1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

چین نے جبری مشقت کی بین الاقوامی کنونشنز کی توثیق کردی

21 اپریل 2022

چین نے جبری مشقت سے متعلق دو مختلف بین الاقوامی کنونشنز کی توثیق کرنے کا اعلان کیا ہے۔ صوبے سنکیانگ کے علاقے میں اقلیتوں کے ساتھ بیجنگ کے سلوک پر مغربی دباؤ اور تنقید کے تناظر میں یہ ایک اہم قدم ہے۔

Tableau | Xinjiang - Baumwollanbau | Uighren | 25.03.2021
تصویر: VCG/imago images

چین میں قانون سازوں نے 20 اپریل بدھ کے روز اپنے ایک اہم فیصلے میں جبری مشقت کے خلاف دو الگ الگ بین الاقوامی کنونشنز کی توثیق کرنے کا اعلان کر دیا۔

چین کی اعلی مقننہ کے ایک اعلان کے مطابق نیشنل پیپلز کانگریس نے، مزدوروں سے متعلق عالمی تنظیم 'انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن' (آئی ایل او) کے سن 1930 کے جبری مشقت کنونشن، اور جبری مشقت کے خاتمے سے متعلق 1957 کے کنونشن کی توثیق کو منظوری دے دی ہے۔

آئی ایل او کے مطابق ان کنونشنز کی توثیق کرنے والے ممالک کے لیے کسی بھی قسم کی جبری مشقت یا لازمی مزدوری کے استعمال سے نہ صرف گریز کرنا ضروری ہے بلکہ اس کی حوصلہ شکنی کرنا بھی لازمی ہے۔ اس کنونشن کو تسلیم کرنے والوں پر جبری مزدوری کو ''فوری اور مکمل طور پر خاتمے'' کو محفوظ بنانے کے لیے بھی کام کرنا چاہیے۔

یورپی یونین نے انسانی حقوق کے خدشات کی وجہ سے جب سن 2020 میں چین کے ساتھ دو طرفہ سرمایہ کاری کے معاہدے پر دستخط کیے تھے، تو اس میں ان کنونشنز کی توثیق کی پیشگی شرائط عائد کر دی گئی تھیں۔ 

ادھر امریکہ نے چین سے ان ممکنہ درآمدات کو روک دیا تھا، جن کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ جبری مشقت کا نتیجہ ہو سکتی ہیں۔

تصویر: Kevin Frayer/Getty Images

صوبے سنکیانگ میں جبری مشقت پر تنقید

چین کو اپنے صوبے سنکیانگ میں جبری مشقت کے استعمال کے ساتھ ہی خطے میں انسانی حقوق کی دیگر عمومی خلاف ورزیوں کے لیے کافی

 دنوں سے بین الاقوامی نکتہ چینی کا سامنا رہا ہے۔

مزدوروں سے متعلق عالمی تنظیم 'انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن' (آئی ایل او) نے اپنی فروری کی رپورٹ میں چین پر سخت تنقید کی تھی۔ اقوام متحدہ کی ایجنسی نے اپنی رپورٹ میں اقلیتوں کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر بھی ''گہری تشویش'' کا اظہار کیا تھا۔

تنظیم نے یہ الزام لگایا تھا کہ ایک منظم طریقے سے ایغور اور دیگر نسلی اقلیتوں کو شعبہ زراعت میں کام کرنے کے لیے مجبور کیا جا رہا ہے۔

ایک اندازے کے مطابق 10 لاکھ سے بھی زیادہ ایغور اور دیگر ترک مسلم اقلیتوں کو ذہن سازی کے لیے مبینہ ری ایجوکیشن کیمپوں میں قید کر کے رکھا گیا ہے۔ چین کا دعویٰ ہے کہ یہ تعلیمی مراکز ہیں جن کا مقصد اسلامی انتہا پسندی کو ختم کرنا ہے۔

امریکہ اور دنیا کے دیگر ممالک کا کہنا ہے کہ یہ ایک طرح کی نسل کشی ہے جو انسانیت کے خلاف جرائم کے نظام کا ایک حصہ ہے۔

چین آئندہ مئی میں اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کی سربراہ مشیل بیچلیٹ کے تاخیر سے ہونے والے دورے کی توقع کر رہا ہے۔ اس میں سنکیانگ کا دورہ بھی شامل ہے۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، ایل یو ایس اے)

چین: ایغور مسلمان بچوں کی شرح پیدائش کم کرنے کی جبری کوشش

02:50

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں