حال ہی میں چین نے ایک ایسا سُپر کمپیوٹر بنایا ہے جسے اب تک کا دنیا کا تیز ترین کمپیوٹر قرار دیا جا رہا ہے۔ ماضی کے برعکس اس کمپیوٹر میں پہلی مرتبہ چین ہی میں تیار کردہ پروسیسر استعمال کیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Top 500 Supercomputers Site
اشتہار
رپورٹوں کے مطابق مکمل طور پر چین میں بنائے گئے ایک نئے سُپر کمپیوٹر کو دنیا کے تیز ترین کمپیوٹرز کی لسٹ میں سرفہرست رکھا گیا ہے۔ اس کمپیوٹر کا پروسیسر بھی چین ہی میں بنایا گیا ہے، چینی کمپیوٹرز میں میں اس سے قبل امریکی پروسیسر استعمال کیے جاتے تھے۔
جرمنی اور امریکی محققین کی ایک ٹیم، جو دنیا کے سب سے تیز کمپیوٹرز کی لسٹ TOP500 تیار کرتی ہے، نے آج بیس جون بروز پیر جاری کردہ اپنی نئی فہرست میں بتایا ہے کہ کمپیوٹر انجینیرنگ کے بارے میں چین کے نیشنل ریسرچ سینٹر کی جانب سے تیار کیا گیا Sunway TaihuLight نامی کمپیوٹر رفتار کے اعتبار سے دنیا کا تیز ترین کمپیوٹر ہے۔
دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ پچھلے چھ سال تک مسلسل تیز ترین کمپیوٹرز میں سرفہرست رہنے والا Tianhe-2 نامی کمپیوٹر بھی چین ہی میں تیار کیا گیا تھا۔ تاہم اس میں استعمال ہونے والا پروسیسر امریکی کمپنی ’اِنٹل‘ کا تیار کردہ تھا۔
سُپر کمییوٹر بنانے میں امریکا کئی دہائیوں سے سرفہرست چلا آ رہا ہے۔ یہ سپرکمپیوٹر موسم کی پیش گوئی کرنے اور ایٹمی ہتھیار ڈیزائن کرنے سمیت کئی دیگر شعبوں میں استعمال کیے جاتے ہیں۔
موجودہ تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ تیز ترین کمپیوٹرز کی فہرست میں چین نے مجموعی طور پر بھی امریکا کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ TOP500 فہرست میں اس برس چین میں بنائے گئے 167 کمپیوٹر شامل ہیں جب کہ اس کے مقابلے میں اس مرتبہ 165 امریکی کمپیوٹر اس فہرست میں جگہ بنانے میں کامیاب رہے۔
فہرست تیار کرنے والے محققین نے چین کی اس تیز رفتار ترقی کے بارے میں لکھا ہے، ’’دس سال پہلے اس فہرست میں محض 28 چینی سُپر کمپیوٹرز شامل تھے جن میں سے کوئی بھی پہلے 30 تیز ترین کمپیوٹرز میں شامل نہیں ہو سکا تھا۔ اس امر سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین نے کسی بھی دوسرے ملک کی نسبت سُپر کمپیوٹرز کے شعبے میں انتہائی تیز رفتاری سے ترقی کی ہے۔‘‘
ایپل کے چالیس برس: ایک گیراج سے دنیا کے ہر کونے تک
چالیس برس پہلے امریکا کے تین نوجوانوں نے ایپل کمپیوٹر کمپنی کی بنیاد رکھی تھی۔ ایک گیراج سے شروع ہونے والی یہ کمپنی آج دنیا کی مہنگی ترین کمپنیوں میں سے ایک ہے۔ اس کی تاریخ پر ایک نظر۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Apple
آغاز ایک گیراج سے
اس کا آغاز 1976ء میں اکیس سالہ سٹیو جابز (دائیں جانب) کے والدین کے گیراج سے کیلیفورنیا میں ہوا۔ سٹیو جابز نے اپنے دوستوں سٹیو وسنیاک(بائیں جانب) اور رونالڈ وین کے ساتھ ایپل کمپیوٹر کمپنی کی بنیاد رکھی۔ وین نے گیارہ دن بعد ہی اس کمپنی کا ساتھ چھوڑ دیا۔ انہوں نے اپنا حصہ تئیس سو امریکی ڈالر میں فروخت کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Apple
ٹیپ ریکارڈر کی تکنیک
سب سے پہلی پراڈکٹ کا نام ایپل ون رکھا گیا۔ یہ کمپیوٹر بنیادی طور پر ایک سرکٹ بورڈ، ایک کی بورڈ اور ایک مونیٹر پر مشتمل تھا۔ سی پی یو نما ایک ڈبہ علیحدہ خریدنا پڑتا تھا۔ اس میں ٹیپ ریکارڈر کی تکنیک استعمال کی گئی تھی۔ آوازوں کو محفوظ کیا جا سکتا تھا اور پھر اپ لوڈ بھی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Ben Margot
دو سو سے دو ملین تک
1977ء میں ایپل ٹو مارکیٹ میں لایا گیا۔ ایپل ون کے صرف دو سو سیٹ فروخت ہوئے۔ ہر سیٹ کی قیمت 666 امریکی ڈالر تھی۔ یہ آمدنی ناکافی تھی۔ اسی سال ایپل کو ایک کارپوریشن میں تبدیل کر دیا گیا۔ امریکی تاجر مائیک مارکولا نے ڈھائی لاکھ ڈالر کی سرمایہ کاری کی اور کمپنی کے چھبیس فیصد حصص کے مالک بن گئے۔ انیس سو اکیاسی سے انیس سو تریاسی تک وہ کمپنی کے سربراہ رہے۔ اس دوران ایپل ٹو کے دو ملین کمپیوٹر فروخت ہوئے۔
تصویر: cc-by-2.0 Marcin Wichary
اسٹیو جابز کی بے دخلی
1983ء میں جان سکیلی (دائیں جانب) ایپل کے نئے سربراہ بنے۔ انہوں نے سٹیو جابز(بائیں جانب) کے ساتھ مل کر ماؤس والا پرسنل کمپیوٹر ’لیزا‘ پیش کیا۔ 1985ء میں دونوں کے مابین اختلافات پیدا ہوئے۔ جابز نے کمپنی چھوڑ دی اور نئی کمپیوٹر کمپنی نیکسٹ (NeXT) کی بنیاد رکھی۔
تصویر: Imago/United Archives International
ایپل بحران کا شکار
اسّی کی دہائی کے اواخر میں پہلا پورٹیبل کمپیوٹر پیش کیا گیا۔ 1990ء میں حریف کمپنی مائیکروسافٹ کی وجہ سے ایپل شدید دباؤ کا شکار ہو گئی۔ 1993ء میں ایپل کمپنی خسارے میں چلی گئی اور جان سکیلی کو جانا پڑا۔ 1996ء میں ایک بہتر آپریٹنگ سسٹم کی تلاش میں ایپل نے چار سو ملین کے عوض نیکسٹ کو خرید لیا۔ اس طرح سٹیو جابز کی واپسی ہوئی اور ایک سال بعد وہ ایپل کے سربراہ بن گئے۔
تصویر: Delsener
شاندار واپسی
1998ء میں ایپل نے نئے ڈیزائن کے ساتھ آئی میک لانچ کر دیا۔ ایپل کی اس کامیاب کمرشل واپسی نے مارکیٹ میں ایک ہلچل پیدا کر دی تھی۔ میک سے پہلے ’آئی‘ کا مطلب ’انٹرنیٹ، انفرادی، انفارم اور انسپائر پیش کیا گیا۔ یہ ایپل کی متعدد مصنوعات کی شناخت بنا۔
تصویر: Imago/UPI Photo
ایک نسل کی آواز
2001ء میں جان روبن سٹائن نے ایپل کے سی ای او جابز کو ایک اعشاریہ آٹھ انچ کی ڈسک کے ساتھ ایک ایم پی تھری پلیئر کا خیال پیش کیا۔ جابز نے فوری طور پر گرین سگنل دے دیا۔ اس کے بعد آئی پوڈ وجود میں آیا اور پھر آئی ٹیونز میوزک اسٹور۔ دیکھتے ہی دیکھتے یہ مصنوعات مارکیٹ پر چھا گئیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
آئی فون نے مغربی دنیا فتح کر لی
2007ء میں ایپل نے آئی فون اور ایپل ٹی وی لانچ کر دیا۔ ایپل کپمنی پرسنل کمپیوٹرز کی مارکیٹ سے کہیں آگے جانا چاہتی تھی، یوں ’ایپل کمپیوٹر‘ کو ’ایپل انک‘ یعنی ایپل انکارپوریٹڈ کا نام دے دیا گیا۔ ٹچ سکرین والا فون دھماکہ خیز ثابت ہوا۔ 2015ء تک دنیا بھر میں 900 ملین آئی فون فروخت کیے جا چکے تھے۔
تصویر: picture alliance/AP Images/P. Sakuma
ایک عہد کا خاتمہ
2010ء میں سٹیو جابز نے اپنی کمپنی کی تازہ ترین ایجاد آئی پیڈ مارکیٹ میں پیش کی۔ ایک برس بعد طبی مسائل کی وجہ سے جابز نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ ٹِم کُک نئے سربراہ بنے۔ پانچ اکتوبر 2011ء کو کینسر کی وجہ سے سٹیو جابز وفات پا گئے۔
تصویر: cc-by William Avery/Matt Buchanan
ایجاد کس کی تھی؟
2011ء سے ایپل اور سام سنگ کے مابین رسہ کشی جاری ہے۔ ایپل کا الزام ہے کہ جنوبی کوریا کی کمپنی سام سنگ نے ان کی ٹیکنالوجی چرائی ہے۔ دونوں کے مابین عالمی سطح پر حقوق کی ملکیت کی جنگ جاری ہے۔ امریکا میں بدستور جاری مقدموں کو چھوڑ کر باقی زیادہ تر مقدمے اپنے اختتام کو پہنچ چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
دنیا کی سب سے مال دار کمپنی
2014ء میں ایپل کی مارکیٹ ویلیو 700 ارب ڈالر سے بھی تجاوز کر گئی تھی۔ اس حد کو عبور کرنے والی یہ دنیا کی واحد کمپنی تھی۔ ایک سال بعد ایپل واچ لانچ کرنے کی وجہ سے بھی یہ کپمنی سرفہرست رہی۔
تصویر: Reuters/S. Lam
نئے ساحلوں کی تلاش
2016ء کا آغاز ایپل کے لیے زیادہ اچھا نہیں رہا۔ ایپل کی جگہ گوگل کا ادارہ ’الفابیٹ‘ سب سے زیادہ مالیت والا ادارہ بن چکا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق مغربی ملکوں میں سمارٹ فونز کی مارکیٹ سیر ہونے کو ہے۔ ایپل کو اپنی کامیابی کے لیے نئی اختراعات کے ساتھ مارکیٹ میں آنا ہو گا۔