چین نے اپنے جوہری ہتھیاروں میں تیز رفتار توسیع کی ہے، امریکہ
20 اکتوبر 2023
واشنگٹن نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ گرچہ چین کے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری اندازے سے کہیں زیادہ ہے، تاہم اس کا ذخیرہ روس اور امریکہ کے مقابلے میں اب بھی بہت کم ہے۔
اشتہار
امریکہ کا کہنا ہے کہ چین نے گزشتہ سال کے دوران اپنے جوہری ذخیرے میں نمایاں اضافہ کیا ہے اور اب اس کے پاس 500 آپریشنل وار ہیڈز ہیں۔
پینٹاگون کی طرف سے جاری ہونے والی سالانہ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ بیجنگ کو توقع ہے کہ سن 2030 تک وہ اپنے جوہری ہتھیاروں کی تعداد کو دوگنا کر کے ایک ہزار وار ہیڈز تک پہنچ جائے گا۔
تاہم امریکہ نے یہ بات بھی تسلیم کی چین ''پہلے جوہری حملہ نہ کرنے'' کی پالیسی پر قائم ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ گرچہ چینی ایٹمی ہتھیاروں کی نمو تخمینوں سے زیادہ ہے، تاہم اس کا ذخیرہ روس اور امریکہ کے مقابلے میں اب بھی بہت کم ہے۔
ایک آزاد ادارے 'اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ' (سپری)کے مطابق روس کے پاس فی الوقت تقریباً 5,889 جوہری ہتھیار ہیں، جب کہ امریکہ کے پاس بھی 5,244 جوہری ہتھیاروں کا ذخیرہ ہو سکتا ہے۔
سن 2021 میں امریکی محکمہ دفاع نے اپنے اندازوں کے مطابق یہ کہا تھا کہ چین کے پاس 400 کے قریب ایٹمی وار ہیڈز تھے۔
ایک سینیئر امریکی دفاعی اہلکار نے جمعرات کے روز نامہ نگاروں سے بات چیت میں کہا کہ ''ہم یہ کہنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں کہ ان کی (چین) رفتار میں کوئی بہت بڑی تبدیلی آ رہی ہے۔۔۔۔۔ لیکن ہم یہ کہنا چاہتے ہیں کہ وہ اپنے پچھلے تخمینوں سے تجاوز کرنے کے راستے پر ہے"۔ انہوں نے مزید کہا کہ" یہ مسئلہ (امریکہ) کے لیے بہت زیادہ خدشات پیدا کرتا ہے۔''
واضح رہے کہ چینی صدر شی جن پنگ نے اعلان کر رکھا ہے کہ چین کے پاس سن 2049 تک ''عالمی معیار کی فوج'' تیار ہو گی۔ سن 2012 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے صدر شی جن پنگ نے ملک کی مسلح افواج کو جدید بنانے کی بہت کوشش کی ہے۔
پینٹاگون کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین اپنے جوہری ہتھیاروں کو بڑھانے کے لیے موجودہ مہم کے تحت ''اسکیل اور پیچیدگی دونوں میں پچھلی کوششوں کو کم کرنے کے لیے بھی تیار ہے۔''
امریکی حکام کا یہ بھی کہنا کہ ممکنہ طور پر بیجنگ نے سن 2022 میں میزائل سائٹس کے تین نئے کلسٹرز کی تعمیر بھی مکمل کر لی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان شعبوں میں کم از کم 300 نئے بین البراعظمی بیلسٹک میزائل (آئی سی بی ایم) سائلوز بھی شامل ہیں۔ یہ وہ بیلسٹک میزائل ہیں جن کی رینج 5,500 کلومیٹر سے بھی زیادہ ہے۔
رپورٹ کے مطابق پیپلز لبریشن آرمی کی راکٹ فورسز بھی ایسے آئی سی بی ایم تیار کرنے کی کوشش کر رہی ہیں جس سے ''عوامی جمہوریہ چین کے پاس براعظم امریکہ، ہوائی اور الاسکا میں اہداف کے خلاف روایتی حملے کرنے کی صلاحیت بھی پیدا ہو جائے گی۔''
اس تجزیاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جوہری ذخیرے میں اضافے کے باوجود، چین اب بھی اپنی پہلے حملہ نہ کرنے کی پالیسی پر قائم ہے اور وہ ''دشمن کے پہلے حملے کی 'ڈیٹرنس' اور ڈیٹرنس ناکام ہونے پر 'کاونٹر اسٹرائیک' کی پالیسی پر کار بند ہے۔''
پینٹاگون کی رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ حالیہ مہینوں میں بیجنگ نے تائیوان کے خلاف ''سفارتی، سیاسی اور فوجی دباؤ بڑھایا ہے۔''
اطلاعات کے مطابق چینی صدر نے مبینہ طور پر اپنے دفاعی سربراہوں کو حکم دیا ہے کہ وہ سن 2027 تک جزیرے پر زبردستی دوبارہ قبضہ کرنے کی فوجی صلاحیت کو تیار کریں۔
پینٹاگون کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چین نے تائیوان کی جانب بیلسٹک میزائلوں کی پروازوں، اس کی فضائی حدود میں پروازوں میں اضافہ اور اس کے پانیوں کے ارد گرد فوجی مشقوں کا حکم دیا ہے، تاکہ جزیرے کو غیر مستحکم کیا جا سکے۔
یہ نتائج ایسے وقت میں سامنے آئے ہیں جب چین اور امریکہ کے سفارتی تعلقات میں تنزلی آئی ہے۔
بدھ کے روز، واشنگٹن نے چینی فضائیہ کے پائلٹوں پر الزام لگایا کہ وہ بحرالکاہل میں بین الاقوامی فضائی حدود میں امریکی فوجی طیاروں کے خلاف سینکڑوں ''زبردست اور خطرناک'' قسم کی مشقیں کر رہے ہیں۔
پینٹاگون نے ایسی مشقوں کی ویڈیوز اور تصاویر بھی جاری کی ہیں اور اس کا کہنا ہے کہ سن 2021 سے اب تک ایسے 180 واقعات ہو چکے ہیں۔
ص ز / ج ا (نیوز ایجنسیاں)
ناگاساکی پر ایٹمی حملے کو 76 برس ہو گئے
1945ء میں دو جاپانی شہروں پر امریکی حملے ابھی تک کسی بھی جنگ میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کا واحد واقعہ ہیں۔ چھ اگست کو ہیروشیما پر ایٹمی حملے کے تین دن بعد امریکا نے ناگاساکی پر بھی ایٹم بم گرایا تھا۔
تصویر: Courtesy of the National Archives/Newsmakers
پہلا حملہ
چھ اگست 1945ء کو امریکی جہاز Enola Gay نے ہیروشیما پر پہلا ایٹم بم گرایا تھا۔ اس بم کو’لٹل بوائے‘ کا بے ضرر سا نام دیا گیا تھا۔ اُس وقت اس شہر کی آبادی ساڑھے تین لاکھ تھی اور حملے کے فوری بعد ستر ہزار لوگ ہلاک ہو گئے تھے۔ چند دنوں کے دوران مرنے والوں کی تعداد دگنی ہو گئی تھی۔
تصویر: Three Lions/Getty Images
حملے میں تاخیر
منصوبے کے مطابق ہیروشیما پر یکم اگست 1945ء کو حملہ کیا جانا تھا تاہم خراب موسم کی وجہ سے امریکیوں کو اسے ملتوی کرنا پڑا۔ پانچ روز بعد بمبار جہاز ’انولا گے‘ تیرہ رکنی عملے کے ساتھ اپنا مشن پورا کرنے کے لیے روانہ ہوا۔ اس ٹیم کو راستے میں معلوم ہوا کہ وہ ایٹم بم گرانے جا رہی ہے۔
تصویر: gemeinfrei
دوسرا جوہری حملہ
ہیروشیما پر حملے کے تین روز بعد امریکیوں نے ناگاساکی پر دوسرا ایٹم بم گرایا۔ منصوبے کے مطابق دوسرا ایٹم بم کیوٹو پر گرایا جانا تھا۔ امریکی وزارت دفاع کی مخالفت کے بعد یہ ہدف تبدیل کر دیا گیا۔ ’فیٹ مین‘ نامی یہ بم 22 ٹن وزنی تھا۔ اس جوہری بم نے بھی قریب ستر ہزار افراد کی جان لی تھی۔
تصویر: Courtesy of the National Archives/Newsmakers
ہدف کا اسٹریٹیجک انتخاب
1945ء میں ناگاساکی میں اسلحہ ساز کمپنی مٹسوبیشی کی مرکزی دفتر قائم تھا۔ وہاں بحری اڈہ بھی موجود تھا۔ اس شہر میں وہ تارپیڈو بھی تیار کیے گئے تھے، جوجاپان نے پرل ہاربر پر حملے کے لیے استعمال کیے تھے۔ ناگاساکی میں بہت کم ہی جاپانی فوجی تعینات تھے۔ تاہم خراب موسم کی وجہ سے شپ یارڈ کو نشانہ نہ بنایا جا سکا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ہلاکتیں بڑھتی ہی چلی گئیں
حملوں کے بعد بھی کئی ماہ تک تابکاری اثرات ہزاروں افراد کی موت کا باعث بنتے رہے۔ صرف ہیروشیما میں 1945ء کے اختتام تک ہلاک ہونے والے شہریوں کی تعداد میں ساٹھ ہزار کا اضافہ ہو چکا تھا۔ ہلاکتوں میں اضافہ تابکاری، بری طرح جھلس جانے اور دیگر زخموں کی وجہ سے ہوا۔ بعد ازاں لگائے گئے اندازوں کے مطابق دوہرے جوہری حملوں میں مرنے والوں کی تعداد دو لاکھ تیس ہزار تک رہی تھی۔
تصویر: Keystone/Getty Images
خوف کے سائے میں جنگ کا اختتام
ہیروشیما اور ناگاساکی پر حملوں کے بعد بھی متعدد جاپانی شہریوں کو خدشہ تھا کہ تیسرا ایٹمی بم ٹوکیو پر گرایا جائے گا۔ جاپان نے ہتیھار پھینکنے کا اعلان کیا اور اس طرح ایشیا میں دوسری عالمی جنگ کا اختتام ہوا۔ امریکی صدر ہیری ٹرومین نے جوہری حملوں کے احکامات دیے تھے۔ کئی مؤرخین ان حملوں کو جنگی جرائم قرار دیتے ہیں۔
تصویر: AP
تعمیر نو
ہیروشیما کے تباہ شدہ شہر کو مکمل طور پر دوبارہ تعمیر کیا گیا ہے۔ صرف دریائے اوٹا پر واقع ایک جزیرے پر امن پارک پہلے ہی طرح قائم ہے۔ یہاں پر ایک یادگاری شمع بھی روشن کی گئی ہے۔ یہ شمع اس وقت بجھائی جائے گی، جب دنیا سے آخری ایٹم بم کا خاتمہ ہو جائے گا۔
تصویر: Keystone/Getty Images
یادگاروں کی تعمیر کی جاپانی روایت
ناگاساکی میں 1955ء سے جوہری بم حملوں کے حوالے سے ایک عجائب گھر اور ان حملوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے افراد کی یاد میں ایک امن پارک قائم ہے۔ جاپان میں 1945ء کے ان واقعات میں ہلاک ہونے والوں کی یاد کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ دنیا بھر میں ہیروشیما اور ناگاساکی کو ایٹمی ہتھیاروں کی تباہ کاریوں کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images
یادگاری تقریبات
اگست 1945ء کے ان حملوں میں ہلاک ہونے والوں کی یاد میں دنیا بھر میں تقریبات منعقد کی جاتی ہیں۔ ہیروشیما میں منقعد ہونے والی سالانہ تقریب میں حملوں میں بچ جانے والے، ہلاک ہونے والوں کے لواحقین، شہری اور سیاستدان شرکت کرتے ہیں اور اس دوران ایک منٹ کے لیے خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔
تصویر: Kazuhiro Nogi/AFP/Getty Images
جوہری ہتھیاروں کے خلاف آواز
پیروشیما میں امن یادگاری پارک میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جاپانی وزیراعظم شینزو آبے نے کہا کہ جاپان دنیا بھر سے جوہری ہتھیاروں کے خاتمے کے لیے آواز اٹھاتا رہے گا۔