1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتایشیا

چین نے بھارت میں جی 20 میٹنگ کا بائیکاٹ کیوں کیا؟

صلاح الدین زین ڈی ڈبلیو، نئی دہلی
27 مارچ 2023

بھارتی ذرائع ابلاغ کے مطابق 26 مارچ اتوار کو چین نے بھارت کی شمال مشرقی ریاست اروناچل پردیش میں ہونے والی جی 20 کی ایک اہم میٹنگ میں شامل ہونے سے انکار کر دیا۔ یہ میٹنگ ریاستی دارالحکومت ایٹا نگر میں ہوئی۔

Indien Arunachal Pradesh Grenzkonflikt mit China
تصویر: MONEY SHARMA/AFP

چین بھارت کے زیر انتظام خطہ اروناچل پردیش کو تسلیم نہیں کرتا اور اس کا دعویٰ ہے کہ یہ خطہ اس کی جنوبی ریاست تبت کا ہی ایک حصہ ہے اور بھارت نے اس پر’’غیر قانونی طور پر قبضہ کر رکھا ہے۔‘‘ جب بھی بھارت کا کوئی اہم سرکاری عہدیدار اس علاقے کا دورہ کرتا ہے تو چین اس پر اعتراض بھی کرتا ہے۔

چین اور پاکستان ساتھ ہیں، جنگ ہوئی تو بھارت کا بہت نقصان ہو گا، راہول گاندھی

 بھارت ماضی میں ایسے دعووں کو مسترد کرتا رہا ہے اور اروناچل پردیش کو اپنا اٹوٹ حصہ قرار دیتا ہے۔

مودی حکومت چین کے مسئلے پر بحث سے خوف زدہ کیوں ہے؟

 اتوار کے روز اروناچل پردیش میں ہونے والی اس میٹنگ میں پچاس سے زیادہ مندوبین نے شرکت کی، تاہم چین اس میں شامل نہیں ہوا۔ آئندہ ستمبر میں دہلی میں ہونے والے جی 20 سربراہی اجلاس سے قبل بھارت اپنے 50 بڑے شہروں میں درجنوں طے شدہ پروگرام کر رہا ہے اور یہ بھی اسی میں سے ایک تھا۔ جی 20 کی صدارت فی الوقت بھارت کے پاس ہے۔

پینگانگ جھیل پر چینی پل کی تعمیر غیر قانونی ہے، بھارت

ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ آیا چین نے اس میٹنگ کے حوالے سے بھارت کے ساتھ باضابطہ طور پر احتجاج درج کرایا یا نہیں۔ نئی دہلی میں وزارت خارجہ نے اور نہ ہی بیجنگ نے اب تک اس پر کوئی تبصرہ کیا ہے۔ حالانکہ ماضی میں چین بھارتی حکام کے دورہ اروناچل پردیش پر کھل کر اعتراض کرتا رہا ہے۔

چین کے حالیہ اقدامات پر بھارت کا سخت رد عمل

ویک اینڈ پر ہونے والی اس میٹنگ کو خفیہ قرار دیا گیا تھا اور میڈیا کو اسے کور کرنے کی بھی اجازت نہیں دی گئی تھی۔

چین اروناچل پردیش کواپنی زبان میں ’’زنگ نان‘‘ کہتا ہے۔ وہ اس کے 90 ہزار مربع کلومیٹر رقبے پر اپنا دعویٰ کرتا ہےتصویر: Prabhakar Mani Tewari/DW

اطلاعات کے مطابق ’ریسرچ انوویشن انیشی ایٹیو گیدرنگ‘ کے موضوع پر ہونے والے اس اجلاس کا اہتمام بھارت کے محکمہ سائنس اور ٹیکنالوجی نے کیا تھا۔

جن مندوبین نے میٹنگ میں شرکت کی انہیں اروناچل پردیش کی قانون ساز اسمبلی اور ایٹا نگر کی ایک معروف بدھ خانقاہ کا بھی دورہ کروایا گیا۔ ان کی آمد پر حکام نے ائیر پورٹ پر ہی ثقافتی پروگرام کا بھی اہتمام کیا تھا۔

اروناچل پردیش کا تنازعہ  

مشرقی لداخ میں مہینوں سے جاری سرحدی تعطل کے درمیان گزشتہ دسمبر میں بھارت اور چینی فوجیوں کے درمیان ریاست اروناچل پردیش کے توانگ سیکٹر میں بھی لائن آف ایکچوئل کنٹرول (ایل اے سی) کے پاس جھڑپیں ہوئی تھیں۔

اس وقت بھارتی وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے چین پر الزام لگایا تھا کہ وہ ایل اے سی پر صورت حال کو ’’یکطرفہ طور پر‘‘ تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

گزشتہ برس چین نے اپنے نقشے میں بھارتی ریاست اروناچل پردیش کے 15 مقامات کا نام تبدیل کر کے نئے ناموں کا اعلان کیا تھا۔ چین کا دعوی ہے کا اروناچل پردیش اس کا علاقہ تبت کا ہی ایک حصہ ہے اور وہ اس ریاست پر بھارتی قبضے کو غیر قانونی بتاتا ہے۔ تاہم بھارت کا کہنا ہے کہ ارونا چل اس کا اٹوٹ حصہ ہے۔

چین اروناچل پردیش کواپنی زبان میں ’’زنگ نان‘‘ کہتا ہے۔ وہ اس کے 90 ہزار مربع کلومیٹر رقبے پر اپنا دعویٰ کرتا ہے۔ بھارت نے ان ناموں کی تبدیلی کو بھی یہ کہہ کر مسترد کر دیا تھا کہ یہ ’’ایک فضول کی مشق ہے‘‘ اور اروناچل پردیش اس کا اٹوٹ حصہ ہے۔  

دیرینہ سرحدی تنازعہ

بھارت اور چین کے درمیان شمال مشرقی علاقے سکم سے لے کر مشرقی لداخ تک تقریباً تین ہزار کلو میٹر لمبی سرحد ہے۔ بیشتر علاقے میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول قائم ہے اور دونوں کے درمیان سرحدی تنازعہ بھی دیرینہ ہے۔

ایل اے سی پر تنازعے کی وجہ سے ہی دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین گزشتہ تقریبا تین برسوں سے مشرقی لداخ میں کچھ زیادہ ہی کشیدگی پائی جاتی ہے۔ سن 2020 کے جون میں رات گئے مشرقی لداخ کی وادی گلوان میں دونوں ممالک کے فوجی دستوں کے مابین شدید جھڑپیں ہوئی تھیں، جن میں بھارت کے کم از کم بیس اور چین کے چار فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔

پینگانگ جھیل کا حسن سرحدی کشیدگی کی زد میں

03:10

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں