چین نے متنازعہ ہانگ کانگ سکیورٹی قانون کی منظوری دے دی
30 جون 2020
چینی پارلیمان نے ہانگ کانگ کے لیے متنازعہ سکیورٹی قانون کی منظوری دے دی ہے، جسے تقریباً 23 برس قبل برطانیہ سے چینی عملداری میں واپس آنے والے اس خود مختار علاقہ کے لیے ایک بہت بڑی بنیادی تبدیلی قرار دیا جارہا ہے۔
اشتہار
یہ نئی پیش رفت امریکا اور چین کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی کے درمیان ہوئی ہے اور ناقدین کا کہنا ہے کہ اس نئے قانون سے ہانگ کانگ کی آزادی پر قدغن لگ جائے گی۔
چینی میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق چین کے اعلی ترین قانون ساز ادارے نیشنل پیپلز کانگریس کی اسٹینڈنگ کمیٹی نے منگل کے روز اس قانون کو اتفاق رائے سے منظورکرلیا۔ اس سے1997ء میں ہانگ کانگ کے برطانیہ سے چینی اقتدار میں آنے کے بعد سے اس خود مختار علاقے میں اب تک کی سب سے بڑی تبدیلی کے لیے راستہ ہموار ہوگیا ہے۔
اس نئی پیش رفت کو امریکا، برطانیہ اور دیگر مغربی ممالک کی حکومتوں کے ساتھ ٹکراؤ کے راستے پر چلنے والے چین کا ایک بڑا قدم سمجھا جارہا ہے۔ ان ملکوں کا کہنا ہے کہ اس قانون کی منظوری کے بعد دنیا کے بڑے مالیاتی مراکز میں شامل ہانگ کانگ کی خودمختاری محدود ہوجائے گی۔
گوکہ اس قانون کا مسودہ ابھی تک جاری نہیں کیا گیا ہے تاہم چین کا کہنا ہے کہ یہ قانون دہشت گردی، علیحدگی پسندی اور غیر ملکی طاقتوں کے ساتھ مل کر شرپسندی کرنے والوں سے نمٹنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ گزشتہ برس اس قانون پر بحث شروع ہونے کے بعد سے ہی جمہوریت نوازو ں کی طرف سے ہانگ کانگ میں کئی پرتشدد مظاہرے ہوچکے ہیں۔
کئی سوال اب بھی حل طلب
چین نے ابھی تک سرکاری طورپر اس قانون کی منظوری کی تصدیق نہیں کی ہے اور قانون کے مسودے کو بھی عام نہیں کیا گیا ہے۔ اس لیے بہت سارے سوالوں کے جواب ہنوز باقی ہیں۔ مثلاً یہ واضح نہیں ہے کہ کس طرح کی مخصوص سرگرمیوں کو غیر قانونی قرار دیا گیا ہے یا ان کی وضاحت کیسے کی جائے گی اور ان کے لیے سزا کا تعین کس طرح کیا جائے گا۔
بتایا جارہا ہے کہ بیجنگ مقامی حکومت کی ''نگرانی، رہنمائی اور تعاون" کے لیے ہانگ کانگ میں ایک نیشنل سکدورٹی آفس قائم کرے گا۔
نامعلوم ذرائع کے مطابق چین کی سرکاری خبر رسا ں ایجنسی سنہوا منگل کو کسی وقت اس قانون کی تفصیلات شائع کرے گی۔ ہانگ کانگ کے حکام بھی اس قانون پر تبادلہ خیال کے لیے شہر میں واقع بیجنگ کے اعلی نمائندے کے دفتر میں ملاقات کریں گے۔
اس دوران امریکا نے ہانگ کانگ کے سلسلے میں نئے سکیورٹی قانون لانے کے اعلان کے بعد ہی ہانگ کانگ کو جدید ترین ہتھیاروں کی سپلائی پر پابندی عائد کردی۔ امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے منگل کے روز ان پابندیوں کا اعلان کیا۔
پومپیو نے ایک ٹوئٹ کرکے کہا ”آج امریکا ہانگ کانگ کو دفاعی آلات اور دوہرے استعمال میں آنے والی حساس ٹکنالوجی کے برآمدات پر پابندی عائد کرنے جارہا ہے۔ اگر بیجنگ ہانگ کانگ کو ایک ملک، ایک نظام سمجھتا ہے تو ہمیں بھی یقینی طور پر ایسا ہی سمجھنا ہوگا اور ہم ہانگ کانگ اور چین میں فرق نہیں کرسکتے۔"
امریکی وزیر خارجہ پومپیو نے کہا، ”ہم یہ خطرہ مول نہیں لے سکتے کہ یہ آلات اورتکنیک چینی فوج پیپلز لبریشن آرمی کے ہاتھ لگ جائے، جس کا اصل مقصد چینی کمیونسٹ پارٹی کی آمریت کو ہر حال میں برقرار رکھنا ہے۔"
دفاعی برآمدات کو روکنے اور اعلی ٹکنالوجی مصنوعات تک ہانگ کانگ کی رسائی کو محدود کرنے کا یہ فیصلہ واشنگٹن نے چین کی طرف سے امریکی شہریوں کے لیے نئی ویزا پابندیوں کے نفاذ کے اعلان کے بعد کیا۔ چین نے یہ قدم امریکا کی طرف سے اسی طرح کے اقدام کے جواب میں اٹھایا تھا۔
دریں اثنا امریکی محکمہ کامرس نے بھی ایک بیان میں کہا کہ وہ ہانگ کانگ کے ساتھ ترجیحی سلوک کو معطل کررہا ہے جس میں ایکسپورٹ لائسنس سے استشنٰی شامل ہے۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ہانگ کانگ کو حاصل موجودہ حیثیت کو ختم کرنے کے لیے دیگر اقدامات کا بھی جائزہ لیا جارہا ہے۔
ج ا / ک م (ایجنسیاں)
چین کو واپسی کے بعد کی ہانگ کانگ کی بیس سالہ تاریخ
ایک سو چھپن سال تک برطانیہ کی حکمرانی میں رہنے کے بعد ہانگ کانگ کو بیس سال قبل چین کو واپس سونپ دیا گیا تھا۔ ان دو عشروں کے دوران اس علاقے کی تاریخ میں مین لینڈ چین اور سارس کی وبا کے خلاف بے شمار احتجاجی مظاہرے ہوئے۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن انیس سو ستانوے، تاریخی لمحہ
برطانیہ سے عوامی جمہوریہ چین کو ہانگ کانگ کی واپسی یکم جولائی سن انیس سو ستانوے کو عمل میں آئی۔ اس کے بعد سے ہانگ کانگ میں’ایک ملک دو نظام‘ رائج ہے۔
تصویر: Reuters/D. Martinez
سن انیس سو نناوے، خاندان ایک نہیں ہو سکتے
ہانگ کانگ کی سرحد پر تقسیم ہو جانے والے خاندانوں کو امید تھی کہ چین حوالگی کے بعد وہ اپنے بچھڑے رشتہ داروں سے مل سکیں گے۔ تاہم اس ضمن میں یومیہ 150 چینیوں کا ہانگ کانگ میں بسنے کا کوٹا مختص کیا گیا اور بہت سے لوگ مایوس رہ گئے۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن دو ہزار دو، ریزہ ریزہ امیدیں
رہائش کا یہ مسئلہ سن 2002 میں دوبارہ اُسوقت بڑھا جب ہانگ کانگ نے چار ہزار کے قریب اُن چینیوں کو ڈی پورٹ کرنا شروع کیا جو وہاں رہنے کی قانونی لڑائی ہار گئے تھے۔ تصویر میں نظر آنے والے ان پریشان حال خاندانوں کو اُس پارک سے نکال دیا گیا تھا جہاں وہ احتجاج کر رہے تھے۔
تصویر: Reuters/K. Cheung
سارس کی عالمی وبا کی شروعات
سن دو ہزار تین میں انتہائی متعدی مرض سارس ہانگ کانگ سے پھیلا تھا۔ اس وائرس سے فلو جیسی کیفیت والی بیماری کو عالمی ادارہ صحت نے ’وبا‘ قرار دے دیا تھا۔ ہانگ کانگ میں اس بیماری سے قریب تین سو افراد ہلاک ہوئے تھے۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن دو ہزار چار، جمہوریت کے حق میں ریلی
چین کی ’ایک ملک دو نظام‘ کی پالیسی سے وہاں صورت حال اکثر کشیدہ رہی ہے۔ ہانگ کانگ کی چین حوالگی کی ساتویں سالگرہ کے موقع پر ہزار ہا افراد نے ہانگ کانگ میں احتجاجی مظاہرہ کیا۔ یہ افراد سیاسی اصلاحات، جمہوریت اور ہانگ کانگ کے آئندہ لیڈر کے چناؤ کے لیے براہ راست انتخابات کا مطالبہ کر رہے تھے۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن دو ہزار آٹھ، رہنے کا کوئی ٹھکانہ نہیں
ہانگ کانگ میں جائیداد کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے سبب گھروں کے کرائے بھی زیادہ ہو گئے۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر افراد کو نام نہاد’ کیج ہوم یا پنجرہ گھر‘ میں رہنا پڑتا تھا۔ سن دو ہزار آٹھ تک ایسا طرز رہائش ہانگ کانگ میں غیر معمولی بات نہیں تھی۔
تصویر: Reuters/V. Fraile
سن دو ہزار نو، تیانامن اسکوائر کی یاد میں
تیانامن اسکوائر میں سفاکانہ حکومتی کریک ڈاؤن کی بیسویں سالگرہ کے موقع پر ہانگ کانگ کے وکٹوریہ پارک میں بڑی تعداد میں ہانگ کانگ کے باشندوں نے جمع ہو کر موم بتیاں روشن کیں۔
تصویر: Reuters/A. Tam
سن دو ہزار چودہ، مزید خود مختاری کا مطالبہ
ستمبر سن دو ہزار چودہ میں مزید خودمختاری کے لیے کیے جانے والےمظاہروں نے دو ماہ تک ہانگ کانگ کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھا۔ ان مظاہروں کو ’امبریلا ریوولوشَن‘ کا نام دیا گیا کیونکہ مظاہرین پولیس کی جانب سے مرچ کے اسپرے اور آنسو گیس سے بچنے کے لیے چھتریوں کا استعمال کرتے تھے۔
تصویر: Reuters/T. Siu
سن دو ہزار پندرہ، جب کھیل میں سیاسی رنگ آیا
’امبریلا ریوولوشن‘ کے ایک سال سے بھی کم عرصے میں چینی فٹ بال ٹیم نے 17 نومبر سن دو ہزار پندرہ کو ایک فٹ بال ورلڈ کپ کوالیفائنگ میچ ہانگ کانگ کے خلاف کھیلا۔ تاہم ہانگ کانگ میں ان کا دوستانہ خیر مقدم نہیں کیا گیا۔ جب چین کا قومی ترانا بجایا جا رہا تھا تو تماش بینوں نے ایسے پوسٹر اٹھا رکھے تھے جن پر تحریر تھا،’’ ہانگ کانگ چین نہیں ہے‘‘ یہ میچ صفر، صفر پر ختم ہو گیا۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن دو ہزار سولہ، تشدد کا ایک اور دور
سن دو ہزار سولہ میں ہانگ کانگ کی پولیس کی سخت گیر حکمت عملی ایک بار پھر شہ سرخیوں کی زینت بنی۔ ہانگ کانگ حکام نے پڑوسی ملک کے غیر قانونی خوانچہ فروشوں کے خلاف آپریشن شروع کیا۔ انتظامیہ نے مظاہرین سے نمٹنے کے لیے پولیس کو بھیجا جس نے اُن پر ڈنڈوں اور مرچوں والے اسپرے کا استعمال کیا۔ مظاہرین اور پولیس کے درمیان ہونے والا یہ تصادم کم خونریز نہیں تھا۔