1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین نے اپنے جوہری ہتھیاروں میں تیز رفتار توسیع کی ہے، امریکہ

20 اکتوبر 2023

واشنگٹن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ گرچہ چین کے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری اندازے سے کہیں زیادہ ہے، تاہم اس کا ذخیرہ روس اور امریکہ کے مقابلے میں اب بھی بہت کم ہے۔

چینی میزائل
امریکی حکام کا یہ بھی کہنا کہ ممکنہ طور پر بیجنگ نے سن 2022 میں میزائل سائٹس کے تین نئے کلسٹرز کی تعمیر بھی مکمل کر لی ہےتصویر: Tao Liang/Photoshot/picture alliance

امریکہ کا کہنا ہے کہ چین نے گزشتہ سال کے دوران اپنے جوہری ذخیرے میں نمایاں اضافہ کیا ہے اور اب اس کے پاس 500 آپریشنل وار ہیڈز ہیں۔

کیا روس جوہری ہتھیار ٹیسٹ کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے؟

پینٹاگون کی طرف سے جاری ہونے والی سالانہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بیجنگ کو توقع ہے کہ سن 2030 تک وہ اپنے جوہری ہتھیاروں کی تعداد کو دوگنا کر کے ایک ہزار وار ہیڈز تک پہنچ جائے گا۔

سعودی عرب بھی جوہری ہتھیار حاصل کر لے گا اگر ۔۔۔۔ محمد بن سلمان

تاہم امریکہ نے یہ بات بھی تسلیم کی چین ''پہلے جوہری حملہ نہ کرنے'' کی پالیسی پر قائم ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ گرچہ چینی ایٹمی ہتھیاروں کی نمو تخمینوں سے زیادہ ہے، تاہم اس کا ذخیرہ روس اور امریکہ کے مقابلے میں اب بھی بہت کم ہے۔

شمالی کوریا کی’جوہری حملہ‘ کرنے کی فرضی مشق

ایک آزاد ادارے 'اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ' (سپری)کے مطابق روس کے پاس فی الوقت تقریباً 5,889 جوہری ہتھیار ہیں، جب کہ امریکہ کے پاس بھی 5,244 جوہری ہتھیاروں کا ذخیرہ ہو سکتا ہے۔

جوہری ہتھیار استعمال نہیں کیے جائیں گے، بیلاروس

سن 2021 میں امریکی محکمہ دفاع نے اپنے اندازوں کے مطابق یہ کہا تھا کہ چین کے پاس 400 کے قریب ایٹمی وار ہیڈز تھے۔

چینی صدر نے مبینہ طور پر اپنے دفاعی سربراہوں کو حکم دیا ہے کہ وہ سن 2027 تک جزیرے پر زبردستی دوبارہ قبضہ کرنے کی فوجی صلاحیت کو تیار کریںتصویر: Kyodo/picture alliance

ایک سینیئر امریکی دفاعی اہلکار نے جمعرات کے روز نامہ نگاروں سے بات چیت میں کہا کہ ''ہم یہ کہنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں کہ ان کی (چین) رفتار میں کوئی بہت بڑی تبدیلی آ رہی ہے۔۔۔۔۔ لیکن ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ وہ اپنے پچھلے تخمینوں سے تجاوز کرنے کے راستے پر ہے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ" یہ مسئلہ  (امریکہ) کے لیے بہت زیادہ خدشات پیدا کرتا ہے۔''

واضح رہے کہ چینی صدر شی جن پنگ نے اعلان کر رکھا ہے کہ چین کے پاس سن 2049 تک ''عالمی معیار کی فوج'' تیار ہو گی۔ سن 2012 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے صدر شی جن پنگ نے ملک کی مسلح افواج کو جدید بنانے کی بہت کوشش کی ہے۔

 پینٹاگون کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین اپنے جوہری ہتھیاروں کو بڑھانے کے لیے موجودہ مہم کے تحت ''اسکیل اور پیچیدگی دونوں میں پچھلی کوششوں کو کم کرنے کے لیے بھی تیار ہے۔''

امریکی حکام کا یہ بھی کہنا کہ ممکنہ طور پر بیجنگ نے سن 2022 میں میزائل سائٹس کے تین نئے کلسٹرز کی تعمیر بھی مکمل کر لی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان شعبوں میں کم از کم 300 نئے بین البراعظمی بیلسٹک میزائل (آئی سی بی ایم)  سائلوز بھی شامل ہیں۔ یہ وہ بیلسٹک میزائل ہیں جن کی رینج 5,500 کلومیٹر سے بھی زیادہ ہے۔

رپورٹ کے مطابق پیپلز لبریشن آرمی کی راکٹ فورسز بھی ایسے آئی سی بی ایم تیار کرنے کی کوشش کر رہی ہیں جس سے ''عوامی جمہوریہ چین کے پاس براعظم امریکہ، ہوائی اور الاسکا میں اہداف کے خلاف روایتی حملے کرنے کی صلاحیت بھی پیدا ہو جائے گی۔'' 

 اس تجزیاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جوہری ذخیرے میں اضافے کے باوجود، چین اب بھی اپنی پہلے حملہ نہ کرنے کی پالیسی پر قائم ہے اور وہ ''دشمن کے پہلے حملے کی 'ڈیٹرنس' اور ڈیٹرنس ناکام ہونے پر 'کاونٹر اسٹرائیک' کی پالیسی پر کار بند ہے۔''

 پینٹاگون کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ حالیہ مہینوں میں بیجنگ نے تائیوان کے خلاف ''سفارتی، سیاسی اور فوجی دباؤ بڑھایا ہے۔''

اطلاعات کے مطابق چینی صدر نے مبینہ طور پر اپنے دفاعی سربراہوں کو حکم دیا ہے کہ وہ سن 2027 تک جزیرے پر زبردستی دوبارہ قبضہ کرنے کی فوجی صلاحیت کو تیار کریں۔

پینٹاگون کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین نے تائیوان کی جانب بیلسٹک میزائلوں کی پروازوں، اس کی فضائی حدود میں پروازوں میں اضافہ اور اس کے پانیوں کے ارد گرد فوجی مشقوں کا حکم دیا ہے، تاکہ جزیرے کو غیر مستحکم کیا جا سکے۔

یہ نتائج ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب چین اور امریکہ کے سفارتی تعلقات میں تنزلی آئی ہے۔

بدھ کے روز، واشنگٹن نے چینی فضائیہ کے پائلٹوں پر الزام لگایا کہ وہ بحرالکاہل میں بین الاقوامی فضائی حدود میں امریکی فوجی طیاروں کے خلاف سینکڑوں ''زبردست اور خطرناک'' قسم کی مشقیں کر رہے ہیں۔

پینٹاگون نے ایسی مشقوں کی ویڈیوز اور تصاویر بھی جاری کی ہیں اور اس کا کہنا ہے کہ سن 2021 سے اب تک ایسے 180 واقعات ہو چکے ہیں۔

ص ز / ج ا (نیوز ایجنسیاں) 

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں