چین نے ایغور مسلمانوں کی غالباً ’نسل کشی‘ کی ہے،امریکی کمیشن
15 جنوری 2021
امریکی کانگریس کے ایک کمیشن کا کہنا ہے کہ چین نے سنکیانگ صوبے میں 'نسل کشی‘ کی ہے۔ یہ رپورٹ ایغور اور دیگر اقلیتوں کے تئیں بیجنگ کے سلوک کے حوالے سے تازہ ترین الزام ہے۔
اشتہار
امریکی کانگریس کی ایک کل جماعتی کمیشن نے جمعرات کے روز پیش کردہ اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ چین نے اپنے شمال مغربی صوبے سنکیانگ میں ایغور مسلمانوں اور دیگر نسلی اقلیتوں کی غالباً نسل کشی کی ہے۔
چین سے متعلق خصوصی کمیشن (سی ای سی سی) کا کہنا ہے کہ ''جو نئے شواہد سامنے آئے ہیں ان سے اندازہ ہوتا ہے کہ سنکیانگ میں انسانیت کے خلاف جرائم اور غالباً نسل کشی ہوئی ہے۔"
رپورٹ میں کہا گیا ہے، ”ایغور مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے ہاں بچوں کی پیدائش پر روک لگانے کے لیے ایک پالیسی کے تحت منظم انداز میں عورتوں کو جبراً بانجھ بنانے کے اقدامات کے پریشان کن نئے شواہد سامنے آئے ہیں۔"
رپورٹ میں اس سلسلے میں سن 2017 کی ایک پالیسی دستاویز کا حوالہ دیا گیا ہے جس میں اس خطے میں ابتدائی اور مڈل اسکول کی عمر کے بچوں کو ان کے خاندان سے زبردستی الگ کردینے کی بات کہی گئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ”ان رجحانات سے پتہ چلتا ہے کہ چینی حکومت ایغور اور دیگر اقلیتوں کے کنبوں، ثقافت اور مذہبی روایات کو تباہ کرنے کے لیے قصداً کام کر رہی ہے۔ اس کے ان اقدامات کو یہ طے کرنے کے لیے مدنظر رکھا جانا چاہیے کہ آیا چینی حکومت ایغور، قزاق اور دیگر ترک نسل کے لوگوں اور بالخصوص چین میں نسلی مسلم اقلیتوں کے خلاف جرائم بشمول نسل کشی کے لیے ذمہ دار ہے یا نہیں۔"
چین کا جواب
واشنگٹن میں چینی سفارت خانے نے اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے نسل کشی کے امکان کو ”افواہ" قرار دیا۔
چینی سفارت خانے کے ایک ترجمان نے کہا کہ چین سے متعلق کانگریس کی خصوصی کمیٹی (سی ای سی سی) کو ''چین کو بدنام کرنے کے لیے ہر طرح کے جھوٹے دعوے کرنے کا شوق ہے۔ مبینہ 'نسل کشی‘ محض افواہ ہے جو بعض چین مخالف طاقتوں نے اڑائی ہے اور اس کا مقصد چین کو بد نام کرنا ہے۔"
چین: ایغور مسلمان بچوں کی شرح پیدائش کم کرنے کی جبری کوشش
02:50
عالمی برداری سنکیانگ کے متعلق چین کی پالیسیوں کی وجہ سے بیجنگ کی نکتہ چینی کرتی رہی ہے۔ حقوق انسانی کے گروپوں کا کہنا ہے کہ دس لاکھ سے زیادہ ایغور، جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے، حراستی کیمپوں میں رکھے گئے ہیں۔ تاہم بیجنگ کا کہنا ہے کہ لوگوں کو ان کیمپوں میں تعلیم اور تکنیکی تربیت کے لیے رکھا جاتا ہے اور 'تعلیم حاصل کرلینے‘ کے بعد انہیں واپس گھر بھیج دیا جا تا ہے۔
اشتہار
کمیشن کی اپیل
کمیشن نے اپنی رپورٹ میں اپیل کی ہے امریکا ”باضابطہ اس بات کا تعین کرے کہ سنکیانگ میں زیادتیوں کا ارتکاب ہو رہا ہے یا نہیں۔"
ٹرمپ انتظامیہ مبینہ طور پر پہلے ہی اس سلسلے میں غور کر رہی ہے اور اگر وہ اس کا باضابطہ تعین کردیتی ہے تو اس سے بیجنگ کی بین الاقوامی ساکھ بری طرح متاثر ہوگی۔
امریکا کی جانب سے باضابطہ تعین کا مطلب یہ ہوگا کہ دیگر ممالک سنکیانگ کے ساتھ تجارت کرنے کے لیے اپنے ملک کی کمپنیوں کو اجازت دینے کے فیصلے پر نظر ثانی کریں گی۔ اس سے دیگر امریکی پابندیو ں کے لیے بھی دباو بڑھ جائے گا۔ سنکیانگ میں دنیا کا بیس فیصد سے زیادہ کپاس پیدا ہوتا ہے۔
سی ای سی سی کے شریک چیئرمین اور ڈیموکریٹ نمائندہ جیمس میک گورن نے نو منتخب صدر جو بائیڈن انتظامیہ سے اپیل کی کہ وہ اس رپورٹ کو بیجنگ کو قصوروار ٹھہرانے کے لیے استعمال کرے۔
میک گورن نے کہا ”امریکا کو چین کے عوام کی جدوجہد میں ان کے شانہ بشانہ کھڑا رہنا چاہیے اور چینی حکومت کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیو ں کو روکنے کے لیے ایک متحد اور مربو ط عالمی اقدام میں دنیا کی قیادت کرنی چاہیے۔"
ج ا/ ص ز (روئٹرز)
چین میں ایغوروں کا دیس سکیورٹی اسٹیٹ میں تبدیل
چین کا کہنا ہے کہ اُسے اپنے مغربی علاقے سنکیانگ میں مسلمان انتہا پسندی کے ایک سنگین خطرے کا سامنا ہے۔ بیجنگ حکومت کا الزام ہے کہ ایغور مسلم اقلیت ہان چینی اکثریت کے ساتھ کشیدگی کو ہوا دے رہی ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
مغربی چینی علاقے سنکیانگ میں حفاظتی انتظامات سخت تر
چین کی قدیم شاہراہِ ریشم پر واقع شہر کاشغر میں دن میں تین بار الارم بجتا ہے اور دکاندار حکومت کی طرف سے دیے گئے لکڑی کے ڈنڈے تھامے فوراً اپنی دکانوں سے باہر نکل آتے ہیں۔ پولیس کی نگرانی میں منظم کی جانے والی ان انسدادِ دہشت گردی مشقوں کے دوران یہ دکاندار چاقو لہرانے والے فرضی حملہ آوروں کے خلاف لڑتے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
’وَن بیلٹ، وَن روڈ پروگرام‘
ایغور نسل کا ایک شہری صحرائے تکلامکان میں امام عاصم کے مقبرے کو جانے والے راستے پر جا رہا ہے۔ کاشغر نامی شہر کو، جو پہلے ایک تاریخی تجارتی چوکی ہوا کرتا تھا، صدر شی جن پنگ کے ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ نامی اُس اقتصادی پروگرام میں بھی مرکزی حیثیت حاصل ہے، جس کے ذریعے وہ چین کو ایشیا، مشرقِ وُسطیٰ اور اُس سے بھی آگے واقع خطّوں کے ساتھ جوڑ دینا چاہتے ہیں۔
چین کو ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ سمٹ میں خلل کا اندیشہ
خود مختار علاقے سنکیانگ ایغور میں ایک شخص اپنی بھیڑیں چرا رہا ہے۔ چین کے بدترین خدشات میں سے ایک یہ ہے کہ کوئی بہت بڑے پیمانے کا حملہ بیجنگ میں اُس ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ سمٹ کو نشانہ بنا سکتا ہے، جس میں کئی عالمی رہنماؤں کی شرکت متوقع ہے۔ علاقائی صدر مقام اُرمچی میں 2009ء میں ہونے والے نسلی ہنگاموں کے بعد سے سنکیانگ خونریز پُر تشدد واقعات کا مرکز بنا ہوا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
چین میں نسلی اقلیت
ایک خاتون صحرائے تکلامکان میں امام عاصم کے مقبرے کے قریب ایک قبر پر دعا مانگ رہی ہے۔ ایغور ترک زبان بولنے والی اقلیت ہے، جس کے زیادہ تر ارکان سنی مسلمان ہیں۔ ایغوروں کا شمار چین میں سرکاری طور پر تسلیم شُدہ پچپن اقلیتوں میں ہوتا ہے۔ اگرچہ ایغور مجموعی طور پر ایک قدرے معتدل اسلام پر عمل پیرا ہیں لیکن کچھ ایغور جا کر مشرقِ وُسطیٰ میں مسلمان ملیشیاؤں میں شامل ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
کمیونسٹ پارٹی کا دہشت گردی کے خلاف جنگ جاری رکھنے کا عزم
چینی میڈیا کے مطابق کسی دہشت گردانہ حملے کا خطرہ بہت زیادہ ہے اور اسی لیے کمیونسٹ پارٹی نے بھی مسلمان انتہا پسندوں کے خلاف اپنی جنگ جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ مثلاً چینی حکام نے مسلمان کمیونٹی کے رسم و رواج پر کئی طرح کی پابندیاں لگا دی ہیں۔ ریاستی پراپیگنڈے کو ’رَد کرنا‘ غیر قانونی قرار دیا گیا حالانکہ یہ واضح نہیں ہو سکا کہ حکام اس ضابطے کو نافذ کیسے کریں گے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
سی سی ٹی وی کیمروں کی تنصیب
بہت سے مقامی باشندوں کے خیال میں انسدادِ دہشت گردی کی مشقیں ایک ظالمانہ سکیورٹی آپریشن کا حصہ ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ گزشتہ چند مہینوں سے سنکیانگ کے ایغور علاقوں میں یہ آپریشن تیز تر کر دیا گیا ہے اور اس کا مقصد سکیورٹی سے زیادہ بڑے پیمانے پر نگرانی کرنا ہے۔ کاشغر میں ایک دکاندار نے بتایا:’’ہماری کوئی نجی زندگی نہیں رہ گئی۔ وہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ آپ کیا کرنے والے ہیں۔‘‘
تصویر: Reuters/T. Peter
مسلمانوں کی مخصوص روایات پر پابندی
مردوں پر لگائی گئی سب سے نمایاں پابندی یہ ہے کہ وہ اپنی ’داڑھیاں غیر معمولی طور پر نہ بڑھائیں‘۔ خواتین پر نقاب پہننے کی پابندی عائد کی گئی ہے۔ خاص طور پر ریلوے اسٹیشنوں اور ہوائی اڈوں جیسے عوامی مقامات میں برقعہ کرنے والی خواتین کا داخلہ ممنوع قرار دیا گیا ہے اور فوراً پولیس کو مطلع کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/T. Peter
سکیورٹی عملے کے چوکس ارکان
حکام نے ایسے لوگوں کے لیے انعام کا اعلان کر رکھا ہے، جو لمبی داڑھیوں والے نوجوانوں یا ایسی مذہبی روایات کی پاسداری کی اطلاع دیں گے، جس میں انتہا پسندی کا پہلو نکل سکتا ہو۔ اس طرح مخبری کا ایک باقاعدہ نظام تشکیل دیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کے علمبردار گروپ ایسے احکامات کو ہدفِ تنقید بنا رہے ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Peter
معیشت یا سلامتی؟
حکومت سنکیانگ میں جبر کی پالیسیاں اختیار کرنے کے الزامات کو مسترد کرتی ہے اور اُن بھاری رقوم کا ذکر کرتی ہے، جو معدنی وسائل سے مالا مال اس خطّے کی اقتصادی ترقی کے لیے خرچ کی جا رہی ہیں۔ چین کی نسلی پالیسیوں کے ایک ماہر جیمز لائی بولڈ کے مطابق سنکیانگ میں سکیورٹی کے اقدامات لوگوں اور خیالات کے بہاؤ کو روکیں گے اور یوں ’وَن بیلٹ، وَن روڈ‘ پروگرام کے خلاف جاتے ہیں۔