانگ یی آئندہ ہفتے شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں اپنے روسی، بھارتی، پاکستانی اور وسطی ایشیائی ممالک کے ہم منصبوں سے افغانستان کی بگڑتی سکیورٹی صورتحال پر تبادلہ خیال کریں گے۔
چینی شہریوں کی وطن واپسی 'قومی فتح‘
مقامی میڈیا کے مطابق بیجنگ حکومت نے اپنے شہریوں کو بحفاظت وطن واپس پہنچانے کے لیے اس خصوصی پرواز کا انتظام کیا تھا۔ اس کے بعد چین میں سوشل میڈیا پر افغانستان سے چینی باشندوں کی واپسی کو قومی فتح تصور کیا جارہا ہے۔ اس خصوصی پرواز کی ویڈیو کو تین سو ملین افراد نے دیکھا ہے اور چینی شہریوں کی وطن سے واپسی سے متعلق متعدد ہیش ٹیگ بھی ٹرینڈ کر رہے ہیں۔ شیامین ایئرلائن کے پائلٹ کے بقول، ''اس راستے پر پرواز کرنا آسان نہیں، ہم ایک بھی ہم وطن کو پیچھے نہیں چھوڑیں گے۔‘‘
ع آ / ا ب ا (اے ایف پی)
امریکا کی رخصتی اور افغانستان میں بکھرا امریکی کاٹھ کباڑ
بگرام ایئر بیس قریب بیس برسوں تک امریکی فوج کا افغانستان میں ہیڈکوارٹرز رہا۔ اس کو رواں برس بہار میں خالی کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا اور اب وہاں ٹنوں کاٹھ کباڑ پڑا ہے۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
تا حدِ نگاہ اسکریپ
امریکا کے افغانستان مشن کی سیاسی باقیات کا تعین وقت کرے گا لیکن اس کا بچا کھچا دھاتی اسکریپ اور کچرا ہے جو سارے افغانستان میں بکھرا ہوا ہے۔ امریکا بگرام ایئر بیس کو ستمبر گیارہ کے دہشت گردانہ واقعات کی بیسویں برسی پر خالی کر دے گا۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
کچرا کہاں رکھا جائے؟
امریکی فوجی اپنے ہتھیار یا تو واپس لے جائیں گے یا مقامی سکیورٹی اہلکاروں کے حوالے کر سکتے ہیں۔ اس کے باوجود وہ اپنے پیچھے بہت کچھ چھوڑ کر جائیں گے۔ اس میں زیادہ تر بیکار دھاتی کاٹھ کباڑ اور ضائع شدہ الیکٹرانک سامان شامل ہے۔ سن 2001 کے بعد سے ایک لاکھ سے زائد امریکی فوجی بگرام ایئر بیس پر تعینات ہوئے۔ یہ بیس کابل سے ستر کلو میٹر دور ایک چھوٹے سے قصبے میں قائم کیا گیا تھا۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
ایک کا کاٹھ کباڑ دوسرے کے لیے قیمتی
بگرام بیس کے باہر جمع ہونے والا اسکریپ قسمت بنانے کے خواہش مند افراد کے لیے بہت اہم ہے۔ بے شمار افراد اس کاٹھ کباڑ میں سے مختلف اشیاء تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جیسا کہ فوجی بوٹ وغیرہ۔ وہ ایسے سامان کو بیچ کر اپنے لیے پیسے حاصل بناتے ہیں۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
الیکٹرانک سامان کی تلاش
بگرام بیس کے باہر جمع اسکریپ کی بڑے ڈھیر میں سے لوگ الیکٹرانک سامان بھی ڈھونڈتے ہیں۔ ان میں سرکٹ بورڈ وغیرہ اہم ہیں۔ کچھ لوگ استعمال ہونے والی دھاتیں جیسا کہ تانبا وغیرہ کو بھی ڈھونڈتے ہیں۔ کبھی تھوڑی مقدار میں سونا بھی مل جاتا ہے۔ امریکیوں کے لیے یہ کوڑا کرکٹ ہے لیکن افغان باشندوں کے لیے جو سالانہ محض پانچ سو یورو تک ہی کماتے ہیں، یہ واقعی ایک خزانہ ہے۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
بگرام کس کے پاس جائے گا؟
بگرام کوہِ ہندوکش کے دامن میں ہے اور اس کی برسوں پرانی فوجی تاریخ ہے۔ سابقہ سوویت یونین کی فوج نے اس جگہ کو سن 1979 میں اپنے مقاصد کے لیے استعمال کیا۔ افغان شہریوں کو خوف ہے کہ امریکی فوجیوں کی روانگی کے بعد یہ جگہ طالبان سنبھال لیں گے۔
تصویر: imago images
ایک پرخطر انخلا
غیر ملکی فوجیوں کا انخلا رواں برس پہلی مئی سے شروع ہے۔ ان کے پاس اسکریپ سنبھالنے کا وقت نہیں ایسے ہی بھاری ہتھیاروں کا معاملہ ہے۔ طالبان کے کسی ممکنہ حملے کو روکنے کے لیے اضافی فوجی ابھی بھی متعین ہیں۔ مغربی دفاعی اتحاد کے رکن اور پارٹنر 26 ممالک کے فوجی افغانستان میں تعینات رہے۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
خواتین بھی میدان میں
تصویر میں ایک لڑکی بگرام ایئر بیس کے باہر کاٹھ کباڑ سے ملنے والی دھاتوں کا ٹوکرا اٹھا کر جا رہی ہے۔ کئی عورتیں اور لڑکیاں اس کام میں شریک ہیں۔ مشکل کام کے باوجود خواتین کو مالی فائدہ پہنچا ہے۔ یہ بالغ لڑکیاں اسکول بھی جاتی تھیں، اور اُن شعبوں میں بھی کام کرتی ہیں جو پہلے ممنوعہ تھے جیسے کہ عدالتیں اور دوسرے ادارے شامل ہیں۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
پیچھے رہ جانے والے لوگ
اس دھاتی اسکریپ کے ڈھیر کے آس پاس کئی اشیا بعض لوگوں کے لیے جذباتی وابستگی کی حامل بھی ہیں۔ اس بیس کے ارد گرد کئی بستیاں بھی آباد ہوئیں اور ان کی بقا بیس کے مکینوں پر تھی۔ اب بہت سے ایسے لوگ سوچتے ہیں کہ وہ اور ان کا خاندان گزر بسر کیسے کرے گا۔
تصویر: Adek Berry/Getty Images/AFP
باقی کیا بچا؟
ہندوکش علاقے میں امریکی فوجیوں کی موجودگی کے بعد فوجی بوٹوں اور زنگ آلود تاروں کے علاوہ کیا باقی بچا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے اپنے افغان ہم منصب کے ساتھ ملاقات کے بعد افغانستان کے ساتھ پائیدار شراکت جاری رکھنے کا عندیہ ضرور دیا۔ اب لاکھوں افغان افراد جو بائیڈن کو اپنے وعدے کو وفا کرتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں۔